پوری کہانی کیا ہے؟

پاکستان کی مصیبتیں ختم ہونے کا نام نہیں لیتیں۔ یا تو قدرتی آفات نے گھیرا ڈالا ہو تا ہے، اور اگر وہ نہیں تو انسانی حرکات مشکلات کے پہاڑ کھڑے کر دیتی ہیں۔ جس فوج سے ہمیں امید تھی کہ وہ ہماری حفاظت کرے گی، اسے اپنی پڑی ہوئی ہے۔ کوئی ایثار کی بات نہیں۔ کوئی ملک کی مشکلات ختم کرنے کی بات نہیں۔بس ہماری بات مانو۔ ہم سیاست میں دخل نہیں دیتے، ہم تو سیاست کو بھاڑ میں جھونکتے ہیں۔ ہم نے ہارے ہوئے سیاستدانوں کو حکومت دلوا دی۔ اب وہ ہمارے عمر بھر کے غلام بن گئے۔ہم ان سے جو مانگیں گے وہ دیں گے۔ اگر سپہ سالارکو تینوں افواج کا سر براہ بنانا تھا، اور اسے تا حیات کسی قسم کے مقدموں سے بچانا تھا تو ہم نے کروا لیا۔ اسے اپنے ایٹمی ہتھیاروں کا مکمل اختیا ر دینا تھا وہ دے دیا۔یہ نیا سپہ سالار اعظم پتہ نہیں اور کیا چاہتا ہے، اور شاید اسے بھی نہیں پتہ۔ کیونکہ اشارے تو اسے سمند پار سے آتے ہیں۔ حسب معمول، احکامات واشنگٹن ڈی سی سے آتے ہیں۔ انہیں یہ نوجوان فوجی سپہ سالار بھا گیا ہے۔وہ ان کے لیے ہر کام کرے گا جو اس کو بتایا جائے گا۔ اگر اسے کہا گیا کہ ایک ہزار بندے مار دو تو وہ مروا دے گا اور اُف نہیں کرے گا۔
اس سارے قصہ کے پیچھے کہانی کیا ہے؟ در اصل جب سے اسرائیل نے غزہ پر قبضہ کرنے کا منصوبہ بنایا ہے،اس کو اس با ت کی فکر پڑ گئی ہے کہ کہیں پاکستان کا وزیر اعظم جو نہایت مقبول ہے نہ صرف پاکستان میں بلکہ اسلامی دنیا میں بھی، کہیں وہ اسلامی جوش میں آکر کہیں اس ملک پر ایٹمی بم نہ بھجوا دے۔ اس فکر سے ان کے وزیر اعظم ، جسے ہم تسمانین ڈیول کہہ سکتے ہیں، یا ٹی ڈی، کو رات کو نیند نہیں آتی۔ اس لیے کہ اس کا ملک ایک ایٹم بم کی مار ہے۔چنانچہ کئی سالوں سے ان کے سمجھدار لوگ اس منصوبہ پر کام کر رہے تھے کہ پاکستان کی حکومت سے عمران خان کو کیسے نکالا جائے؟ سب سے پہلے تو امریکہ کے تعاون سے ایک سازش تیار کی گئی جس میں ہمارے اپنے سابق سپہ سالا رقمر جاویدباجوہ، نواز شریف فیملی، زرداری خانوادہ اور دوسرے سیاستدانوں کو یا رشوت دے کر یا کوئی اور فائدے دکھا کر عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کا ووٹ ڈلوایا گیا اور خان کو گھر بھیج دیا گیا۔لہٰذا ، پہلا مرحلہ ختم ہوا۔ اس کے بعد نئی عبوری حکومت بنی جو ٹیکنو کریٹس کی تھی اس میں کرپٹ ترین حضرات کو رکھا گیا۔ مسئلہ آن پڑا کہ اب انتخابات کروانے ضروری تھے۔لیکن کوئی بڑا مسئلہ نہیں تھا۔الیکشن کمیشن اور چیف جسٹس کی ملی بھگت سے پاکستان تحریک انصاف، جو عمران خان کی پارٹی تھی، اس سے اسکا انتخابی نشان بلا چھین لیا گیا ۔ اب تحریک کے حمائتی کسے ووٹ ڈالیں گے؟ یہی نہیں، ایک ریلی میں عمران خان پر قاتلانا حملہ بھی کیا گیا، جس میں انہیں ٹانگوں پر گولیاں لگیں اور وہ کتنی دیر صاحب فراش رہے۔ جب انتخابات ہوئے، تو ان حمائیتوں نے ، تمام مشکلات کے باوجود، پارٹی کے امید واروں کو بطور آزاد امید وارووٹ ڈالے۔اس پارٹی کو اتنے ووٹ پڑے کہ پرانی حکومتوں کے جغادری سیاستدان منہ کی کھا کر چت ہو گئے۔عمران خان کو جیل میںڈال دیا گیا تھا کچھ بھونڈے قسم کے بودے الزامات لگا کر کہ کسی بھی کورٹ میں پہلی پیشی میں اڑا دئیے جاتے۔ الیکشن کمیشن کا خبیث کمشنر پھر آڑے آیا اور فوج کے ساتھ مل کر جو پی ٹی آئی والے جیت چکے تھے اور فورم 45 پر اس کی تصدیق ہو چکی تھی، ان کو فورم 47میں فورجری کر کے ہروا دیا گیا اوراس طرح نون لیگ اور پی پی پی، اورایم کیو ایم کی حکومت بنا دی گئی۔یاد رہے کہ فورم 47 میں کسی ایک حلقہ کے تمام انتخابی سٹیشنز کے نتائج کی سمری دکھائی جاتی ہے جس میں ہیر پھیر کرنا آسان ہو تا ہے۔
یہ حکومت بنا کر فوج کو اپنی من مانی کروانے کی کھلی چھٹی مل گئی۔اس لیے کہ حکومت میں شامل زیادہ تر ارکان فورم 45پر ہارے ہوئے تھے اور اگر وہ کوئی حکم ماننے سے انکار کرتے تو ان کی اہلیت بھی ختم ہو جاتی۔سپہ سالار باجوہ کے بعد نواز شریف نے عاصم منیر کو سپہ سالار منتخب کیا۔ جو پہلے ہی سے سارے پلان بنا چکا تھا۔ اس کو معلوم تھا کہ پاکستان اپنے فیصلے خود کرنے کا مجاز نہیں۔ تمام احکامات واشنگٹن سے آتے ہیں۔اب مزے کی بات یہ ہے کہ واشنگٹن میں بیٹھا صدر بھی خود کوئی فیصلہ نہیں کر سکتا خصوصاً ایسے معاملہ پرجس میں اسرائیل کی دلچسپی ہو۔پاکستان میں، جیسا کہ اوپر بیان کیا جا چکا ہے، اسرائیل کو خاص دلچسپی ہے۔ چنانچہ صدر ٹرمپ نے عاصم منیر کو لنچ پر بلایا اور دو ڈھائی گھنٹے میں انہیں سمجھایا کہ پاکستان کو راہ ہموار کرنی چاہیئے کہ وہ اسرائیل کو تسلیم کر لے۔ جنرل نے ٹرمپ کو کیا بتایا ہمیں معلوم نہیں، لیکن اس لنچ کے بعد سے جنرل صاحب نے پاکستان میں تحریک پر اور عمران خان اور انکے کنبہ پر مزید سختیاں شروع کر دیں۔9 مئی کا ڈرامہ رچایا گیا۔ اور سب سے بڑی بات ایک سازش شروع کی گئی۔ وہ یہ کہ ٹرمپ نے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کو سمجھایا کہ وہ پاکستان پر ایک معمولی حملہ کرے۔ اس کی وجہ بنانے کے لیے پہلگام میں 25کے قریب سیاحوں کو گولیوں سے ہلاک کیا گیا اور اس کا الزام پاکستان پر ڈالا گیا۔ جسے پاکستان پر حملہ کرنے کا بہانہ بنایا گیا۔
یہ حملہ چار دن جاری رہا، لیکن کسی سائیڈ میں کوئی واضح نقصان نہیں ہوا سوائے اس کے کہ پاکستان کے جوشیلے ہوا بازوں نے بھارت کے چھ جنگی جہاز مار گرائے۔ وہ غالباً اس طرح کہ چین کو شاید پتہ نہیں تھا کہ یہ جنگ محض نورا کشتی ہے، اس نے پاکستانی فضائیہ کو کمک دے دی۔ جس سے
