ہفتہ وار کالمز

میری مرضی

انا کے بت میں ضد کا عنصر بڑھ جائے تو فلاح و اصلاح کی ساری راہیں مسدود ہو جاتی ہیںاچھے لوگوں کی کسی بھی معاشرے میں کبھی بھی کمی نہیں رہی مگر اسے ہمارے بخت کے پیچاک کہیے کہ وطن ِ عزیز کی بھاگ دوڑ سبھالنے میں زیادہ تر مفاد پرست و نااہل گروہ سے ہی واسطہ پڑا ہے جس کا تواتر عصر حاضر میں بھی رواں ہے اس لامتناہی تباہ کُن عمیق گہرائی میں اترنے کی پشت پربیٹھے بنی نوع انسان کی اپنی مرضی(جو اس کی انا کی تسکین کا موجب ہے ) سوار ہے ویسے بھی انسان اپنی مرضی سے جینے کو ترجیح دیتا ہے غلط یا صحیح کے تعین میں بھی اپنی منشاء کو فوقیت دیتا ہے تاریخ ایسے کئی حکمرانوں کو اپنے اوراق میں بند کئے ہوئے ہے جو میری مرضی کے مصداق کسی دوسرے کی جائز یا صحیح بات کو اہمیت نہیں دیتے تھے خیبر پختون خواہ کی حکومت کچھ اسی حوالے سے ملکی و عوامی سلامتی کو پس ِ پُشت ڈالتے ہوئے افغان حکومت پر اپنے صوبے کا امن و امان نچھاور کر رہی ہے مانا کہ وفاق سے ان کے اختلافات حد درجہ کشیدہ ہیں مگر ملکی سلامتی کے لئے کشیدگی کو اُس درجے پر لے جانا جہاں ریاست کے دشمن اپنے مذموم عزائم کی تکمیل کے لئے کھلے عام گھومتے پھریںکسی بھی سیاسی جماعت کا ایسا رویہ درست نہیں ہوتا مجیب الرحمان نے بھی بھارت کو مشرقی پاکستان دخل در اندازی کی اجازت دی تھی تو نتائج کیا نکلے اس پر کے پی کے حکومت نظر دوڑا لے ، افغان حکومت سے حکومتی مذاکرات کی تفصیل سے ساری قوم با خبر و آگاہ ہے کہ جس میں افغان حکومت کے سپہ سالاروں نے پاکستان حکومت کے عہدیداروں کے اس اہم ترین مطالبے کو رد کر دیا کہ جس میں دہشت گردوں کو افغان سرزمین سے پاکستان پر حملہ کرنے سے ،منصوبہ سازی کرنے سے روکنے پر زور دیا گیا تھا تحریک ِ انصاف کا ان حقائق کو اپنے سامنے دیکھنے کے باوجود افغان حکومت کی حمایت میں نرم گوشہ رکھتے ہوئے اُن کی حمایت کرنا اور اپنے ملک کی وفاقی حکومت پر تنقید کے نشتر برسانا حب الوطنی اور دانشمندی کے دلائل نہیں دیتا البتہ میری مرضی پہ مبنی والی باتوں کا عکس اس میں ضرور ملتا ہے چین ،امریکہ ،ایران و پاکستان سمیت اک دنیا افغانستان کی سرزمین سے جاری دہشت گردی پر سراپا احتجاج ہے کبھی تاجکستان کے سرحدی علاقوں میں چینی باشندوں کو لقمۂ اجل بنادیا جاتا ہے تو کبھی وطن ِعزیز کے صوبہ خیبر پختون خواہ کے مختلف علاقوں میں دفاعی اداروں پر افغان دہشت گرد حملہ آور ہو رہے ہیں ایسی صورت ِ حال میں تحریک ِ انصاف کے عمائدین کا افغانوں کے لئے ہمدردی رکھنا شکوک و شبہات کو جنم نہیں دیتا بلکہ یقین کے دائروں میں