کیا آپ اس بات سے متفق ہیں کہ تصویر نہ بنے تو برش اور کینوس توڑ دینا چاہیے؟ساڑھے گیارہ سال کا ایک لڑکا مکان کے اسٹور میں بیٹھا ، برش سے ایک موٹے کاغذ پر تصویر بنانے کی کوشش کر رہا تھا ، آہٹ ہوئی،وہ چونک پڑا اور برش پھینک کر کھڑا ہو گیا، نیلی آنکھوں سے ادھر ادھر دیکھا،صرف وہم تھا۔وہ کمزور جسم پھر سے دوزانو بیٹھ گیا اور تصویر بنانے میں مشغول ہو گیا۔ننھا مصور کیا تصویر بنا رہا تھا، یہ تو کوئی نہیں جانتا، لیکن ایک بات ہے کہ وہ جو کچھ بھی بنانا چاہتا تھا،وہ بن نہیں پا رہا تھا۔شاید اسی لیے اس نے برش کو موٹے کاغذ پر دے مارا۔برش ٹوٹ گیا، کاغذ پھٹ گیا، رنگوں کی چند فضول سی ڈبیاں(جو ٹین کے چھوٹے سے ڈبے میں پڑی تھیں) ایک طرف گر گئیں۔بچہ تیزی سے اٹھا،خراب شدہ تصویر کو بری نظر سے دیکھا،رنگوں کو ہلکا سا ٹھڈ مارا اور باہر نکل گیا۔لکڑی کی سیڑھیاں اتر رہا تھا کہ سامنے باپ پر نظر پڑی،بچہ سہم گیاکہ شاید باپ کو تصویر بنانے کا علم ہو گیا ہے لیکن باپ کی سخت مسکراہٹ نے حوصلہ افزائی کی ،وہ بھاگتا ہوا نیچے اترا اور گھر سے باہر نکل گیا۔اوپر اسٹور میں ٹوٹا برش اور کچلی تصویر ننھے اڈولف کے رویے پر غور وفکر کر رہے تھے۔کیا تصویر نہ بننے پر برش اور کینوس توڑ دینا چاہیے؟
ننھے اڈولف ہٹلر کا برش اور کینوس کے ساتھ یہ سلوک اس کے چڑچڑے پن کو ظاہر کرتا ہے،ورنہ اسے ان چیزوں سے نفرت نہ تھی۔وہ مصوری سے شدید لگاؤ رکھتا تھا۔فطری سی بات ہے ، دبلا پتلا کمزور سا،لمبی لمبی انگلیوں والا بچہ جس کی نیلی آنکھیں ہر وقت ادھر ادھر دیکھتی رہتی ہوں،صرف مصور ہی لگ سکتا ہے ،کچھ اور نہیں۔ننھے اڈولف ہٹلر کو مصوری کا شوق جنون کی حد تک تھا ۔اپنے بارے میں اس کاخواب یہ تھا کہ وہ ایک معروف اور عظیم مصور بنے۔یا پھر اس کے سوانح نگار کے مطابق ایک بار اس نے پادری بننے کی خواہش کا اظہار کیا تھا،جو ظاہر ہے کہ پوری نہیں ہوئی۔ہٹلر کا باپ اس کے اس شوق سے سخت نالاں تھا ۔ خبردار اگر آئندہ یہ خرابی کی۔ یہ فقرہ ننھے ہٹلر کو اس وقت سننا پڑتا،جب وہ رنگے ہاتھوں پکڑا جاتا۔وہ رنگ آلود ہاتھ صاف کرتا اور باپ کو کوری آنکھوں سے دیکھنا شروع کر دیتا ، ایسے جیسے تقدیر کو دیکھ رہا ہو۔ایک بار باپ کی سخت ڈانٹ سے دل برداشتہ ہو کر وہ ماں کی گود میں سر رکھ کر لیٹ گیا۔اس کی آنسو بھری آنکھیں ماں کے مقدس چہرے پر جمی ہوئی تھیں۔ماں نے اداس ہٹلر کو دیکھا،ہٹلر کے کچھ کہے سنے بغیر ہی ماں سمجھ گئی۔ماں نے اسے دلاسہ دیا کہ وہ مصور بننے میں اس کی مدد کرے گی،اور اس کے باپ کو سمجھائے گی۔
