سماج

سماج ایک چار حرفی لفظ ہے مگر سماج کا پھیلاؤ بہت زیادہ ہے،اتنا زیادہ کہ سماج پر کبھی کبھی گفتگو مکمل نہیں ہوتی،کیونکہ کچھ سماج complex اور complicated ہوتے ہیں اندرونی اور بیرونی عناصرسماج پر اثر انداز ہوتے رہتے ہیںاور سماج میں تبدیلیاں آتی رہتی ہیںسماج کی تبدیلی میں سب سے اہم فیکٹر تعلیم کا ہے تعلیم سماج میں بہت تیزی سے تبدیلیاں لاتی ہے جو ایک دو عشروں میں نمایاں طور پر نظر آنے لگتی ہیں،تعلیم کے اثرات بہت تیزی سے فرد کے نظم و ضبط میں نظر آتے ہیں،زبان اور لہجہ بدل جاتا ہے،Clifford Wolfe کی تصنیف یورپ کی تبدیلی کے حوالے سے اہم ہےCliffordفلسفے کا استاد تھا، اس کو سیاحت کا بہت شوق تھا،کسی سفر سے لوٹتا تو وہ اپنے طلباء کونئی نئی کہا نیاں سناتا،نئی چیزوں سے واقفیت دیتا،طلباء کو نئے الفاظ سے روشناس کراتا،اور بہت تازہ علم اپنے طلباء میں منتقل کر دیتا،پھر اس نے اپنے تجربات کتاب کی شکل میں لکھنے شروع کر دئیے،Clifford اسکاٹ لینڈ کا رہنے والا تھا،چونکہ اس کی کتابیں علم کا خزانہ ہوتیںلہٰذا لوگ اس کی کتابوں کا انتظار کرتے،ہرچند کہ وہ فلسفے کا استاد تھا مگر اس کا زیادہ تر موضوعات Socialogy سے متعلق تھے،مگر اس میں نفسیات یا Human behaviour کا رنگ بھی غالب ہوتا ،Clifford نے لکھا کہ یورپ پر نمایاں اثرات انگلینڈ،اسپین،اٹلی اور فرانس کے نظر آئے ایک زمانہ تھا کہ جب ویٹییکن سٹی کے یورپ پر بہت اثرات تھے بادشاہوں کو بھی ان کی بادشاہت کی سند ویٹی کن سٹی دیتا تھا،اس خطے پر جنگوں نے بہت اثرات مرتب کئے،اس نے لکھا کہ ماہی گیری کے پیشے اور جہازرانی کی صنعت نے غیر محسوس انداز میں جوڑ کر رکھا اورحیرت انگیز بات یہ کہ یورپ نے سائنس اور ٹیکنالوجی میں ترقی ساتھ ساتھ ہوئی،انکے لباس، عادات، طور طریقے بھی یکساں تھے جنگوں کی ہولناکیوں نے ان کو امن کی اہمیت کا سبق سکھایا،وہ سمجھ گئے کہ ملکی ترقی معاشیات سے جڑی ہوئی ہے ،یورپ عرصہء دراز سے تجارت سے جڑا ہوا تھا،ہزار جنگوں کے باوجود یورپ کی باہمی تجارت کبھی نہیں رکی،ہماری بہت سی کتابوں میں برطانیہ،فرانس ، آئیر لینڈ،اسکاٹ لینڈ کی باہمی مخاصمت کی رنگین داستانیں درج ہیں لندن میں قیام کے دوران جب ایک انگریز سے میں نے انگلینڈ اور فرانس کی anomisityکے بارے میں ڈرتے ڈرتے سوال کیا تو اس نے ہنس کر کہاکہ یہ رقابت کبھی بادشاہوں کے زمانے میں ہوتی تھی اور اس زمانے میں یہ بات سیاست کی ہے سو سیاست دان جانیںمگر مجھے تو فرانس کے پرفیوم اور میوزک بہت اچھا لگتا ہے اور ہم نے ایک دوسرے کے لئے دروازے کھول رکھے ہیں،مگر پھر بھی ہم مختلف ہیں اس کا نام براؤن تھا اس کی باتیں سادہ اور دلپذیر تھیں جب تحریک پاکستان چل رہی تھی تو پاکستان کے بارے میں بہت کچھ کہا گیا مگر ابوالکلام آزاد نے پاکستان کے قیام کے بارے میں اہم باتیں کیںوہ باتیں ان کی کتاب India Wins Freedom میں لکھ دیں مگر کتاب آنے سے قبل مولانا کا موقف