ہفتہ وار کالمز

کرپشن پھر جیت گئی!

میرے عزیز ہموطنوں! پاکستان اس وقت ایک نازک موڑ پر کھڑا تھا۔ دو طاغوتی طاقتیں، سر بگریبان تھیں، اور پاکستان کی قسمت کا فیصلہ کیا جا رہا تھا۔ یہ دونوں پاکستان کی حکومت پر قبضہ کرنا چاہتی تھیں لیکن دونوں کا قبضہ نا جائز ہو گا۔ پہلے دوسری کی بات کر لیں۔ میاں نواز شریف اور ان کی پارٹی گذشتہ انتخابات میں شکست فاش سے دو چار ہوئے۔اس موقع سے فائدہ پہلی پارٹی نے اٹھایا۔وہ اس طرح کہ انتخابات کے نتائج نون لیگ، پی پی پی اور ایم کیو ایم کے حق میں جعل سازی سے کروا دیئے گئے ۔ جو ہارا ، وہ جیت گیااور جو جیتا وہ ہار گیا، چاہیے تو یہ تھا کہ یہ تینوں سیاسی پارٹیاں عوام کے فیصلے کو قبول کرتیں، انہوں نے نہایت ڈھٹائی سے جعلی نتائج کو قبول کیا اور حکومتیں بنا لیں۔ اب اس کے پیچھے جس طاقت کا ہاتھ تھا، وہ اب اس کا انعام مانگتی ہے۔اگر اسے وہ انعام نہ دیا گیا تو حکومت کا دھڑن تختہ بھی ہو سکتا ہے۔ظاہر ہے۔دوسری پارٹی نے کچی گولیاں نہیں کھیلیں۔ ہماری پیاری افواج پاکستان کی پیدائش یا اس سے پہلے ہی پاکستان پر نظریں جمائے بیٹھی تھی۔یہ فیصلہ کر لیا گیا تھا کہ پاکستان کو ان خود غرض اور کرپٹ سیاستدانوں کے حوالے نہیں کر سکتے۔ اس لیے جتنی جلدی ہو سکے، حکومت پر اقتدار عسکری قیادت کا ہو۔ ابتدا تو میجر جنرل اسکندر مرزا سے ہو چکی تھی، لیکن مکمل قبضہ ایوب خان نے کیا۔ خان لیاقت علی خان کو شہید کیا گیا اور ایسے حالت پیدا کیے گئے کہ سیاستدانوں کو نکمے ،ناکام اورحکومت کرنے کے لئے نا اہل ، قرار دیا جا سکے۔جب ایوب خان نے حکومت سنبھالی، تو آئین کو معطل کیا گیا۔مارشل لاء لگا۔ کچھ کام فوری طور پر عوام کو خوش کرنے کے لیے کئے گئے، اور کچھ اصلاحات، اور اقتصادی منصوبے بنائے، اور ساتھ ہی ساتھ ، مشرقی پاکستان کو علیحدہ کرنے کا کام بھی شروع کر دیا
کہتے ہیں ان سب عوامل میں امریکہ بہادر کی مرضی شامل تھی۔فوج کا اصل مشن پاکستان کی حکومت پر قبضہ تھا جسے وہ ایک لگے بندھے پروگرام کے مطابق عمل پیرا کر رہی تھی۔جب ایوب خان گیا تو وقفہ وقفہ کے بعد دوسرے فوجی حکمران آتے رہے، اور مشرف پرویز کے بعد مغربی ملکوں نے مارشل لاء لگانے پر پابندی لگا دی۔فوج نے اپنا مقصد اعلیٰ نہیں بدلا، طریق کار بدل لیا۔ جب انتخابات میں انہیں موقع ملا کہ ہارے ہوئوں کو جتوا دیں، تو پو بارہ ہو گئے۔اب پاکستان کے ہر اہم ادارے پر ایک فوجی جرنیل بیٹھا ہے، اور وزراء میں اہم پوسٹوں پر فوج کے اپنے براجمان ہیں۔اب یہ آخری کیل ٹھوکی گئی ہے کہ بڑے جرنیل کو ایسی پوزیشن پر بٹھا دیا جائے کہ وہ جو چاہے کریں اور ان پر مقدمہ بھی نہیں چلایا جا سکے، دوران ملازمت اور ملازمت کے بعد بھی۔اس طرح مارشل لاء کی تکمیل ہو جائے گی۔یہ نا جائز حکومت ان کے اشاروں پر ناچنے پر مجبور ہو گی کیونکہ فارم ۴۷ کا راز کبھی بھی عدالت منسوخ کر سکتی ہے۔ عدالتیں، پہلے ہی، سب حکومت کی تابع کر دی گئی ہیں۔
