ہفتہ وار کالمز

شاہزیب خانزادہ، مکافات عمل کی اعلیٰ مثال!

اس ہفتے جیو ٹی وی کے اینکر پرسن اور پروگرام ’’آج شاہزیب خانزادہ کیساتھ‘‘ کے میزبان شاہزیب خانزادہ جب کینیڈا میں ایک کپڑوں کے سٹور میں اپنی بیوی کیساتھ شاپنگ کررہے تھے تو ایک پاکستانی نے ان سے سوال کیا کہ آپ نے عمران خان کے خلاف اوران کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے خلاف اپنے پروگرام میں کیونکر ذلالت کی، اپنے سوالوں کے درمیان وہ شخص ویڈیو بھی بناتا رہا جسے بعدازاں اس نے سوشل میڈیا کے اوپر بھی ڈال دیا جو چند ہی گھنٹوں میں وائرل ہو گئی۔ پاکستانی نژاد اس کینیڈین شہری شاہد بھٹی نے ایک اور ویڈیو بنا کر لوڈ کی جس میں کہا گیا تھا کہ کینیڈین قانون کے مطابق اس نے ایسی کوئی غیر قانونی حرکت نہیں کی جس پر وہ معذرت کرے، شاہد بھٹی نے اپنی پہلی ویڈیو میں جس واقعہ کا ذکر کیا تھا وہ پروگرام تھا جس میں شاہزیب خانزادہ نے عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے سابقہ شوہر خاور مانیکا سے خاتونِ اول کی عدت اور ماہواری کے حوالے سے ایسے ایسے سوالات اور ریمارکس دئیے تھے جس سے پورے پاکستان اور پاکستان سے باہر پاکستانیوں کے دل میں شاہزیب کے خلاف شدید نفرت پیدا ہو گئی ہے جسے وہ کبھی نہ بھلا سکے، ہمیں نہیں معلوم کہ شاہزیب کی ماں نے اور ایکسٹریس بیوی نے اس پروگرام کو دیکھنے کے بعد ان سے کوئی پوچھ گچھ بھی کی ہو گی کہ کل کو تمہاری ماں، تمہاری بہن، تمہاری بیوی اور تمہاری لڑکی کے متعلق کوئی ماہواری کے اور عدت کے سوالات کرے گا تو تمہیں کیسے لگے گا۔ ہمارے یہاں یہ ہوتا ہے کہ جب کسی کی گڈی چڑھی ہوتی ہے تو وہ یہ بھول جاتا ہے کہ اس کو اسٹوڈیو سے باہر بھی نکلنا ہو گا، چند سکوں کی خاطر جو ملک کے جرنیل ان کی طرف پھینکتے ہیں اور وہ ان کی چھنک میں طوائفوں کی طرح ناچتے ہیں، وہ جرنیل بھی کل کو ان کے ساتھ نہیں رہیں گے تو پھر وہ عوام الناس کا سامنا کس طرح سے کریں گے۔ جیو ٹی وی صبح سے شام تک اس واقعے کی مذمت میں لگا ہوا ہے اور نون لیگ والے اسے عمران خان کی ٹریننگ کا نتیجہ قرار دے رہے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اس گند کاآغاز جب نون لیگ اور پیپلز پارٹی والوں نے کیا تھا تو عمران خان اور تحریک انصاف کا تو وجود ہی نہیں تھا۔ موجودہ نون لیگ کے وفاقی وزیر خرم دستگیر خان کے والد دستگیر خان نے مادر ملت کے خلاف جو گھٹیا اور رذیل عمل کیا تھا وہ آج بھی آپ گوگل کر کے پڑھ سکتے ہیں۔ جنرل ایوب خان کے الیکشنز میں مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح ان کے مدمقابل تھیں جب۔ ان کا انتخابی نشان لالٹین تھا۔ اسی دستگیر خان نے گوجرانوالہ میں ایوب خان کے امیدوار کی حیثیت سے ایک جلوس نکالا جس میں ایک کتیا کے گلے میں لالٹین لٹکائی گئی تھی اور لکھا ہوا تھا فاطمہ جناح۔ نواز لیگ کے سربراہ نواز شریف نے الیکشن کے دوران اپنی انتخابی مہم کے دوران محترمہ بے نظیربھٹو کی ننگی تصاویر فوٹو شاپ کرکےپنجاب کے شہروں میں ہیلی کاپٹروں اور جہازوں کے ذریعے گروائی گئی تھیں۔ اس وقت تو عمران خان نے ایسا کچھ نہیں کیا تھا۔ ہمارے فوج کے لائے ہوئے وزیر دفاع خواجہ آصف نے محترمہ بے نظیر بھٹو کو پیلی ٹیکسی کا نام دیا تھا جس کا مطلب پنجاب میں دھندہ کرنے والی گشتی اور طوائف کالیا جاتا ہے۔ اس وزیر دفاع نے نصرت بھٹو کو رانڈ اور عمران خان کو عمرانڈو کا خطاب دیا تھا۔ ابھی کل ہی کی بات ہے کہ شہباز شریف نے ایک جلسے میں آصف علی زرداری کو کہا تھا کہ اس کے گلے میں رسہ ڈال کر لاڑکانہ اور لاہور کی سڑکوں میں گھسیٹوںگا۔ لاہور کے ایک جلسے میں بھٹو نے اندرا گاندھی کو براہِ راست نشریات کے دوران بہن کی گالی دی تھی۔ اسی جلسے میں بھٹو صاحب نے پاکستانیوں کو جو جلسہ گاہ میں موجود تھے سورکے بچوں کا خطاب دیا تھا تو معاف فرمائیے گا یہ گالیوں اور بدزبانی کا کلچرمسلم لیگ اور پیپلز پارٹی نے ملک میں متعارف کروایا تھا۔ شاہزیب خانزادہ کو اس کے کئے کی سزا ملی ہے۔ یہ سارے مذمت کرنیوالے اس وقت کہاں تھے جب ایک غیر سیاسی باپردہ خاتون کی عدت اور ماہواری کے حوالے سے گھنٹوں گھنٹوں بیٹھ کر باتیں کرتے تھے اس وقت انہیں یاد نہیں آیا کہ یہ لچر بازی اور بازاری جملے بازی قابل مذمت ہیں؟ گزشتہ دنوں جب عمران خان کی ہمشیرہ علیمہ خان کے اوپر انڈے پھینکے گئے تو اس وقت کسی کو مذمت کرنے کا خیال نہ آیا؟ حسینہ واجد کی سزائے موت اور بنگلہ دیش کے وزیر داخلہ اور فوجیوں کے خلاف سزائے موت کے فیصلوں نے اس بات کو ثابت کر دیا ہے کہ وقت کبھی ایک سا نہیں رہتا، یہ جو حکومت، عدالت اور میڈیا ہے اب اسے کوئی نہیں مانتا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button