ہفتہ وار کالمز
قومی سلامتی کے لئے خطرات !

خود پسندی میں اپنی بات منوانے کا شوق کبھی کبھی تکبر بھرے انسان میں ضرورت سے زیادہ ہی بڑھ جاتا ہے خود کو مسلمان بھی کہتا ہے مگر عجز و انکساری سے نالاں رہتا ہے جائز تنقید بھی اگر ایسے پیر بزرگ یا کسی قائد پر کی جائے تو اس کے قصیدہ گو درباری اسے توہین ِ انسانیت سے تشبیہ دیتے نہیں تھکتے ۔انسان کا اپنی ذات گرامی کو قابل ِ عزت بنانے کے لئے اپنے مدِمقابل ،اپنے عزیزوں دوستوں کو عزت دینی پڑتی ہے جو انسانی اخلاق کی بہترین ترجمانی کرتی ہے اہلیان ِ پاکستان نے افغان مہاجرین کو صرف پناہ نہیں دی بلکہ عزت و احترام کے سارے تقاضے بھی نبھائے مگر اس شرف ِ میزبانی کا جواب جس بے رحمی ،سنگدلی سے دیا گیا اس کی مثال کسی مہذب معاشرے میں نہیں ملتی اور نہ ہی اسلامی عقائد کی پیروی کرتی نظر آتی ہے اسلام کا نام استعمال کرتے ہوئے دہشت گردی کی وارداتوں کا ارتکاب بار بار کرنا ،بیگناہ انسانوں کو معصوم بچوںکو شہید کرنا کون سا دین کون سا مذہب ہے جو اپنی بربریت قائم کرنے کے لئے مخلوق ِ خدا کو صفحۂ ہستی ہی مٹا نے میں دریغ نہیں کرتے ایسے اذہان کے لوگ کسی بھی معاشرے کو قبول نہیں ہوتے ان کا وجود قومی سلامتی کے لئے خطرہ ہوتا ہے ضروری نہیں کہ کسی بھی ملک کو ہر وقت بیرونی خطرات کا سامنا رہتا ہو لیکن تاریخ نے کئی واقعات ایسے بیان کئے ہیں جس میں ریاست کے اندرونی دشمنوں نے بیرونی تخریب کاروں کے لئے دروازے کھلے چھوڑے ہم بھی پاک فوج کی سربراہی میں اس وقت اندرونی و بیرونی دونوں محاذوں پر سینہ سپر کئے ان قوتوں سے نبرد آزما ہیں جو استحکام ِ پاکستان کو متزلزل کرنے کے ناپاک ارادے لئے ہمسایہ ملک افغانستان سے حملہ آور ہوتے رہتے ہیں جن کے سہولت کار ہماری بغل میں بیٹھ کر ان کے مذموم عزائم کی تکمیل پر مخصوص مفادات حاصل کرتے ہیں جن کا قلع قمع ناگزیر ہے غیر ملکیوں کو واپس کرنا قومی سلامتی کا اہم تقاضا ہے فیض حمید جیسے اہم عہدوں پر فائز لوگ جب عام لوگوں کو لوٹنے میں سرکاری عہدے اور سرکاری وسائل کا استعمال کریں جب قومی اسمبلی کی کسی قراداد کی منظوری یا نا منظوری کے لئے ممبران کو بلیک میل ،ہراساں کریں علاوہ ازیں میڈیا پر کس خبر کو چلنا ہے اور کس خبر کو خفیہ رکھنا ہے تو ان حالات میں جب سچائی کاقتل عام کیا جائے اور جھوٹ کو فروغ دینے میں سرکاری مشینری کے وسائل بروئے کار لائے جا رہے ہوں تو قومی سلامتی کے لئے خطرات کا طوفان کھڑا ہونا لازمی ہو جاتا ہے فیض حمید کی سزا خود احتسابی کی جانب پہلا قدم ہے جسے خو ش آئند کہنا برا ہر گز نہیں لگتا سابقہ حکومت کو نو مئی جیسے واقعات میں سہولیات سے مستفید کرتے ہوئے پاک فوج کی تنصیبات پر شہداء کی یادگاروں پر سوچے سمجھے منصوبے کے تحت حملہ آور ہونا بھارتی ایجنڈے کی تکمیل تھی جس کے روح رواں فیض حمید اور تحریک انصاف کے قائدین تھے جنہوں نے قومی سلامتی کو اپنے اقتدار کے لئے خطرات سے دوچار کیا فیض حمید کی دیدہ دلیری اس قدر اپنے حدود سے تجاوز کر گئی تھی کہ انھوں نے ریٹائرمنٹ کے بعد خفیہ دستاویزات کو اپنے پاس رکھا ۔ ایسے لوگ جو ملک کے شہری ہوتے ہیں اندرونی طور پر اپنے مفادات کے حصول کے لئے ملک کی جڑوں کو کھوکھلا کرنے کی کو ششیں کرتے ہیں جو قومی سلامتی کے لئے خطرہ بنتی ہیںان کو گرفت میں لانا انھیں زنجیروں میں جکڑنا اور قرار واقعی سزا دینا اُن عناصر کی حوصلہ شکنی کرے گا جو ریاستی استحکام کو اپنے مفادات پر ترجیح دینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے اختیارات کے نشے میں دھت ہو کر ہر قانونی سگنل کو عبور کر جاتے ہیں ۔ایوانوں میں بیٹھی مخصوص اشرافیہ ہو مقتدر اداروں سے وابستہ فیض حمید جیسی شخصیات ان سب کا محاسبہ کرنا عدالتی ذمہ داری ضرور ہے مگر منصف کے منصب پر بٹھائے جانے والے ثاقب نثار جیسی جانبداری ہو تو اس پاداش میں ان کی ساری مراعات واپس لینا ریاست کی ترجیح ہونی چائیے اور ایسی ترجیحات جو ریاست کے شہریوں کو آئین کی پاسداری کا پابند بنائے ان ترجیحات کی نگرانی پاک فوج کو کرنی چاہیے میرے نزدیک سیاست نہیں ریاست اہم ہے اس لئے ریاست کے دفاع کے لئے فوج کا اندرونی و بیرونی معاملات کا نگران ہونا ضروری ہے تا کہ قومی سلامتی کو درپیش شدید خطرات سے چھٹکارا پایا جا سکے ۔ اُسے اپنی کہی ہوئی باتوں پر لوگوں کا عمل پیرا ہونا پسند ہوتا ہے ۔