اب ایسا موقع ملا تھا کہ حکومت چاہتی تو جنرل عاصم منیر کو نوٹیفیکیشن دینے کے بجائے کسی اور جنرل سے سودا کرلیتی اور اس کو اس نئی پوزیشن پر لگا دیتی۔ یہ ذرا مشکل کام تھا، لیکن نونی حکومت جوڑ توڑ میں مہارت رکھتی ہے۔ ان کی مرضی کا جنرل نہیں ملا تو جنرل عاصم کو ہی قبولنا پڑا۔ شہباز شریف کوشش میں تھی کہ کسی طرح جنرل صاحب کو ٹھنڈا رکھیں، اس لیے انہیں پوری وردی میں اہم سرکاری میٹنگز میں اپنے ساتھ بٹھاتے ہیں، اگرچہ کہ وہ ریٹائر ہو چکے تھے۔ پتہ نہیں کس حیثیت میں؟
پاکستانیوں کے لیے دونوں ہی فریق کوئی مثبت قدم نہیں۔ ہونا تو چاہیئے کہ عمران خان کو جیل سے رہا کر کے پھر سے انتخابات کروائے جائیں، اور جو جیتے اسے حکومت بنانے دی جائے۔ اگر ایسا ہو جاتا ہے تو ملک کی ساکھ بحال ہو سکتی ہے، بیرونی سرمایہ آ سکتا ہے۔ صنعتیں بحال ہو سکتی ہیں اور ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکتا ہے۔ لیکن پاکستانیوں کی قسمت میں یہ سب کچھ کہاں؟ ہم تو ذلیل و رسوا ہونے کے لیے بنے ہیں۔معلوم نہیں کب تک؟
پاکستان کی مشکلات ختم ہونے کا نام نہیں لیتیں۔ ستم یہ نہیں ہے کہ ہم پر غیروں نے حملہ کیا ہے۔ ستم یہ ہے کہ ہمارے اپنے ہی ہمارے دشمن بنے لگتے ہیں۔ وہ بھی شاید یہ سمجھ کر ہم پر ظلم ڈھاتے ہیں کہ جیسے ان سے بڑا ہمدرد ہی کوئی نہیں۔وہ جب غیر ملکیوں کے احکامات بجا لاتے ہیں تو وہ بھی اپنے تئیں یہ سمجھ کر کے وہ ملک کا بھلا کر رہے ہیں، وہ مورکھ یہ نہیں جانتے کہ غیر ملکی ہمیشہ اپنا بھلا دیکھتے ہیں، دوسروں کا نہیں۔یہ درست ہے کہ امریکہ نے ہمارے ساتھ بھلائیاں کی تھیں۔شروع میں جب پاکستان بنا تھا اور جلد ہی خوراک کی کمی کا شکار ہو گیا تھا،تو امریکہ نے ہمیں گندم، گھی اور خشک دودھ کی امداد دی تھی۔اس کے بعد کچھ مالی امداد، کچھ فوجی امداد بھی دی جس سے ہمارے عیاش حکمرانوں نے یہ سمجھ لیا کہ یہ امداد اب ملتی رہے گی اور امریکہ اس کے بدلے ہم سے کچھ نہیں مانگے گا۔ اللہ کے واسطے یہ سب مفت میں ہے۔ ہم نے اگر یہ سوچا تو کتنا غلط سوچا۔ امریکہ نے جو بعد میں امداد دی وہ بھی اصل میں اس کے اپنے مقاصد کے لیے تھی۔ امریکہ کو خطہ میں ایسا حلیف چاہیئے تھا جو وقت پڑنے پر مشرق دسطیٰ میں اس کی کمک کو پہنچ سکے۔ اور اگر ضرورت پڑے تو چین کے خلاف بھی۔اور ہوا بھی کچھ ایسے ہی۔ جب امریکہ نے کوریا میں جنگ چھیڑی تو پاکستان نے اسے پٹ سن سے بنی رسیاں اور اور فوجی ضرورت کی اشیا بھیجیں۔امریکہ کے مفادات اتنے وسیع ہیں کہ اس کو فوجی اور دوسری طرح کی ضرورت پڑتی رہتی ہے۔ حالیہ مثال افغانستان کی ہے جس میں اس ملک کو روس کے قبضے سے چھڑوانے کے لیے، پاکستان کو شمولیت کرنی پڑی جس کے بغیر یہ کام نہیں ہو سکتا تھا۔
