ہفتہ وار کالمز

دیدنی ہے وحشتِ اولاد ِآدم ان دنوں!

یہ ایک غیر معمولی واقعہ ہے۔ جس سانحے نے دو ملکوں میں ہلچل مچا دی ہو اسکی ہولناکی سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ دنیا کے ہر شہر میں قتل کی وارداتیں ہوتی رہتی ہیں۔ ایساہر المیہ دو چار روز بعد قصہ ٔپارینہ بن جاتا ہے۔ لیکن کبھی کبھار کوئی ایسا سانحہ بھی ہو جاتا ہے جو اخبار کی سرخی سے نتھی ہو جاتا ہے۔ ایسے حادثے جانے کا نام نہیں لیتے‘ اپنے ہونے کا احساس دلاتے رہتے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی دوسری مدت صدارت میں گھروں‘ دفتروں‘ کارخانوں‘ مسجدوں‘ اور کلیسائوں میں دن رات چھاپے مارے جا رہے ہیں۔ لاکھوں مہاجرین کو واپس بھیج دیا گیا ہے۔ ہزاروں جیلوں میں بند ہیں اور مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں۔ جو اپنے ملک نہ جانا چاہے اسے کسی دوسرے ملک بھیج دیا جاتا ہے۔ عدالتیں انصاف دینے کی کوشش کر رہی ہیں مگر انکا سامنا ایک طاقتور حکومت سے ہے۔ خوف اور تشدد کے اس ماحول کی عکاسی منیر نیازی کے کلام میں جا بجا ملتی ہے۔ فرماتے ہیں‘
دبی ہوئی ہے زیر زمیںاک دہشت گنگ صدائوں کی
بجلی سی کہیں لرز رہی ہے کسی چھپے تہہ خانے میں!
صدر ٹرمپ ناپسندیدہ بھوری رنگت والے شہریوں کو Denaturalize کرنے کی بات کئی مرتبہ کر چکے ہیں۔آئے روز امریکی پاسپورٹ رکھنے والے بھی گرفتار ہو رہے ہیں۔صدر ٹرمپ کی مقبولیت کی ایک بڑی وجہ انکی سخت گیر ا میگریشن پالیسی ہے۔ یورپی ممالک کے پاپولسٹ لیڈر بھی مہاجرین کے خلاف زہر اگل کر شہرت اور اقتدار کی سیڑھیاں پھلانگ رہے ہیں۔ ایسے خوف و ہراس کے ماحول میں اگر کوئی مہاجر کسی مقامی باشندے کو ہلاک کر دے تو اسکے خاندان سے لیکر اسکے آبائی وطن تک کو مرقع عبرت بنا دیا جا تاہے۔ صرف ایک شخص اپنے قابل مذمت جرم کی وجہ سے لاکھوں لوگوں کی زندگیاں اجاڑ دیتا ہے۔ افغانستان کے رحمان اللہ لکنوال نے 26 نومبر کو وائٹ ہائوس کے قریب گولیاں چلا کر نیشنل گارڈ کے ایک سپاہی کو ہلاک اور دوسرے کو زخمی کر دیا تھا۔ اس واردات نے دیکھتے ہی دیکھتے افغان مہاجرین کی زندگیوں کو تہہ و بالا کر دیا۔ صدر ٹرمپ نے ا س کے فوراً بعد بیان دیا، We must now re-examine every single alien who has entered our country from Afghanistan. پندرہ اگست 2021 کو افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد ایک لاکھ نوے ہزار افغان باشندوں کو سپیشل ویزے دیکر امریکہ بھیجاگیا۔ اسوقت پورے ملک میں ان مہمانوں کے لیے عزت واحترام اور بھائی چارے کا ماحول تھا۔ نیٹو افواج کا ساتھ دینے کی وجہ سے ان کو خوش آمدید کہا گیا۔اسوقت بائیڈن انتظامیہ نے انکی مدد کے لیے کئی سرکاری تنظیمیں بنائیں۔ ملک بھر میں پھیلی ہوئی ان تنظیموں نے افغان باشندوں کو ملازمتیں اور گھر بار حاصل کرنے میں معاونت فراہم کی۔ ان مہاجرین کی اکثریت انگریزی سے نا بلد تھی۔ انکے لیے انگریزی سکول بنائے گئے جہاں انہیں امریکہ کی تہذیب و ثقافت اور نظام زندگی سے روشناس کرایا گیا۔
