ہفتہ وار کالمز

پاکستان میں ماسٹر لاء اور نیویارک عرب بہار !

ُپیشتر اس کے کہ ہم ممدانی کے بارے میں آپ کو کچھ بتائیں، پہلے پاکستان سے آنے والی ایک ہولناک اور افسوس ناک خبر بتا دیں۔ قارئین، بیرونی سازشیں اپنے اختتام پر پہنچ رہی ہیں۔اب جلد ہی پاکستان کی قومی اسمبلی ایک بل پاس کرے گی جو آئین کی26ویں ترمیم کرے گا، اس ترمیم کی جو خاص بات ہے وہ یہ کہ فیلڈ مار شل عاصم منیر اب تا حیات پاکستا ن کی تمام افواج کے سپہ سالار اعلیٰ بنیں گے اور ان کے اس عہدہ کو آئینی تحفظ حاصل ہو گا۔ اب ایکسٹنشن کا ٹنٹا ہی ختم ہو جائے گا۔اس کاروائی کا بڑا مقصد ان صاحب کو پاکستانی ایٹمی ہتھیاروں پر کل اختیار دینا ہے جو ہمارے دوست ملک امریکہ اور اسرائیل کی اولین اور سب سے بڑی خواہش ہے۔یہ اختیار وزیر اعظم کے پاس نہیں رہے گا۔ اس طرح عمران خان کو اگر رہا کر بھی دیا جائے گا، تو اسرائیل کو کوئی خطرہ نہیں ہو گا۔اب اگر آپ واقعات کی ترتیب نوٹ کریں: پہلگام میں سیاحوں کا قتل، اس کے بعد بھارت اور پاکستان کے درمیان چار روزہ جنگ اور ٹرمپ کا جنگ بندکروانا، پاکستان میں جنگ جیتنے کا پُر جوش پراپیگنڈا،اس کے بعد سید منیر کو فیلڈ مارشل بنوانا، یہ سب کڑیاں جڑتی نظر آئیں گی۔اور اب آئین کی 26ترمیم اور اس میں فیلڈ مارشل کو تا حیات ایکسٹنشن دینا اور ان کو قانون سے بالا کر نا، سب اسی کہانی کی کڑیاں ہیں۔ یہی وہ باتیں ہیں جن کی وجہ سے منیر صاحب ٹرمپ کے اتنے لاڈلے بنے ہوئے ہیں۔ قوم، حسب معمول سو رہی ہے اور ان کے ضمیر فروش نمائندے ان کی قسمت کا سودا کر رہے ہیں۔ مولانا ظفر علی خان کا شعر پھر یاد آ رہا ہے’’ اٹھو وگرنہ حشر ہو گا نہ پھر کبھی۔ دوڑو، زمانہ چال قیامت کی چل گیا‘‘ چلیے، یہ تو پاکستان کی بربادی کی ایک اور داستان تھی۔ ا ب کچھ اچھی باتیں بھی سنیئے۔پاکستانیو! گذشتہ شب ، امریکہ میں ایک انقلاب آ گیا جب نیو یارک کے شہریوں نے ایک نوجوان ، مسلمان کو اپنے شہر کا میئر منتخب کر لیا۔یہ 34سالہ خوبرو نو جوان ظہران ممدانی ہے، جو اس سے پہلے نیو یارک کی اسمبلی میں کوئینزکا نمائندہ رکن تھا۔اس نو جوان نے نیو یارک شہر کی تاریخ میں حیرت انگیز کارنامہ کیا۔حالیہ تاریخ میں پہلے کبھی اتنا کم عمر میئر منتخب نہیں کیا گیا تھا۔ اور تو اور یہ پہلا مسلمان اور ایشیائی تھا جس نے ایک لاکھ رضا کار کارکنوں کی فوج کے ساتھ گھر گھر پیغام پہنچایا کہ چلیں ملکر نیو یارک کو دولتمندوں کے شکنجے سے چھڑائیں اور عوامی طاقت کو بروئے کار لائیں۔ یہ دولتمند غریبوں کے نہ دکھ سمجھتے ہیں اور نہ ان کی کوئی مدد کرتے ہیںظہران نے امیدوار بننے کے لیے پہلے اپنی ڈیموکریٹ پارٹی میں الیکشن جیتا۔یہ بہت بڑی کامیابی تھی، اس لیے کہ نیویار ک بنیادی طور پر ڈیمو کریٹس کا شہر ہے۔ یہاں دوسری بڑی پارٹی ، ریپبلیکنز اقلیتی حیثیت رکھتے ہیں۔اس لیے جب سابق مئیر کومو کو پارٹی نے رَد کر دیا تو اس نے آزاد امید وار کے طور پر انتخاب لڑنے کا فیصلہ کر لیا کیونکہ تمام دولتمند طبقے اس کی حمایت کے لیے تیارتھے۔ لیکن خدا کا کرنا کیا ہوا؟ کہ ممدانی انتخاب جیت گیا اور دولت ہار گئی۔ یاد رہے، اس سے پہلے لندن نے بھی ایک مسلمان مئیر کا انتخاب کیا تھا۔ صادق خان ایک کامیاب مئیر ثابت ہوئے، اور مقبول بھی۔