پاکستانی ہوا بازوں نے آسانی کے ساتھ بھارتی جہازوں کو نشانہ بنا لیا۔ مودی بہت جزبزہوا، لیکن اس نے بجائے جنگ کو طول دینے کے ،ٹرمپ سے کہا کہ وہ پاکستان کو جنگ بندی پر مجبور کرے۔
اس لڑائی کا مقصد ہی یہ تھا کہ پاکستان کی فتح دکھانی تھی اور عاصم منیر کو اعزاز دلوانا تھا۔ یہ اعزاز فیلڈ مارشل کے عہدے سے دلوایا گیا اور ساری قوم نے پاکستان کی فتح کے جشن منائے۔افسوسناک بات یہ ہے کہ پاکستانی حکومت اس سازش میں برابر کی شریک تھی۔ اسے پتہ تھا کہ یہ ایک نمائشی جنگ تھی۔پہلگام میں سیاحوں پر حملہ کرنے والے دہشت گرد بھی دونوں طرف سے گئے تھے۔ عاصم منیر نے اس اعزاز کے بعد سازش کی دوسری طرف جانا تھا اور وہ تھا پاکستان کے آئین میں 27 ویں ترمیم کروانا۔اس کا ذکر بعد میں آئے گا۔
جنرل صاحب کو دوبارہ واپس صدر ٹرمپ کے پاس جانا پڑا جہاں انہوں نے بتایا کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے میں مذہبی پارٹیاں تیار نہیں تھیں۔ انہیں حکم ملاکہ یہ کا م توکرنا ہی ہو گا۔ اور یہ کہ ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال میں وزیر اعظم کی اتھارٹی ختم کرنی چاہیئے ۔ یہ آئینی ترمیم کے بغیر ممکن نہیں تھا۔انہیں کہا گیا کہ وہ جو بھی ضروری سمجھتے ہیں کریں۔ امریکہ ان کے ساتھ کھڑاہے۔ جنرل صاحب نے موقع غنیمت جانا۔ایک طرف ان کی توسیع کا سوال تھا، دوسرے یہ کہ اگر انہوں نے کسی دینی جماعت کا
خو ن خرابہ کروایا تو ایک دن عمران خان اس کا احتساب کرے گا۔ ان سب کا حل یہی نکالا گیا کہ27 ویں آئینی ترمیم کی جائے۔
مذہبی جماعتوں کو خبر دار کرنے کی نیت سے، حکومت نے تحریک لبیک پاکستان کو اکسایا کہ وہ احتجاج کرے۔ تحریک نے مرید کے جا کر ڈیرے ڈال دیے۔ حکومت نے ان کے ڈیرے پر شبخون مارا اور کہتے ہیں کہ ایک ہزار سے زیادہ تحریک کے کارکنوں کو ہلاک کر دیا۔ سرکاری اعداد تو بہت کم نمبر بتاتے ہیں۔ بہرحال، تحریک کو کچلنے کا مقصد دوسری مذہبی جماعتوں کا ڈرانہ دھمکانا تھا۔ ابھی کہہ نہیں سکتے کہ اگر پاکستان نے اسرائیل کو تسلیم کرنے اور ابراہیم ایکارڈپر دستخط کرنے کا اعلان کیا تو کتنی مخالفت کا سامنا کرنے پڑے گا؟ جنرل صاحب جو بھی مخالفت ہوگی اسے جبراً ختم کریں گے کیونکہ ان کو امریکہ نے لائسنس دے دیا ہے۔
اب چند ہی دنوں میں پاکستان ، ہمارے اندازے کے مطابق، اسرائیل کے ساتھ ابراہیم ایکورڈ پر دستخط کرے گا، اور ملاُ ایک دوسرے کا منہ دیکھتے رہ جائیں گے۔