شوق دبانا سانس دبانے کے مترادف ہے ،اور سانس دبانے کا مطلب ہے کہ آپ کسی کو مارنا چاہتے ہیں۔مصوری کی دنیا میں اڈولف ہٹلر کو کوئی مقام نہیں دیا گیا۔یا یوں کہہ لیں کہ وہ کوئی مقام حاصل نہ کر سکا۔لیکن بہرحال اس کی شخصیت کے مصورانہ پہلو کو نہ تو نظر انداز کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی جھٹلایا جا سکتا ہے۔ہم ہٹلر پر اس پہلو سے بات کرتے ہیں کہ وہ مصوری کے بلند و بالا دروازے پر دستک دیتا رہا، دروازہ نہ کھلا اور اندر سے معاف کرو کی آوازیں آتی رہیں۔یہ عام دستور ہے ،خصوصا ًیورپ میں ، کہ کوئی شخص معمولی سی شہرت بھی حاصل کرلے تو اس کی شخصیت کے وہ وہ پہلو تلاش کر لیے جاتے ہیں،جن کا خود شخصیت کو بھی علم نہیں ہوتا۔لیکن حیرت ہے کہ ایڈولف ہٹلر جیسے معروف ترین شخص کے ساتھ یہ تعصب کیوں برتا گیا۔؟ گنتی کے چند لوگ ہوں گے جنہوں نے اس بارے میں ٹوہ لگائی،ورنہ سبھی اسے سفاک درندہ اور ظالم و جابر قرار دینے میں وقت صرف کرتے رہے۔ہٹلر کی ابتدائی زندگی کا تجزیہ کیا جائے تو محسوس ہو گا کہ اس کی شخصیت کو دبانے کی کوشش کی گئی۔اسے مصوری کا شوق تھا ،اس کے شوق کو ختم کرنے کے کوشش کی گئی۔میں سمجھتا ہوں کہ شوق کو دبانا سانس دبانے کے مترادف ہے۔اور سانس دبانے کا مطلب ہے کہ آپ کسی کو مارنا چاہتے ہیں۔مصور بننا یا نہ بننا علحدہ بات ہے ،بچپن میں تو نہ جانے کیا کیا شوق ہوتے ہیں۔لیکن پابندی انسان کے لیے انتہائی مضر ثابت ہوتی ہے ۔ہٹلر کو احساس ہوتا کہ اسے ایک ایسی چیز سے منع کیا جا رہا ہے ،جس کا اسے شوق ہے۔پھر وہ سوچتا کہ اس میں برائی ہی کیا ہے؟ اور اس طرح یہ معاملہ اس کے لیے ایک اہم مسئلے کا روپ اختیار کر گیا۔اس کا مزاج چڑچڑا اور جسم دبلا ہوتا چلا گیا، جس کا اثر اس کی ابتدائی تعلیم پر بھی پڑا۔فش ہیلن کے پبلک سکول میں وہ کسی خوش و خرم طریقے سے تعلیم حاصل نہ کرتا۔وہ سارا وقت تصویریں بنانے کے منصوبے سوچنے اور اپنی کتابوں کاپیوں پر لکیریں کھینچنے میں گزار دیتا۔اس نفسیاتی الجھن نے اس کی صحت کے ساتھ برا سلوک کیا ۔اس کے سینے میں تکلیف پیدا ہوئی، سانس لینے میں درد محسوس ہوا ۔طبیب نے بتایا کہ پھیپھڑوں میں کچھ خرابی ہے۔ علاج کے لیے رخصت لینا پڑی ،یہ رخصت طویل ہوتی گئی ،اور پھر بالآخر پھیل کر ساری عمر پہ محیط ہو گئی۔ کیونکہ اس کے بعد اسے اسکول کی تعلیم حاصل کرنے کا موقع نہ مل سکا۔