ہفتہ وار کالمز

ایک موثر بلدیاتی نظام کون نہیں چاہتا؟

کیا آپ جانتے ہیں کہ بغیر ڈھکن کے گندے نالے میں بچے کیوں گر کر ہلاک ہو رہے ہیں؟سڑکوں پر گڑھے کیوں پڑے ہوئے ہیں؟گلیوں ، محلوں میں کیوں کوڑے کے ڈھیر اٹھائے نہیں جاتے؟یہ تو مشتے از خروارے کی مثالیں ہیں۔ ان سب کی وجہ جو مشترک ہے وہ ہے ملک میں مقامی حکومتوں یا بلدیاتی نظام کا نہ ہونا یا موثر نہ ہونا ہے۔ مہذب ملکوں میں،نئے شہری نظام میں ، شہروں اور دیہاتوں میں، جو علاقے کے رہائشی ہوتے ہیں، اس علاقے کے مسائل کو حل کرنے میںممد و معاون ہوتے ہیں۔ اس عمل دخل کو قانونی اور آئینی تحفظ دیا جاتا ہے۔ اور اس کے طریق کار وضع کیے گئے ہوتے ہیں ۔ دوسرے لفظوں میں، وفاقی، صوبائی، اور ضلعی انتظامیہ کو ہر گلی محلے کے چھوٹے مسائل کے حل کے لیے نہیں آنا پڑتا۔کیونکہ ایسے بہت سے چھوٹے مسئلے مقامی حکومتیں خود حل کر لیتی ہیں۔ حکومت کی طرف سے انہیں اختیارات دئیے جاتے ہیں اور فنڈز مہیا کیے جاتے ہیں۔عموماً مقامی آبادیاں انتخابات کے ذریعے اپنے ادارے ( کونسل، کمیٹی، وغیرہ) کے عہدیداروں کو منتخب کرتی ہیں۔ وہ عہدیدار بلدیاتی نظام کے ذمہ وار ہوتے ہیں، اس طرح وہ اپنے علاقے کے عوام کو جواب دہ ہوتے ہیں۔ آپ کہ اطلاع کے لیے عرض ہے، کہ پاکستان میں66سال پہلے پنجاب یونیورسٹی میں سوشل ورک کا مضمون ماسٹرز لیول پر شروع کیا گیا تھا، اس میںایم اے کے طلباء کو community development or organization کے مضمون پڑھائے جاتے تھے۔اس سطح پر یہ ماسٹر کی ڈگری بہت جلد مقبول عام ہو گئی، لڑکوں اور لڑکیوں دونوں میں اور کچھ ہی سالوں میں یہ مضمون بہت سی یونیورسٹیز میں پیش کر دیئےگئے۔اس مضمون میں عملی تعلیم بھی شامل تھی۔اس میں طالب علموں کو اپنے شہر کے کسی ایک علاقے میں جا کر وہاں کا جائزہ لینا پڑتا تھا اور عوام کی ضروریات کا اندازہ لگانا پڑتا تھا جو ایک محدود سے جائزے سے نمونے کے گھروں کی ایک محدود تعداد سے سوال و جواب سے معلوم کی جاتی تھیں ۔ پھر اس کے نتائج کو علاقے کی قائدین کو مطلع کیا جاتا تھا۔ سوشل ورک کے طلباء انہیں ایک ایسا لائحہ عمل تجویز کرتے تھے جو انکی منظوری کے بعد عمل پیرا ہوتا تھا۔ یہ سارا کام ایک سال کی مدت میں کیا جاتا تھا۔ طالب علم کو اس کام کے لیے ایک استاد کی رہ نمائی ملتی تھی جس کو وہ اپنے کار کردگی کی با قاعدہ رپورٹ دیتے تھے۔ یہ کہانی بتانے کا مقصد ہے کہ قارئین کو اس بات کا اندازہ ہو جائے کہ پاکستان میں ایسے تربیت یافتہ افراد کی کمی نہیں جو سارے ملک میں مقامی حکومتوں میں رہنمائی کا کام کر سکیں۔لیکن ہماری بد قسمتی ہے کہ یہ تربیت یافتہ نوجوان نوکری کی تلاش میں در بدر خوار ہوتے ہیں اور پھر کسی لا تعلق پیشہ میں اپنا مستقبل تلاش کرتے ہیں۔یہ امر اس لیے افسوس ناک ہے کہ پاکستان کو ان کی شدید ضرورت ہے لیکن اس کے حاکموں کو صرف ان منصوبوں میں دلچسپی ہے جن میں لمبا چوڑا کمیشن ہاتھ لگے۔