سوال یہ ہے کہ اسرائیل کیوں پاکستان اور دوسر اسلامی ملکوں سے سفارتی تعلقات بنانا چاہتا ہے۔مڈل ایسٹ اور کچھ عرب ممالک میں تو اس کی دلچسپی تجارت اور اپنی ٹیکنیکل مہارتیں بیچنا ہے۔ پاکستان سے اس سفارتی تعلق کے پیچھے اور مقاصد بھی ہو سکتے ہیں، جیسے کہ پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کا پتہ چلانا۔اس کام میں امریکہ اور بھارت دونوں ناکام ہو چکے ہیں ۔ اس لیے اسرائیل کا خیال ہے کہ جب ان کا سفارت خانہ کھل گیا تو موساد یہ معلومات حاصل کر سکے گی۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اگر کسی کے پاس یہ معلومات ہیں تو کچھ ڈالروں کے عوض وہ موساد کو مل جائیں گی۔ کسی نہ کسی طرح یہ کام ہو جائے گا۔
ایک دفعہ اسرائیل کے پاس یہ مصدقہ معلومات پہنچ گئیں تو اسرائیل بلا توقف ، پاکستان پر تابڑ توڑ بمباری کر ے گا،اور ان اثاثوں کو تباہ کر دے گا۔(ہمارا خیال ہے کہ افغانستان کی امریکی بیس بگرام کو اسی مقصد کے لیے لینے کی کوششیں کی جار ی ہیں)۔ اگرچہ ایسا کرنے میں وہ ملک بہت بڑا خطرہ بھی مول لے گا، کیونکہ پاکستان نے اگر کوئی دانے بچا لیئے تو وہ انہیں اسرائیل پہنچانے میں توقف نہیں کرے گا۔ اس لیے اس نیک کام میں ، بھارت کو شامل کیا جائے گا جو بھارت ہنسی خوشی قبول کر لے گا۔ لیکن ، وہی خطرہ بھارت کو بھی ہو گا کہ اگر پاکستان کے کنٹرول میں کچھ بم رہ گئے تو وہ بھارت پر پھینکے جائیں گے۔اس لیے راقم کا خیال ہے کہ پاکستان کے ایٹمی اثاثوں پر بم برسانے کے بجائے، پاکستان کے جنرل صاحب کو بڑی اچھی پیشکش دی جائے گی جو وہ رد نہیںکر سکیں گے اور سارے اثاثے خاموشی سے امریکہ کے حوالے کر دیں گے۔جنرل صاحب امریکہ میں ، اپنی دولت لے کر آباد ہو جائیں گے۔ پاکستان گیا جہنم میں۔ شاید یہ بھی ہماری خام خیالی ہے۔ جنرل صاحب جانتے ہیں کہ پاکستان اس وقت تک بھارت کے حملوں سے بچا ہوا ہے جب تک پاکستان ایٹمی قوت ہے۔ جب پاکستان کے پاس ایٹمی طاقت نہیں ہو گی، تو بھار ت ایک زور دار حملہ کرے گا اور پاکستان پر قبضہ کر لے گا۔ پھر اپنی پسند کی حکومت بنا کر واپس چلا جائے گا۔ پاکستان کی فوج اس حملہ میں تباہ کر دی جائے گی۔ پاکستان کے پاس اتنا گولہ بارود اور پیسہ نہیں کہ وہ بھارت سے لمبی لڑائی لڑ سکے۔
اہم سوال یہ ہے کہ اس سارے منظر میں، پاکستان افغانستان سے لڑائی کیوں مول لینا چاہتا ہے، تو اس کی وجہ بھی ہمارا تمہارا، بادشاہ ڈونلڈ ٹرمپ ہی ہے جسے حکم ملا ہے کہ فوراً بگرام کی ایر بیس پر قبضہ کرو۔پاکستان افغانستان پر حملہ کر کے بگرام پر قبضہ کرے گا اور جنگ بند ہو جائے گی۔ پھر جانے امریکہ اور ا س کا آقا، تسمانین ڈیول۔اسی لیے ہماری ناقص رائے میں، پاکستان کا افغانستان پر حملہ ! یہ آپ خود اندا زہ لگا لیں۔
یہ حملہ اور اسرزئیل کوتسلیم کرنا، دونوں پاکستان کی سا لمیت ختم کر سکتے ہیں۔پھر نہ کہنا ہمیں خبر نہ ہوئی۔ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ جنرل صاحب یہ معاملہ سمجھتے ہیں اور وہ سوچ سمجھ کرہی کوئی قدم اٹھائیں گے۔