ننھا ہٹلر دوستوں کے سامنے خود کو ایک مصور کی حیثیت سے پیش کرتا،ان کے سامنے فنکارانہ قسم کی باتیں کرنے کی کوشش کرتا۔اسے کبھی مذاق کا نشانہ بھی بنایا جاتا،لیکن وہ ایسی باتوں کو کبھی خاطر میں نہ لاتا،کیونکہ اس کے سامنے ماں کی صورت میں ایک مضبوط سہارا موجود تھا۔ماں، جس کی مسکراہٹ اسے عظیم ترین مصور ہونے کا احساس دلاتی،اور جس کی حوصلہ افزائی اور وعدے اس کی امید بندھاتے۔ماں ہی وہ واحد ہستی تھی جو اس کی چھپ چھپ کر بنائی گئی اوٹ پٹانگ تصویروں کی دل کھول کر تعریف کیا کرتی تھی ۔اس کے برعکس باپ کے رویے نے اسے سخت مایوس کیا تھا۔باپ کے ڈر سے وہ اپنی بنائی نامکمل تصویریں گھر ہی میں کہیں چھپا دیتا اور پھر خود ہی بھول جاتا کہ تصویر کہاں چھپائی تھی۔
1908ء کا سال اس کے لیے نامہربان ثابت ہوا۔درخت کے ساتھ لپٹی بیل کا کیا بنے ،اگر درخت ہی گر جائے۔ننھا ہٹلر ماں کے مضبوط سہارے سے قائم تھا ۔اسی سہارے سے اسے یقین تھا کہ وہ ایک اچھا مصور ہے ، اچھا انسان ہے اور اس کا مستقبل روشن ہے۔یہ روشنی ماں کی خوبصورت اور مقدس مسکراہٹ سے پھوٹتی تھی۔لیکن جب اس کی ماں اپنی تعریفوں ،وعدوں اور مسکراہٹوں سمیت خدا کے پاس چلی گئی تو وہ بکھر گیا۔اس نے محسوس کیا کہ اب وہ دنیا کا سامنا اور مقابلہ نہیں کر سکتا ۔اس نے بھانپ لیا کہ اب اس کی ذات کی مکمل نفی کی جائے گی ، اسے اپنے سامنے اندھیرا ہی اندھیرا نظر آیا ۔یہ اس کے لیے تکلیف دہ بات تھی۔اس کا ڈانٹ ڈپٹ کرنے والا باپ بھی شاید اس کی یہ حالت نہ دیکھ سکا،یا پھر بیوی کی جدائی نہ سہہ سکا ،کہ صرف ایک ہی سال بعد یعنی 1909 ء میں ننھے ہٹلر کو اس چھوٹی سی زمین پر تنہا چھوڑ کر وسیع ترین آسمانوں کی طرف چلا گیا۔کہتے ہیں کہ غم فنکار کے فن کو تحریک دیتے ہیں، گرچہ میں اس بات سے متفق نہیں ہوں ، لیکن ایڈولف ہٹلر کے لیے وہ لمحے ایسے تھے جن میں مصوری اور زندگی کی کوئی خواہش باقی نہ رہی ہو ۔غم کی لہروں میں ذرا ٹھہراؤ آیا تو اس نے محسوس کیا کہ اب یہاں رہنا بے کار ہے ،چنانچہ وہ اپنے مختصر سے سامان کے ساتھ،جس میں کچھ کپڑے ،چند کتابیں اور کچھ رنگ اور برش سمیت وہاں سے ویانا چلا گیا۔
اب آسٹریا کا دارالحکومت ویانا اس کی امیدوں کا مرکز و محور تھا۔اس کا خیال تھا کہ اس کے شوق مصوری کے لیے ویانا شہر مناسب اور معاون ثابت ہو گا ۔لیکن یہاں بھی وہ مار کھا گیا، اس شہر میں اسے اپنی زندگی کے حقیر ترین دن گزارنے پڑے۔ویانا میں سانس لینے والوں نے بھی اسے مصور ماننے سے انکار کر دیا تھا۔ یہاں تو حالت یہ ہوگئی تھی کہ مصوری تو ایک طرف ، مزدوری بھی نہ ملتی ،اور یوں روح کے ساتھ ساتھ پیٹ کی تسکین کا پہاڑ جتنا مسئلہ بھی کھڑا ہو گیا تھا۔