دنیا کے ترقی پذیر اور ترقی یافتہ ممالک میں، حکومت مرکز۔ یا وفاق،صوبائی۔ شہر، اور سب سے نچلی سطح یعنی گائوں ، دیہات اور قصبوں سے کی جاتی ہے۔پاکستان بننے سے پہلے،انگریزوں نے لوکل سیلف گورنمنٹ کا نظام شروع کیا تھا۔جو کچھ دیر چلا اور ایوب خان نے اس کی جگہ اپنا بنیادی جمہوریتوں کے پروگرام میںولیج ایڈ کا نظام لاگو کیا، اگر وہ بھی صحیح طریقہ سے چلایا جاتا تو کچھ نہ کچھ فائدہ تو ہوتا لیکن اسے پانچ سال کے بعد ، ایک ناکام تجربہ بنا کر، بند کر دیا گیا۔اصل وجہ یہ تھی کی امریکہ بہادر پاکستان کے عوام میں شعور اور تعلیم نہیں دیکھنا چاہتا تھا تا کہ یہ قوم ہمیشہ غلام رہے۔یہی حکمت عملی پاکستانی اشرافیہ اور سرمایہ داروں، جاگیر داروں کو موافق آتی تھی۔صنعت کار اور جاگیر دار سستے ہاری اور مضارع چاہتے تھے اور سیاستدان ایسے ہی عوام پسند کرتے تھے جو ان کے نظام حکومت پر انگلی نہ اٹھا سکیں اور نہ ان کو اپنے انسانی حقوق کی کوئی سمجھ ہو۔حکومت ان کے حقوق کی جتنی مرضی پائمالی کرے اور وہ چپ رہ کر اسے برداشت کرتے رہیں ۔
جب پاکستان کی تحریک زوروں پر تھی تو انگریز بہادر نے بالآخر قائد اعظم کا مطالبہ منظور کر لیا اور فیصلہ کیا گیا کہ رائے شماری کی جائے کہ کتنے علاقے بھارت میں رہیں گے اور کتنے پاکستان میں شامل ہونا چاہیں گے۔پاکستان کو چونکہ مذہبی بنیادوں پر بننا تھا، تو مسلمان سیاستدانوں نے مذہبی فرقہ سے رائے شماری میں پاکستان کے حق میں ووٹ ڈلوانے کی مدد مانگی۔ اس درخواست پر مذہبی رہنمائوں نے بڑھ چڑھ کر کام کیا، اور پاکستان کے حق میں مسلمانوں نے بنگال، پنجاب، سندھ، فرنٹیر اور بلوچستان وغیرہ میں عوام کی رائے شماری میں پاکستان کے حق میں ووٹ ڈالے۔مذہبی رہنمائوں کی یہ خدمت قابل ستائش تھی اور پاکستان کے وجود میں آنے کی غالباً بڑی وجہ تھی۔ اس حکمت عملی سے پاکستان تو بن گیا لیکن اس کے معاملات میں مذہبی طبقے کا کردار بھی نمایاں ہو گیا۔مذہبی رہنمائوں کو پاکستان بننے کے بعد کوئی ایسا موضوع ہاتھ نہیں لگ رہا تھا جس میں وہ اپنے جوہر دکھلاتے۔ لیکن ہمارے ہوشیار سیاستدانوں نے جو ایوب خان کی حکومت سے تنگ آ چکے تھے، ایک مسئلہ ڈھونڈھ نکالا، جس میں مذہبی برادری کے پو بارہ ہو گئے۔ وہ مسئلہ تھا فیملی پلاننگ کا۔ مولویوں نے جی بھر کر اس مسئلہ کو اسلام کے خلاف ایک سازش کے طور پر پیش کیا، اور ایسے احتجاجی مظاہرے کئے کہ ایوب خان جیسا جرنیل اور مطلق العنان حاکم کو بھاگتے ہی بنی۔اور جب سے مذہبی رہنمائوں کو خوش رکھنا ہر حکومت کا فرض اولین بن گیا۔