روشن حقائق سامنے آنے لگتے ہیں مہذب معاشروں میں سیاسی مسائل کو بذریعہ گفت و شنیدباہمی رضا سے پایہ تکمیل تک پہنچایا جاتا ہے جو جمہوری حُسن کا آئینہ دار ہوتا ہے جمہوری روایات میں احتجاج یا کسی قومی مسئلے پر اختلاف ہونا لازمی امر ہے مگرسیاسی اختلافات کو سرحدی جنگوں کے روپ میں سڑکوں پر لاکر اپنے ہی ملکی املاک کو توڑنا، نذر آتش کرناخلاف ِ قانون، غیر اخلاقی گفتار سے سوشل میڈیا پر اپنے ہی اداروں کو نازیبا لفاظی سے پکارنا کسی خواندہ معاشرے کی دلیل نہیں بنتا جاہلیت کی یہ سیاہی صرف ہمارے کپڑے نہیں کالے کرتی اس سے ہم اندرونی و بیرونی طور پر منفی رد ِعمل کے اشخاص بن جاتے ہیں جیسے طالبان ہیں جو میری مرضی کے حوالے سے صرف اپنی سوچ پر گامزن ہو کر دہشت پھیلا کر سمجھتے ہیں جنت مل گئی اسلام کی ایسی جاہلیت کے لئے کئی روشن دلیلیں ہیں مگر میری مرضی کے حصار میں گم اچھے برے اعمال کی نزاکتوں سے عاری یہ طبقات اپنی سوچ کو بالا رکھتے ہوئے جو جی میں آتا کر ڈالتے ہیں ضیاء الحق کو بھی پتہ تھا کہ ذولفقار علی بھٹوکا چودہری ظہور الہی کے قتل سے کوئی واسطہ نہیں ہے مگر چونکہ اُس نے غیر ملکی ایجنڈے پر عمل پیرا ہونا تھا اس لئے میری مرضی جیسے عدل و انصاف کے فیصلے سے ذوالفقار علی بھٹو کو سپرد ِ دار کیا اور اسلامی ڈھونگ کی چادر اوڑھ کر ضیاء الحق نے اپنے گیارہ سالہ مارشل لاء کو طوالت بخشی جس میں غیر جمہوری و غیر سیاسی شخصیات کی پذیرائی ہوئی اور مفاد پرستی کو فروغ ملا یوں جمہوری روایات خاکستر ہوئیں اور ساتھ ہی عوامی شعور کی تدفین بھی ہوگئی آج کی جمہوریت میں مطلق العنانیت کا بڑھتا رحجان اس بات کی واضح دلیل ہے کہ سیاست کے بُت خانے میں بیٹھے یہ بھگوانوں کا روپ دھارے صرف عوام کو اپنی ہر مرضی کے آگے جھکتا ہوا دیکھنا چاہتے ہیں اور بیشوری کے پردے میں پروان چڑھتےیہ فارغ العقل لوگ جانے کب سیاستدانوں کی مرضی کی بجائے نظریاتی سوچ کے تابع ہوں گے یہ شخصیت کی مرضی اور اُس کے طواف کرنے کی بجائے احکام الہٰی کی جانب متوجہ ہو جائے تو نظریۂ پاکستان کو مضبوطی کی جانب لیجاتے ہوئے ریاست کے استحکام کو پُر امن بنا کر اسے تقویت دی جا سکتی ہے یہ مرضی والی گردان جو ملک کے نظم و نسق میں چلائی جارہی ہے اس کا یکسر خاتمہ کر کے اسلامی اصولوں کی بنیادوں پر نظام حکومت کو قائم کر کے عدل و انصاف کو حقیقی معنوں میں عوام کی دہلیز پر پہنچایا جاسکتا ہے تا کہ کسی پھر کسی گروہ یا فرد واحد کی میری مرضی والی پالیسیاں اپنے اختتام کو پہنچیں ۔

 

 

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button