سب سے اہم بات یہ کہ نیو یارک شہر میں یہودیوں اور ان کے میڈیا کا طوطی بولتا ہے۔ یہ ہی تمام سیاستدانوں کا انتخاب کرواتے ہیں۔ وہ بھی جب امید وار کہے کہ جیتنے کے بعد وہ پہلے کہاں جائے گا، اگر اس کا جواب ہو یروشلم، جہاں اسے اسرائیلی حکومت کا آشیر باد ملے گا، تو اس کو یہودی بڑوں کی حمایت ملتی ہے۔لیکن اس اللہ کے شیر نے کیا جواب دیا؟ میں انتخاب جیتنے کے بعد اپنے پانچ بوروز میں جائوں گا لوگوں سے ان کی مشکلات سننے کے لیے۔(بوروز شہر کے مختلف ضلع یا تحصیلیں ہیں)۔ جب انتخاب جیتنے کے بعد تقریر کی تو ہمیشہ کی طرح اقرا رکیا کہ میں ایک مسلمان ہوں۔ اپنے مذہب کو چھپانے کی کوشش کبھی نہیں کی۔
لوگ پوچھتے ہیں کہ ظہران ممدانی کون ہے؟ تو سنئیے۔ ان کے والد محمود ممدانی، ممبئی کے ایک تاریخ داں محقق ہیں اور کولمبیا یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں۔ ان کی شہرہ ٔآفاق کتاب Good Muslim, Bad Muslim ہے۔ والدہ مشہور فلمساز، میرا نائر ہیں، جنہوں نے شہرہ آفاق فلمیں، مون سون ویڈنگ‘ اور سلام بمبئی‘ جیسی ایوارڈونینگ فلمیں بنائیں تھیں۔ ’۔ممدانی کمپالا، یوگنڈا میں پیدا ہوئے اور7 سال کی عمر والدین کے ساتھ امریکہ نقل مکانی کر کے آ گئے۔والد کا تعلق گجرات کے کھوجہ، اثنا عشری فرقے سے ہے۔ امریکہ میں ظہران کے کوئی اثاثے نہیں ہیں۔حتیٰ کہ اپنی کار تک نہیں، نہ بنگلہ نہ لمبا چوڑا بینک بیلنس۔مجاہد ہو تو ایسا۔
ظہران کی شادی ایک شامی امریکن خاتون راما دوواجی سے ہوئی جو پیشہ کے لحاظ سے آرٹسٹ ہیں۔ ان کی ملاقات 2021 میں ہوئی اور فروری 2025 میں شادی ہو گئی ظہران کے والد اگرچہ بھارت میں پیدا ہوئے، لیکن ظہران کھلے عام بھارت کے نریندر مودی اور بی جے پی پر تنقید کر چکے ہیں۔کیونکہ انڈیا اب وہ مذہبی روا داری اور بھائی چارے والا ملک نہیں رہا جو ان کا خواب تھا۔
سوال کرنے والے پوچھتے ہیں کہ ظہران نے یہ کامیابی کیسے حاصل کی، تو اس کی کئی وجوہات بتائی جاتی ہیں۔ ایک طرف تو اس کے مخالفین کا دولتمندوں کی حمایت ہونا، جنہیں غریبوں اور عام محنت کشوں کے مسائل کو حل نہ کرنے میں دلچسپی،اور دوسری طرف اس کا حالات کی سنگینی کا ادراک۔ اس نے دیکھا کہ کس طرح مہنگائی عوام کی کمر توڑ رہی ہے۔چھوٹے بچوں والی عورتیں کام پر نہیں جا سکتیں کہ وہ بے بی سٹنگ کی رقم ادا نہیں کر سکتیں ۔ عام لوگوں کے پاس اپنی رہائش نہیں اور اپارٹمنٹس کے کرائے بہت بڑھ گئے ہیں اور ہر سال بڑھا دئیے جاتے ہیں۔ تھوڑی تنخواہ پر کام کرنے والوں کی خاصی رقم بسوں اور ٹرین کے ٹکٹ دینے میںخرچ ہو جاتی ہے۔ لوگ صحت مند ، خالص غذا نہیں خرید سکتے، جس سے ان کی صحت پر اثر پڑتا ہے۔