پھر عالمی منظر نامے پر رحمان اللہ لکنوال کی آمد کے بعد سب کچھ بدل گیا۔ اب ان تنظیموں نے اپنے دفاتر اور ویب سائٹس بند کر دیئے ہیں۔ افغانوں کو ہر جگہ شک کی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے۔ صدر ٹرمپ نے لگ بھگ دو لاکھ افغانوں کے بیک گرائونڈ کی جانچ پڑتال کرنے کا حکم دیا ہے۔ لیکن یہ تصویر کا ایک رخ ہے۔ دوسرا رخ یہ ہے کہ اس ملک کا طاقتور میڈیا پوچھ رہا ہے کہ کل تک جن لوگوں نے افغانستان میں نیٹو افواج کے شانہ بہ شانہ طالبان کا مقابلہ کیا اب اگر انہیں واپس بھیجا گیاتو طالبان انکے ساتھ کیا سلوک کریں گے۔ اس بحث میں رحمان اللہ لکنوال کی مثال دی جا رہی ہے جو سی آئی اے کی زیر نگرانی ایک پیرا ملٹری یونٹ03 میں کئی برسوں تک خدمات سرانجام دیتا رہا۔ افغان سپاہیوں پر مشتمل اس قسم کے کئی یونٹ طویل عرصے تک اپنے ہموطنوں پر ظلم و ستم ڈھاتے رہے۔ انکا کام طالبان کی تلاش میں راتوں کے وقت گھروں کے دروازے توڑ کر لوگوں کو گرفتار کرنا تھا۔ معمولی مزاحمت کرنیوالوں کو خطرہ سمجھ کر ہلاک کر دیا جاتا تھا۔ یہ پیرا ملٹری یونٹ اتنے اہم تھے کہ آخری دنوں میں کابل ائیر پورٹ کی حفاظت کی ذمہ داری انہیں سونپی گئی اور انہیں یقین دلایا گیا کہ بہت جلد انہیں امریکہ بھیج دیا جائے گا۔ بائیڈن انتظامیہ نے اپنا یہ وعدہ پورا کیا اور 2021 کے اختتام سے پہلے ہزاروں افغان باشندے امریکہ پہنچ گئے۔ رحمان اللہ‘ اسکی بیوی اور پانچ بیٹے ستمبر 2021 میں امریکہ آئے۔ اسوقت ایک فلاحی تنظیم Operation Allies Welcome نے لکنوال کے لیے ریاست واشنگٹن کے شہر Bellingham میں رہائش اور ملازمت کا بندو بست کیا۔ یہ تنظیم چند روز پہلے تک لکنوال سے رابطے میں تھی۔ اسکے ترجمان کے مطابق لکنوال اپنے مستقبل کے حوالے سے بے یقینی کا شکار تھا۔ اسے سیاسی پناہ تو مل گئی تھی مگر گرین کارڈ کا حصول اسے مشکل نظر آرہا تھا۔ اسنے ملازمت چھوڑ دی تھی اور گھر کا کرایہ نہ دینے کی وجہ سے اسکی بیدخلی ہوچکی تھی۔ ایک فلاحی تنظیم نے اسکی فیملی کے لیے عارضی رہائش کا بندوبست کر دیا تھا۔ رحمان اللہ امریکہ میں چار سال گذارنے کے بعد بھی اسکے نظام زندگی کا حصہ نہ بن سکا۔اپنے آبائی شہر خوست میں اس نے اپنے دوستوں سے کہا تھا کہ بہت سی لاشیں اور زخموںسے کراہتے ہوے لوگ دیکھنے کے بعد وہ بکھر چکا تھا۔ اسکا ماضی امریکہ میں بھی اسکا تعاقب کرتا رہااور پھر ایک دن اسکے ہاتھوں نے آگ اُگل کر اپنے انتقام کی آگ بجھانے کی کوشش کی مگروہ یہ نہ جانتا تھا کہ اسکے اس جرم کی سزا اسکے دو لاکھ ہموطنوں کو بھی ملے گی۔ اب ان میں سے اکثر کو وہاں واپس جانا ہو گا جہاں دشمن انکے انتظار میں ہے۔ آخر میں شاعر فطرت منیر نیازی کا ایک اور شعر:
؎دیدنی ہے وحشتِ اولادِ آدم ان دنوں۔۔۔۔۔۔آسمانوں پر خدا کا قہر سناٹے میں ہے!!!

 

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button