سامنے آتا رہا روزنامہ پرتاب ان کے بیانات بہت اہتمام سے چھاپتا تھا پرتاب کے ایڈیٹر بہت پڑھے لکھے انسان تھے وہ کہا کرتے کہ مولانا کے بیانات میں بہت علمیت ہوتی ہے،مولانانے لکھا کہ پاکستان جن علاقوں پر مشتمل ہے ان کے سماج ،رہن سہن،زبان، تاریخ میں بہت فرق ہے ان علاقوں میں کچھ بھی مشترک نہیں،سندھ، بنگال، پنجاب،پختون خواہ اور بلوچستان کی ثقافت، زبان، تاریخ، روایات اور سماج بہت مختلف اور مذہب ان کو باندھ کر نہیں رکھ سکتا،اور شومئی قسمت سے یہی ہوااگر نظام سیکیولر ہوتا تو امکانات روشن تھے کہ پانچوں اکائیاں مساوات کے رشتے میں بندھ جاتے ا س تفریق کی ابتدا پنجاب میں دولتانہ نے ڈالی اور پنجابی Chauvinism کی بنیاد ڈال دی گئی،پختون خواہ کے باچا خان کو غدار کہا گیا،پھر بنگالیوں کے ساتھ مسلسل زیادتیاں کی گئیں اور مذہب کا ڈھنڈورا پیٹا گیا،پنجاب کی اس روش نے پختون خواہ، سندھ بنگال اور بلوچستان کوNationalism کی طرف ڈھکیل دیا،مشترک تو کچھ بھی نہ تھا لہٰذا Nationalism کو آب و ہوا خوب میسرآئی کھاد اور پانی بھی ملاسیاست میں پنجاب اور سندھ دست و گریباں رہے،آخر اٹھارویں ترمیم نے یہ راستہ سجھایا کہ سندھ اور پنجاب بڑے صوبے ہیں،حکومت ان کی ہو اور پختون خواہ اور بلوچستان کو سیاسی کھیل کا حصہ بنایا جائے اوریہی ہوا ،تعلیم کے میدان میں پنجاب کی برتری رہی ،پی پی پی کو الیکشن جیتنے کے لئے سندھ کو جاہل رکھنا ضروری تھا اور پختوں خواہ کے قبائیلی نظام نے تعلیم کو ضروری نہیں سمجھا،سو یہ سارے سماج جدا جدا ہی رہے،اسی دوران جنرل ضیا کے نام نہاد افغان جہاد نے وہ کیا جو پختون خواہ چاہتا تھاان کا زیور کتاب نہیں بندوق تھی پھر بندوق کی جگہ کلاشنکوف نےلے لی پھر پختونوں کے کاندھوں پر اسٹنگر میزائیل آگئے اس کھیل میں پختونوں اور افغانوں نے کھل کر اپناحصہ ڈالا،اور کبھی نہیں سوچا کہ اس کے نتائج کیا ہونگے،طاقت کا یہ کھیل دیکھا تو پنجاب نے بھی پنجابی طالبان بنا لئے اور
وہ بھی پختونوں کی ڈگر پر چل پڑے،مذہب کو بندوق ملی تو طاقت کے بل بوتے پر بات منوانے کا دور آگیا دلیل کی گردن مروڑ دی گئی اس تبدیلی پر دینی جماعتیں خوش تھیں کہ چلو دلیل سے جان چھوٹی اب فتوے بندوق کی نالی پر فیصلے ہونگے،مذہب کو سائنس او ر ٹیکنالوجی سے ویسے ہی چڑ ہے کتاب پڑھی جائے تو تو دلیل سے رابطہ بحال ہو جاتا ہے سوچنے کا عمل شروع ہوتا ہے،اور سائنس اور ٹیکنالوجی کی راہیں کھلتی ہیں،پختون خواہ نے کتاب سے اپنا واسطہ منقطع کر لیا ،مشعال خان کو سوچنے کی سزا دی گئی اور سہیل آفریدی پختون خواہ کا وزیر اعلی بن گیا،گنڈا پور کو کیسے بھلایا جا سکتا ہے عمران کے پاس اچھا موقع تھا وہ نوجوانوں کو کتاب کی طرف لا سکتا تھا مگر یہ ایک لمبا راستہ تھااقتدار کے لئے مذہب کا استعمال ضروری تھااور Exploitation،فوج نے یہی راستہ تجویز کیا تھااور اس کے لئے پہلے مرحلے میں ہی سونامی کے لفظ کا استعمال ہوا اور وقت مل جاتا