ظہران نے ان سب مسائل پر روشنی ڈالی اور ایسے منصوبے بنائے کہ لوگوں کو محسوس ہوا کہ ان کا مسیحا آ گیا ہے۔ اس کے پروگرام ایسے ہیںجیساکہ عوام کے دلوں کی تمنا ہو۔ یہی اس کی مقبولیت کا راز ہے۔ظہران نے نہ صرف اپنے مسلم ہونے کا بار بار اعلان کیا، اس نے غزہ کے مسلمانوں کی نسل کشی کے خلاف بھی آواز اٹھائی۔ نیو یارک میں یہ دونوں اعتراف سیاسی خود کشی کے مترادف سمجھے جاتے تھے۔لیکن ظہران کے پیچھے جو عوام تھے وہ غزہ میں اسرائیلی مظالم کو سخت نا پسند کرتے تھے۔ اور یہ بھی ان کی حمایت لینے کا ایک وسیلہ بن گیا۔ایک عرصہ سے شہر کی قیادت میں کرپشن کے سائے گہرے ہوتے جارہے تھے، جو بڑے پیمانے پر تھے۔لوگوں کو ظہران میں ایک نجات دہندہ نظر آیا جو ان کے دکھوں کا مداو کرنا چاہتا تھا۔
ظہران کے پسندیدہ منصوبوں میں سے ایک ہے شہر کے اپنے گروسری سٹور ہوں جن میں لوگوں کو مناسب نرخوں پر ضروری اشیاء مل سکیں۔ یہ خیال اچھوتا نہیں مگر ضروری اشیاء کی مہنگائی کی وجہ سے تقویت پکڑ رہا ہے۔، اور ممدانی کی تحریک میں نمایاں حیثیت لے رہا ہے۔اس منصوبہ کا لب لباب یہ ہے کہ اس کی شروعات میں ہر بورو میں ایک تجرباتی گروسری سٹور کھولا جائے، ایسے علاقوں میں جہاں گروسری سٹورز کی کمی ہے۔یہ سٹور ابتدا میں ضروری اشیاء تھوک کے بھاوء بیچیں گے۔خاص طور پر صحت مندانہ غذائیں۔ایک اندازے کے مطابق ۱۵ لاکھ شہریوں کو مناسب غذا نہیں مل رہی۔جو لوگ اس بزنس کو جانتے ہیں، وہ اس بات کا تو اقرار کرتے ہیں کہ ارادہ اچھا ہے، لیکن اس کی عمل پیرائی میں خاصے کھڈے ہیں۔ لیکن جب تجربہ ہی ٹہرا تو کر کے دیکھنا چاہیئے۔
ممدانی کے دوسرے مقبول منصوبوں میں، مفت ،تین سال اور اس سے چھوٹے بچوں کی دیکھ بھال اور بسوں کا سفر، کرائے بڑھانے پر پابندی، شامل ہیں۔نیو یارک کے کمپٹرولر آفس کے مطابق بچوں کی دیکھ بھال بہت مہنگی ہوتی ہے۔ایک تخمینہ کے مطابق اسی فیصد فیمیلیز تو اتنا خرچہ برداشت نہیں کر سکتیں۔ممدانی کے ہمراہیوں کا کہنا ہے کہ اگرچہ اس منصوبہ پر چھ بلین ڈالر لگیں گے، لیکن اس سے 14,000مائیں کام پر جا سکیں گی جس سے9 سو ملین ڈالر کی آمدن بڑھے گی۔فری بس سروس ، روزآنہ دس لاکھ مسافروں کے لیے دوسرا اہم منصوبہ ہے۔بے گھروں کے لیے، وہ آئندہ دس سال میں دو لاکھ گھر وںکی تعمیر کروائیں گے جن کا کرایہ نہیں بڑھایا جائے گا، اور تعمیر کے ا خراجات میں حکومت حصہ ڈالے گی۔ایسے لوگوں کو گھر ملیں گے جن کی سالانہ آمدنی ستر ہزار سے کم ہوگی۔