اس کا بچپن اگرچہ نفسیاتی الجھنوں میں گزرا،لیکن جوانی سے بہتر ہی تھا ۔جوانی میں ماں کی شفیق گود کی بجائے کھلے پارکوں میں بے گھر آوارہ گردوں کی طرح سونا پڑا۔اگرچہ ویانا میں وہ تقریباً خالی ہاتھ ہی آیا تھا، لیکن اس کے پاس امیدوں کا کثیر سرمایہ موجود تھا۔مگراب یہ سرمایہ بھی ختم ہونے کو تھا ۔جب مزدوری نہ ملتی تو وہ چرچ کے خیراتی کھانے پر گزارا کرتا ۔سڑکوں پر آوارہ پھرتا،تنہائی میں کتابیں پڑھتا اور رونق میں لوگوں کے چہروں کو غور سے دیکھتا ، اسے بیشتر چہرے بے رحم شیطانوں کے لگتے۔ویانا کے پرہجوم شہر میں کوئی بھی اس کشادہ پیشانی اور درمیانے قد والے نوجوان کو توجہ کا مرکز نہ بناتا۔باغوں میں لیٹ کر کھلے آسمان کو دیکھنا بھی اس کا محبوب مشغلہ تھا۔ان ساری مصروفیات میں وہ اپنے مقصد کو نہ بھلا سکا، وہ اپنے رنگ اور برش متحرک رکھتا، ایسا کرنے سے اسے ذہنی سکون تو میسر آتا لیکن اس کی بنائی تصویریں اس کا کوئی مداح پیدا نہ کر سکیں ۔یہ بات اس کے لیے الجھن کا باعث بنتی، لیکن وہ جذبات سے عاری چہروں پر حیرت کا اظہار کرنے کے سوا اور کر بھی کیا سکتا تھا؟کئی سال بعد جب حکمران ہٹلر غالب تھا اور فنکار ہٹلر پس منظر میں جا چکا تھا ، تصویروں کی ایک نمائش میں جب ایک ننھے مصور کو اس سے متعارف کرایا گیا تو جرمنی کی یہ جان رک گیا، اور ننھے مصور کا ہاتھ تھام کر کافی دیر اسے دیکھتا رہا۔بعد میں مصوری کے حلقوں نے اس مصور بچے کو کافی اہمیت دی۔ لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ چھوٹے سے مصور کا ہاتھ پکڑ کر بڑا ڈکٹیٹر کیا سوچ رہا تھا؟
آسٹریا ایڈولف ہٹلر کا جائے پیدائش تھا ،اس کے دارالحکومت ویانا میں مصور ہٹلر کو پیچھے دھکیل کر سیاستدان ہٹلر غالب آیا تھا ۔مصور ہٹلر کو آخری شکست اس وقت ہوئی جب اس نے ویانا کی آرٹس اکیڈمی میں داخلہ حاصل کرنے کی کوشش کی ، لیکن اکیڈمی والوں نے اسے اس قابل نہ سمجھا۔ اس کا لباس اور وضع قطع کسی عام غنڈے کو بھی متاثر نہیں کر سکتا تھا ،کجا آرٹس اکیڈمی والوں کو ۔انہوں نے اسے کوئی سر پھرا سمجھا ، جو صرف آرٹس اکیڈمی سے خارج ہونے کےلئے داخلہ لینا چاہتا ہو ۔آرٹس اکیڈمی والوں کے لیے یہ ایک معمولی بات تھی،لیکن ہٹلر کو یہ بات بڑا دکھ دے گئی۔اسے دکھ تھا کہ اس کی لمبی لمبی انگلیوں کو نظر انداز کر کے اس کی وضع قطع کو وجہ بنایا گیا ہے ۔