ان تعلقات میں خالی امریکہ کو مورد الزام دینا غلط ہو گا۔ ان سب معاملات میںپاکستانیوں نے اپنا مفاد بھی ذہن میں رکھا۔ جب امداد افغانستان کے لیے آتی تھی تو پاکستان سے گذر کر جاتی تھی۔اب کون کہہ سکتا ہے کہ کتنا سامان افغانستان پہنچا اور کتنا راستے میں ہی غائب ہو گیا؟امریکنوں کو سب پتہ تھا لیکن انہوں نے اسے جنگ کے اخراجات کا حصہ سمجھااور چشم پوشی کی۔پاکستان نے طالبان کے ساتھ ملکر روسیوں کے خلاف جنگ میں حصہ لیا اور آخر کار روسیوں کو بھاگنا پڑا۔ یہ فتح طالبان ، امریکہ اور پاکستان کی مشترکہ کوششوں سے ہوئی۔ لیکن امریکہ جلد از جلد اس جنگ سے پیچھا چھڑانا چاہتا تھا کیونکہ اس جنگ کے اخراجات نے امریکہ پر بے تحاشا قرضے لاد دئیے تھے۔ اور امریکی عوام کو یہ اخراجات ٹیکسوں میں دینے پڑتے تھے۔امریکی کچھ ایسی عجلت میں افغانستان سے نکلے کہ اربوں کا فوجی سامان اور اثاثے وہیں چھوڑ گئے۔جن میں سے ایک بگرام کی ایر بیس تھی جس پر انکے دوست کو بہت غصہ تھا، کیونکہ یہ بیس مستقبل میں پاکستان اور ایران کے خلاف کام آتی۔
در حقیقت مسئلہ امریکہ نہیں ہے۔ مسئلہ ہمارے حکمران ہیں جو حرام کھا کھا کر پورے حرامی بن چکے ہیں۔ پاکستان بننے کے فوراً بعد ہماری بد قسمتی سے قائد اعظم چل بسے۔ اور ان کے بعد جو اچھا اور ایماندار قائدملا اُسے بھی مروا دیا گیا۔یہ لمبی کہانی ہے سب کو معلوم ہے اس لیے یہاں دہرانے کی ضرورت نہیں۔اس کہانی کو بتانے کا مقصد یہ ہے کہ غیروں پر الزام دھرنے سے پہلے اپنے گریبان میں ضرور نظر ڈالنی چاہیئے۔ان حکمرانوں نے جن میں اشرافیہ کا طبقہ تھا، یہ پالیسی بنا لی کہ عوام کو غریب اور ان پڑھ رکھنا ہے۔ جب تک انہیں تعلیم نہیں ملتی، یہ ہمارے سستے غلام رہیں گے۔ ان سے ہم زراعت کا کام لیں گے اور مزدوری کا۔ تو یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں آج بھی کروڑوں بچے سکول سے باہر ہیں، اور جو سکول گئے بھی تو تیسری جماعت سے آگے نہیں پڑھ سکے۔یہ تو ہمارے بیرون ملک جانے والے نو جوانوں کی آمدن تھی جس سے ان کے بچے اچھے سکولوں میں پڑھے۔ اگرچہ ان کی تعداد مٹھی بھر تھی۔سرکاری اور نجی سکولوں میںمعیار تعلیم ناقص ہے۔ تعلیم سے مراد لکھنا، پڑھنا اور کچھ حساب پڑھانا لیا جاتا ہے۔ ہمارے طلباء کو اگراچھی تعلیم دی جاتی تو وہ خود علم حاصل کرنے کے اہل ہو جاتے۔کالجوں اور یونیورسٹیز میں تحقیق پر زور نہیں دیا جاتا۔ نہ تحقیق کرنے کا علم پوری طرح سکھایاجاتا ہے۔ تعلیم کا شعبہ ایک افسوس ناک داستان ہے۔شاید یہی وجہ ہے کہ پاکستانی نو جوان اپنا دماغ استعمال نہیں کرتے ورنہ وہ آج ظلم کے خلاف اٹھ کھڑے ہوتے؟