ہاں تو بات ہو رہی تھی لوکل سیلف گورنمنٹ کی۔ جب ایوب خان کا ولیج ایڈ کا پروگرام بند ہوا تو مقامی حکومتوں کے ساتھ کیا ہوا؟
ہم نے مصنوعی ذہانت سے پوچھا تو پتہ چلا کہ:
پاکستان کی آزادی کے اوائل میں، اگرچہ انگریزوں کا بنایا ہوا مقامی حکومتوں کا نظام موجود تھا لیکن صوبائی حکومتیں انہیں مکمل اختیارات دینے سے ہچکچاتی رہیں۔ اسمیں نوکر شاہی کا بڑا کردار تھا۔ انہی کی وجہ سے مالی خود مختاری کبھی نہیں دی گئی۔نظام بار بار بدلتا رہا لیکن تسلسل قائم نہیں رہا۔
1972-1977بھٹو کے دور میں بلدیاتی ادارے ختم کر دئیے گئے۔ ان میں اصلاحات چاہتے تھے لیکن وہ نہ ہو سکیں۔1979میں، ضیا الحق کا دور آیا۔ لوکل گورنمنٹ آرڈیننس کے ذریعے بلدیاتی ڈھانچے تشکیل دیئے گئے۔ لیکن بعد کے انتخابات سے بھی کوئی نمایاں تبدیلی نہیں آئی۔اور محدود، مقامی سطح کمزور رہی۔بعد کے جمہوری ادوار میںحکومتوں نے انتخابات موخر کیے۔ صوبائی حکومتیں اختیارات نیچے منتقل کرنے سے گریز کرتی رہیں۔اگر کوئی زور دار تبدیلی آئی تو وہ صدر مشرف لائے لیکن 2008 میں ان کے جانے کے بعد اس نئے نظام کو داخل دفتر کر دیا گیا۔
سن 2010 میں اٹھارویں آئینی ترمیم میںبلدیاتی نظام کو آرٹیکل140-A کے ذریعے دستوری تحفظ دیا گیا، لیکن اصل اختیار ات پھر بھی صوبوں کے پاس رہے۔سن 2013 – 2023 میںصوبوں نے اپنے قوانین بنائے، انتخابات بھی ہوئے مگر اختیارات، فنڈز، اور خود مختاری بہت محدود رہی۔اور جب سے ابتک کوئی مضبوط، دیر پا بلدیاتی نظام نہیں قائم رہ سکا۔
پاکستان میں مقامی حکومتوں کو کیوں اب تک پنپنے نہیں دیا گیا؟ اس کی وجوحات بتائی گئی ہیں کہ طاقت کا ارتکاز وفاق اور صوبوں میں رہا۔فوجی حکومتوں نے بلدیاتی ادارے اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیے۔جمہوری حکومتیں مکمل اختیار دینے سے ہچکچاتی رہیں۔ نوکر شاہی نے اختیارات کی منتقلی میں مزاحمت کی۔ مالی خود مختاری کبھی نہیں دی گئی۔ نظام بار بار بدلتا رہا اور تسلسل قائم نہیں رکھا گیا۔
مختصراً، پاکستان شروع سے مرکزی انتظامیہ چلاتی رہی۔اور طاقت کا سر چشمہ وفاق اور صوبوں کے پاس رہا۔اگر بلدیاتی نظام مضبوط ہوتا تو وہ ان کے لیے خطرہ بنتا۔فوجی حکومتوں نے بلدیاتی نظام کو بحال کرنے کی کوششیں کیں لیکن چونکہ سیاسی قیادتوں کے تعاون کے بغیر کیں تو ان کے جانے کے بعد وہ معطل ہو جاتی رہیں۔تیسری بڑی وجہ صوبائی حکومتیں خود تھیں، ان کے قائدین مزاحمت کرتے تھے۔کیونکہ اختیارات منتقل کرنے سے فنڈز پر ان کا اختیار کم ہوتا تھا۔اور سیاسی دبدبہ بھی۔ایم پی اے، مقامی ترقی کے فنڈز خود خرچنا چاہتے تھے ، جس میں ظاہر ہے انہیں فائدہ تھا۔اگر مضبوط مقامی حکومت بنتی تو وہ ان کو مزاحمت دیتی۔ اس لے اگر مقامی حکومتیں بن بھی جائیں تو صوبے ان کو حقیقی انتظامی قوت نہیں دیتے۔ اور نہ ہی مالی خود مختاری۔