وہیں سے اس میں تبدیلی پیدا ہوئی ۔اسے ہم ایک ردعمل خیال کر سکتے ہیں ۔اب اس نے ادبیات اور اپنے پسندیدہ موضوع علم الاصنام کو نظر انداز کر کے سیاسی مطالعات شروع کر دیئے ۔وہ جرمن قوم کے بارے میں معلومات حاصل کرتا،اب جب کبھی اس کی جیب میں کچھ ہوتا تو وہ اس سے سیاسی نوعیت کی تحریریں خرید لیتا۔ہٹلر کی پسندیدہ کتابیں جو وہ ویانا سے ساتھ لے کر آیا تھا، بڑی اہمیت رکھتی ہیں ۔مایوس ہونے سے پیشتر وہ ان میں سے کسی کتاب کی دو سطریں پڑھ لیتا ،اور پھر اس پر غور و فکر شروع کر دیتا۔یہ انہماک اسے آرٹسٹ بنانے کے لیے کافی تھا،لیکن یوں محسوس ہوتا ہے کہ اسے کسی اور طرف کے جایا جا رہا تھا۔ایڈولف ہٹلر کے ساتھ اب تک معاشرے کی طرف سے کوئی نوازش یا حوصلہ افزائی نہ کی گئی تھی۔اگر وہ سنکی یا سفاک ہوتا،تو وہ وہی راستہ اختیار کرتا جو ناکام و نامراد آوارہ گرد اختیار کرتے ہیں لیکن یہیں سے اس کی عظیم ترین محبت نے جنم لیا۔جب اندر کے مصور کو اداس کر دیا گیا،تو اس نے سوچا کہ مجھے کسی اور سے محبت ہے۔؟یا یہ کہ کیا مجھے کسی سے نفرت ہے؟یہاں وہ اپنے آپ سے محبت جاری رکھ کر معاشرے سے نفرت کر سکتا تھا ۔لیکن اس نے ایسا نہ کیا۔ وجہ شاید یہ ہو کہ فنکار بڑے عالی ظرف ہوتے ہیں، ان کے دل اتنے کشادہ ہوتے ہیں کہ اگر ساری دنیا زمین چھوڑ کر ان کے دل میں آباد ہو جائے ،تب بھی مسرور رہیں ۔حقیقی فنکار معاشرے کی طرف سے دی گئی ہر مایوسی پر مسکراتا ہے ۔جیسے آپ اس بچے کو دیکھ کر مسکرائیں،جس نے آپ کی گود میں بیٹھ کر آپ کے منہ پر اپنے ننھے سے گدگدے ہاتھ سے تھپڑ مار دیا ہو ۔اس نئے ہٹلر کی الگ داستان ہے۔اس نے اپنی محبت کا رخ اپنی قوم، ملک اور اقدار و روایات کی طرف موڑ دیااور نفرت کے لیے ان لوگوں کا انتخاب کیا جو اس کی قوم اور اقدار و روایات کے دشمن تھے ۔ تقریباً ستاون سال اس دنیا میں بسر کرنے والے اس متنازعہ انسان نے بہت کچھ کیا،اسے بہت سارے پہلوؤں سے پہچانا جاتا ہے ،لیکن ان تمام پہلوؤں کی تان ظالم و جابر ڈکٹیٹر اور خونخوار سیاستدان پر ٹوٹتی ہے۔اس بحث میں پڑے بغیر کہ وہ کیا تھا اور کیا نہیں تھا ، ہم یہ جانتے ہیں کہ وہ مصور بھی تھا۔مصوری کو وہ اپنے اقتدار و عروج کے ہنگامہ خیز دور میں بھی نہ بھلا سکا۔اس کی ذاتی رہائش گاہ میں ہر وقت برش ، رنگ اور کینوس موجود ہوتے تھے ۔اگرچہ وہ انہیں کبھی کبھی استعمال کرتا،یہ استعمال وجدانی لمحات میں ہوتا ، اور عموماً نامکمل ہوتا۔