غالباً روزِ اول سے پاکستان میں کرپشن کی بنیاد ڈال دی گئی تھی۔ اس لیے اس قوم کو یہ شروع سے ہی بتا دیا گیا تھا کہ سرکاری ملازم مفت میں کام نہیں کرتے۔ انہیں کچھ تنخواہ حکومت دیتی ہے اور کچھ عوام سے رشوت کی شکل میں۔اس لیے عوام کو جب بتایا جائے کہ رشوت لینا اور دینا جرم ہے تو وہ آپ کی شکل دیکھتے ہیں۔پاکستان میں رشوت کے بغیر پتہ نہیں ہلتا۔ سب جانتے ہیں۔ اس رشوت کی وجہ سے آپ کے ملک میں بڑے بڑے بنگلے، اونچی اونچی عمارتیں، پلازے، چمکیلی گاڑیاں، اور تعیش کے ریستورانٹ، جو کھچا کھچ بھرے رہتے ہیں، نظر آتے ہیں۔اس سارے کاروبار پر اسی سال آئی ایم ایف نے، جو ہمارا مائی باپ ہے اور ہمیں قرض دیتا ہے تو دوسرے ہمیں قرض دیتے ہیں، اس نے ایک لمبی چوڑی رپورٹ لکھ دی ہے۔ اس میں حکومت کی اربوں کی کرپشن کی کہانی ثبوتوں کے ساتھ درج ہے۔ لیکن مجال ہے کہ کسی حکمران کے سر پر جوں رینگ گئی ہو؟ سچ تو یہ ہے کہ رشوت یا کرپشن کے نتیجے میں پاکستان میں اقتصادی ترقی ہوئی، غلط یا صحیح۔ حاکم سڑکیں اور پل اس لیئے بنواتے ہیں کہ ان میں تگڑا کمیشن ملتا ہے۔کوئی اور ملک ہوتا تو وزیر اعظم استعفی دے دیتا، لیکن پاکستان میں حکومتی کارکنوں کو استعفیٰ دینے کی روایت نہیں ہے۔
کسی شاعر نے کہا کہ ’’میری تعمیر میں مضمر ہے صورت اک خرابی کی‘‘یہ شاید پاکستان پر ہی کسی نے یہ جملہ کسا تھا۔
پاکستان میں عسکریت کا دور دورہ ہے۔ عسکری حضرات نے اپنے مقاصد حاصل کرنے کے لیے، پاکستان کے آئین کو دو دفعہ ترمیمات سے بدلا تا کہ فوجی آمریت کا راستہ بنایا جا سکے۔ان کی تابع دار حکومت نے ترمیمات اتنی تیزی سے پاس کروائیں جتنی دیر میں ایک عام سا قانون نہیں پاس ہوتا۔ نہ ان پر کوئی بحث ہوئی، نہ عوام کو بتایا گیا کہ اتنا اہم کام ہو رہا ہے۔ان خدا کے بندوں نے آئین کی ترمیم کو ایک مذاق بنا لیا۔ اب یہ ترمیمات گلے کا پھندا بن رہی ہیں۔ ان ترمیمات کا ایک نتیجہ عدلیہ کی خود مختاری ختم کرنا تھا۔ اگرچہ آئین پاکستان کے پری ایمبل میں صاف درج ہے کہ آئین میںعدلیہ کی آزادی پوری طرح محفوظ ہو گی۔ بلکہ اس کو مکمل آزادی دینے کے لیے آئین میں با قاعدہ وقت دیا گیا تھا۔آئین میں درج ہے: پاکستان کے آئین کی شق 175 (3) کے مطابق، عدلیہ کو انتظامیہ سے بتدریج علیحدہ کیا جائے گا پہلے چودہ برسوں میں۔ اور اب فوج کی خواہش پر عدلیہ کی آزادی کو ختم کرنے میں چودہ گھنٹے بھی نہیں لیے گئے۔اور عدلیہ بھی بھیڑوں کی طرح، اپنی خود مختاری ختم ہونے پر برداشت کرتی گئی۔
پاکستان اب مکمل طور ر فوج کے قبضہ میں آ چکا ہے۔ فوج بری نہیں لیکن فو ج کی تربیت سول ادارے چلانے کی نہیں ہوتی۔ان کو تو سرحدوں کی حفاطت کرنا سکھایا جاتا ہے۔اس لیے پاکستان ایک فیل ریاست کی طرف تیزی سے بڑھ رہا ہے۔جس ملک کو خوش کرنے کے لیے سب کچھ کیا جا رہا ہے وہ پاکستان کو افغانستان کی طرح استعمال کر کے گندے ٹشو کی طرح پھینک دے گا۔لیکن قوم سو رہی ہے اور اصحاب کہف کی طرح جب جاگے گی تو سب کچھ لٹ چکاہو گا۔یہی ان کی قسمت ہے۔

 

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button