اور بھی وجوہات ہیں: بلدیاتی نظام کے لیے قانونی اور آئینی تحفظ کمزور ہے۔جن کی وجہ سے، انتخابات وقت پر نہیں ہوتے، اسمبلیاں وقت سے پہلے عوامی حکومتوں کوتحلیل کر دیتی ہیں۔ہر آنے والی حکومت قوانین بدل دیتی ہے۔اس غیر یقینی کی فضا میں ادارے پنپ نہیں پاتے۔ایک بڑی وجہ نوکر شاہی ہے۔ مثلاً ضلع کے ڈپٹی کمشنر کے پاس لا محدود اختیارات ہوتے ہیں اور وہ ان کو چھوڑنا نہیں چاہتے۔اگر بلدیات کو اختیارات سونپ دیئے تو وہ کیا کریں گے؟ اس کے علاوہ مقامی سطح پر سیاسی جماعتوں کی موجودگی نا کافی ہوتی ہے۔پارٹیاں مقامی سطح پر اپنے انتخابات نہیں کرواتیں۔ بجائے سیاسی جماعتوں کے مقامی با اثر لوگوں کی چلتی ہے۔ان حالات میں مقامی حکومتیںنہیں پنپتیں۔مقامی حکومتیں صوبائی فنڈز پر مکمل انحصار کرتی ہیں۔ ان کے اپنے فنڈز کے کوئی ذرائع نہیں ہوتے۔ ان کا ٹیکس کے نظام میں کوئی عمل دخل نہیں ہوتا۔ اور نہ ہی رقموں کی تقسیم پر۔ جب ان کو فنڈز پر کسی قسم کا اختیار ہی نہ ہو وہ کیا کام کریں گی؟اور آخر میں، پاکستان میں شہری آبادیاں تو برق رفتاری سے بڑھ گئیں، لیکن ان کی بڑھتی ہوئی ضروریات کے مطابق انہیں وسائل نہیں دیئے گئے۔نہ ہی شہری حکومتوں کو ضروری اختیارات دیئےگئے۔نہ شہری منصوبہ سازی کے اور نہ ہی شہری بلدیاتی اداروں کو، جن میں با اختیار مئیر ہوں۔
اب حرف آخر میں یہ سوال کرنا تو بنتا ہے کہ ہمارے صوبائی سیاستدانوں اور ان سے بڑھ کر نوکر شاہی نے کیوں نہیں بلدیاتی نظام کو موثر اور کامیاب نہیں ہونے دیا؟ اس کی ایک ہی وجہ سمجھ میں آتی ہے۔ وہ یہ کہ اس نظام کو چلانے کے لیے نہ صرف اختیارات بلکہ اس کے ساتھ بجٹ کا ایک بڑا حصہ بلدیاتی اداروں کو دینا پڑتا تھا جو صوبائی حکومتوں کے کنٹرول میں تھا۔ان کے کھو جانے سے ڈپٹی کمشنرز اور پٹواریوں کی اوپر کی آمدنی میں بڑا شگاف پڑ سکتا تھا۔ تو کوئی نہ کوئی بہانہ بنا کر یہ اختیارات نہیں بانٹے گئے۔ ایک بہانہ یہ تھا کہ انتظامیہ کی نچلی سطح پر مقامی حکومتیں آمدن اور اخراجات کا حساب نہیں رکھنا جانتیں، جس سے پورا نظام متاثر ہو گا۔اس لیے اخراجات کی منظوری اور رقومات کا استعمال ضلعی حکومتوں کے پاس رہے گا۔ان لعنتیوں نے اپنی اوپر کی آمدنی بنانے کے لیے، پاکستانیوں کوایک انتہائی اہم اور قابل عمل فعل سے محروم کیا۔یاد رہے ،جب تک موثر اور قابل بلدیاتی حکومتیں نہیں بنیں گی ، بچے موت کے منہ میں جاتے رہیں گے، سڑکیں اور گزر گاہیں یونہی کھڈوں سے بھری رہیں گی اور کوڑے کے ڈھیر تعفن پھیلاتے رہیں گے۔

 

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button