اس دور میں اس کے موضوعات دلکش نہ ہوتے ،وہ سخت عمارتوں کی خشک تصویریں بناتا ۔حالانکہ وہ کوہ ایلپس کے دامن میں واقع البر سالزبرگ میں براؤن رنگ کی ترچھی چھتوں والے کاٹج بھی مصور کر سکتا تھالیکن یہ شخص اس روح افزا ماحول میں بھی، جبکہ سامنے خوب صورت فطرت اور پیچھے دلکش ایوا براؤن( ہٹلر کی محبوبہ اور عارضی بیوی)موجود ہوتی، یہ خشک اور کرخت تصاویر بناتا۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس کے المیوں نے اسے چڑچڑا کر دیا تھا۔اڈولف ہٹلر کے خاتمے کے ساتھ ہی اس کی تخلیقات بھی غائب ہو گئیںلیکن بہت بعد میں یہ موضوع پھر سے تازہ ہوا جب اس کے اکیس سال کی سزا کاٹ کر رہا ہونے والے ساتھی مسٹر البرٹ نےہٹلر کے بنائے ہوئے خاکے فروخت کرنے شروع کر دیئے ۔آلبرٹ ہٹلر کا وزیر بھی رہا تھا،البرٹ کے فروخت کے لیے پیش کردہ اور ہٹلر سے منسوب خاکے بھی بے تاثر اور خشک ہیں ،اور ان میں فطرت کی نرمی کی بجائے مادیت کی کرختگی غالب ہے۔برش سے بنے عمارتوں کے اسکیچ فروخت کر کے آلبرٹ نے کافی سارے ڈالر تو جمع کر لیے ،لیکن اسے اپنے فیوہرر کے تخلیقات کو یوں بکھیرنا نہیں چاہیئے تھا۔ اے وادیو ! ہماری گفتگو اور لبوں پہ کھیلتی مسکراہٹ امانت کے طور پر محفوظ رکھنا۔۔۔گریٹ رابیل کو میرا یہ شوق بہت اچھا لگتا تھا ۔وہ مجھے خوش کرنے اور مسرور رکھنے کے لیے میری مصوری کے بارے میں گفتگو کرتی۔اور میری تصویروں کے معنی نکال کر حیران کر دیتی۔وہ خوبصورت تھی،لیکن فطرت نے اس خوبصورتی کو مجھ سے چھین لیا۔ایڈولف ہٹلر کی یہ باتیں اور اس کے ساتھیوں کا انہماک آج بھی کوہ ایلپس کی فضاؤں میں محفوظ ہو گا۔اس نے اپنے ساتھیوں اور دوستوں کو مزید بتایا کہ میری ماں کو مجھ سے نہ چھینا جاتا تو کیا تھا؟ اسے تو میری وہ تصویریں بھی پسند آ جاتیں ،جو خود مجھے عجیب و غریب لگتی تھیں۔
یہ گفتگو اس مقام پر ہوئی جہاں اس نے اپنی پارٹی کے لیے ایک ہنگامی لائحہ عمل مرتب کیا تھا۔اس اکتاہٹ آمیز کام سے فرصت پا کر رات کے وقت جب وہ سب آپس میں مل بیٹھتے تو ہٹلر نہایت سنجیدگی اور متانت سے گفتگو کرتا، اکثر وہ ماضی میں لوٹ جاتا،سیاست دان ہٹلر تھک کر فنکار ہٹلر کو جگا دیتا۔ایک دفعہ ماضی کے اس مصور نے کہا کہ حالات رکاوٹ نہ ڈالتے ، تو میں بڑی پرسکون زندگی گزارتا،اور اس وقت سیاست کے جھنجھٹ کی بجائے میرے پاس گریٹ رابیل کا متاثر کن جسم ہوتا، میری الماریوں میں بے ترتیب کاغذوں کی بجائے رنگ اور برش ہوتے،میرا اپنا کاٹیج ہوتا،اور خاموشی ، دلربا اور دلدار خاموشی ہوتی۔