میانمار؛ فوج کی قید میں سابق حکمراں آنگ سان سوچی کی جان کو شدید خطرہ

میانمار کی فوجی بغاوت میں جبری معزول اور پھر قیدی بنائی گئیں سابق حکمراں اور نوبیل انعام یافتہ سیاست داں آنگ سان سوچی کی حالت تشویشناک ہے۔عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق آنگ سان سوچی کی جمہوری حکومت کو 2021 میں فوجی بغاوت کے ذریعے ختم کیا گیا تھا۔تب سے 80 سالہ آنگ سان سوچی قید تنہائی میں ہیں اور کسی سے ملنے کی اجازت نہیں دی جا رہی ہے۔ وہ بیماری کے باعث لاغر و نڈھال ہوچکی ہیں۔ان کے بیٹے کم آرس نے میڈیا کو بتایا کہ برسوں سے والدہ کے ساتھ براہِ راست رابطہ نہیں ہوسکا ہے۔ کبھی کبھی کچھ ادھوری بالواسطہ معلومات حاصل ہوجاتی ہیں۔ کم آرس نے شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ میں ماں کی صحت کے حوالے سے خوف زدہ ہوں، اگر قید میں انھیں کچھ ہوگیا تو مجھے بروقت اطلاع بھی نہیں دی جائے گی۔یاد رہے کہ فوجی حکومت نے گرفتاری کے بعد نوبیل امن انعام یافتہ آنگ سان سوچی کو کرپشن، اشتعال انگیزی اور انتخابی دھاندلی سمیت متعدد الزامات پر 27 سال قید کی سزا سنائی ہے۔آنگ سان سوچی جنھوں نے اپنی زندگی کا طویل عرصہ جمہوریت کے احیا اور بقا کے لیے جدوجہد میں گزاری، ان الزامات کو مسترد کرتی آئی ہیں۔دوسری جانب ملک کے فوجی حکمراں سینئر جنرل من آنگ ہلینگ کی سربراہی میں قائم ’’جنتا حکومت‘‘ نے نہ صرف آنگ سان سوچی بلکہ دیگر سیاسی رہنماؤں کی رہائی سے صاف انکار کردیا ہے۔میانمار کی فوجی حکومت دسمبر کے آخر میں انتخابات کرانے کا ارادہ رکھتی ہیں اور آنگ سان سوچی سمیت دیگر رہنماؤں کو اپنے لیے خطرہ سمجھتی ہے۔ انھیں قید رکھ کر فوجی آمر اپنی من پسند حکومت لانا چاہتے ہیں۔آنگ سان سوچی کی پیدائش 19 جون 1945 کو رنگون میں ہوئی تھی وہ میانمار کے قومی ہیرو جنرل آنگ سان کی بیٹی ہیں، جنھوں نے برطانوی راج سے آزادی کی جدوجہد کی تھی۔آنگ سان سوچی اپنے والد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے 1988 میں جمہوریت کی تحریک کے دوران سیاست میں فعال ہوئیں اور نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی کی قیادت سنبھالی۔فوجی آمریت کے خلاف جدوجہد کے باعث وہ کئی برس قید اور پھر نظر بند بھی رہیں۔ قید و بند کے باوجود اپنی جدوجہد کو ہمیشہ پُرامن رکھا۔عالمی سطح پر اس کا اعتراف کرتے ہوئے آنگ سان سوچی کو 1991 میں عدم تشدد کے ذریعے جمہوریت کے لیے جدوجہد پر نوبیل امن انعام سے نوازا گیا تھا۔وہ اپنی جماعت کی 2016 سے 2021 تک کے دور حکومت میں میانمار کی ڈی فیکٹو سربراہِ حکومت رہی ہیں تاہم فروری 2021 میں فوج نے بغاوت کر کے حکومت کا دھڑن تختہ کیا اور خود حکمراں بن گئے۔