تو شائد یہ سونامی سب کچھ بہا کر لے جاتی اور سب ہاتھ ملتے رہ جاتے ہم بار بار لکھتے رہے کہ کوششیں جاری ہیں کہ پاکستان کو افغانستان بنا دیا جائے اور افغان لیڈ ملاٌعمر سے بھی متاثر تھے پورا پختون خواہ افغان امارات کے زیر اثر آچکا تھا اور بلوچستان میں کوئٹہ شوری بلوچستان میںاپنے پنجے گاڑھے ہوئے تھی فوج کو بروقت عقل نہ آتی تو حالات بہت بدل جاتے،آپریشن ضربِ عصب نے ملک کو بچا لیا،ہم بات کر رہے تھے سماج کی،یوں تو سماج بہت سست روی سے بدلتا ہے،بیرونی عناصر بہت سست روی سے اثر اندازPenetrate کرتے ہیں لیکن سیاست جب عید کا میلہ بن جائے تو سماج تیزی سے بدلتا ہےاور اپنی روایات کو مستحکم کرتا ہے،پختونوں کا تعلق کتاب سے مستحکم ہوتا تو تو بندوق کی طرف نہ جاتے کلاشنکوف سے دور رہتے مگر بندوق سے بہتر ہتھیار ملنے پر شاداں اور فرحان تھے اور دینی جماعتیں جن کا تعلق پختوں خواہ سے ہی تھا وہ سمجھتی تھیں کہ اسلامی انقلاب کلاشنکوف سے ہی آئیگا،ذہن کے کسی کونے میں یہ بات جاں گزیں ضرور تھی کہ یہ تباہی کا راستہ ہے اسی لئے کہا گیا کہ ہم پتھروں کے دور میں جانے کے لئے تیار ہیں،یہ سوچ کی پستی تھی ایک اچھا سماج ہمیشہ بہتری کی طرف جاتا ہے وہ ترقیء معکوس کی طرف نہیں جاتا،مولوی کو اتنا معلوم ہے کہ فرد کا رشتہ کتاب سے قائم ہوا تو فرد سائنس اور ٹیکنالوجی کی جانب ضرور جائیگااور نتیجتاًمذہب سے دور ہو جائیگامولوی کے اس خوف نے کہ اس کا اثر معاشرے میں باقی نہ رہے گا کتاب سے دوری اختیار کی اور اپنے مخصوص سماج کے گرد لوہے کی دیواریں اٹھا لیں افغان معاشرہ اتنا دقیانوسی بھی نہ تھاکبھی کابل میں جدید اسکول ہوا کرتے تھے یہ سلسلہ جاری رہتا تو امکان تھا کہ افغان سماج بہتری کی طرف آجاتا مگر مولوی اقتدار نے افغانستان اور ایران کو پیچھے کی طرف دھکیل دیا،مگر اب لگتا ہے کہ ہزار سال سے افغانستان ویسا ہی ہے جیسا کبھی تھا،اور افغان اس حالت پر مطمئن نظر آتے ہیںظاہر ہے اس کے اثرات پختون اور بلوچ سماج پر بھی پڑنے تھے ان حالات میں اگر افغان surviveکر سکتے ہیں تو پختونوں نے سوچا کہ ہمیں قبائیلی نظام بدلنے کی کیا ضرورت ہے احمد عباس نے لکھا ہے کہ قبائیلی علاقوں میں کیڈٹ کالجوں نےوہاں کے سرداروں کو مجبور کردیا کہ وہ اپنے بچوں کو ان کالجوں میں تعلیم کے لئے بھیجیں مگر یہ اثرات پانچ فی صد سے بھی کم ہیںیورپ میں علم کا Flow بلا تعطل جاری رہا کتاب پڑھنے اور کتاب لکھنے کا شوق باقی رہا مگر پختونوں اور افغانوں کا رابطہ کتاب سے نہیں رہاتو سماج میں بھی تبدیلی نہیں آئی عمران پختونوں کو نہ بدل سکے اور بھٹو جیسا ذہین آدمی سندھ کو نہ بدل سکا،کیا یہ سمجھ لیا جائے کہ لیڈروں کے ذہن میں یہ بات سما گئی ہے کہ سماج بدلا تو ان کے اقتدار کوخطرہ ہوگا،اب کیا کہا جائے کہ بھٹو عوام کو تحفے میں عوامی سوٹ اور وہ آئین دے کر گئے ہیں جو شہریوں کے ایمان درست کرتا ہے،کوئی بتلائے کہ ہم بتلائیں کیا۔