سن (2023-24 ( میںنیو یارک شہر کی آبادی تقریباً ساڑھے آٹھ ملین تھی۔جو آسٹریا کی آبادی سے ذرا کم تھی۔نیو یارک کا ایک سال کا بجٹ 120 بلین ڈالر تھا،یعنی پاکستان اور بنگلہ دیش کے بجٹ کے مجموعے سے ذرا کم۔ پاکستان کا کُل بجٹ 68 بلین ڈالر سے بھی کم تھا۔اب غور فرمائیے کہ نیو یارک کے میئر کی امریکہ کے سب سے زیاد ہ آبادی والے شہر کی انتظامیہ چلانے کی کتنی بڑی ذمہ واری ہے۔
اب تک نیو یارک کے میئر یا موروثی تھے جیسے کومو، جن کا باپ ان سے پہلے میئر تھا۔ یا ارب پتی جیسے بلوم برگ۔ عموماً اسی قسم کے لوگ اس شہر کو چلاتے آئے ہیں۔ اس شہر کے منصوبوں پر اربوں ڈالر لگتے ہیں، ان کے ٹھیکے شہر کے میئر کے اختیار میں ہوتے ہیں۔نیو یار ک کی معیشت کئی ملکوں کی معیشت سے کم نہیں۔اس کے کئی ادارے ایک چھوٹے ملک کے کل بجٹ سے زیادہ خرچ کرتے ہیں۔
اندازہ لگائیے کہ نیو یارک سب سے زیادہ خرچ تعلیم پر کرتا ہے، جیسے گذشتہ سال میں اس کا بجٹ37.4 بلین ڈالر تھا۔اس لیے کہ شہر میں ہائی سکول تک تعلیم مفت ہے۔چھوٹے بچوں کے لیے بسیں ہیں جو ان کو گھر سے سکول تک لاتی لے جاتی ہیں اور سب بچوں کو سکول میں مفت کھانا ملتا ہے۔اس کے بعد دوسرا شعبہ جس پر زیادہ خرچ ہو تا ہے، وہ حفظ عامہ اور عدالتی نظام ہے، اسمیں شامل ہیں محکمہ پولیس، فائر ڈپارٹمنٹ، اور صفائی کا محکمہ وغیرہ۔اس کا بجٹ ساڑھے بائیس بلین تھا۔ اورتقریباً اتنا بجٹ سوشل سروسز کے لیے دیا گیا تھا۔ نیو یارک روزآنہ لاکھوں لوگوں کو بسوں اور ٹرینوں سے کام پر آنے جانے کی سہولت دیتا ہے۔ اس کا سالانہ خرچ تقریباً پانچ بلین ڈالر تھا۔ اس سفری سہولت سے روازآنہ لاکھوں کام کرنے والے اپنے دفتر میں وقت پر پہنچ جاتے ہیں، اور ان کو ذاتی سواری کا بند و بست نہیں کرنا پڑتا۔ اگرچہ کم آمدن والے مسافروں کویہ کرایہ کھلتا ہے۔ٹرینیں بجلی سے چلتی ہیں، مگران کی مرمت ، دیکھ بھال اور عملہ کے اخراجات کے لیے صرف کرایہ کی آمدنی کافی نہیں ہوتی۔ شہر کی حکومت کو بھی کافی امداد دینی پڑتی ہے ۔
ایک نمایاں خرچ عملہ کی بڑھتی عمر کے ساتھ ان کی تنخواہوں میں اضافہ، اور جو لوگ پینشن پر چلے جاتے ہیں، وہ خرچ بھی ہر سال بڑھ جاتا ہے، اسی لیے ادارہ سال میں ایک دو دفعہ کرائے بڑھاتا رہتا ہے ۔ اس کے علاوہ سٹیشنوں کی ٹوٹ پھوٹ، مرمت، نئے ڈبے اور پرانوں میں تبدیلی لانے کا عمل بھی خاصی رقم چاہتا ہے۔ اس لحاظ سے بسیں کم خرچ ہوتی ہیں اگرچہ وہ زیادہ تیز نہیں چل سکتیں اور ان کا مقابلہ سڑک پر چلنے والے بے شمار دوسری گاڑیوں کے ساتھ رہتا ہے۔بسوں کا کرایہ وصول کرنا ایک درد سر ہے۔ کئی طریقے استعمال کیے گئے ہیں، سب میں کوئی نہ کوئی سقم ہے۔اس لیے اگر بس کے سفر کو بے کرایہ بنا دیا جائے تو بہت بہتر ہو گا۔ امریکہ کے کئی شہروں میں اور یورپ کے کچھ شہروں میں پبلک بسسز میں کرایہ نہیں دینا پڑتا۔لیکن نیو یارک جتنے بڑے شہر میں مفت بس سروس ایک بے مثال اقدام ہو گا، جس سے شہریوں کو اس مہنگائی کے زمانے میں خاصا ریلیف ملے گا۔
یہ ایک عجیب اتفاق ہے کہ پاکستان کے صوبہ سرحدمیں ایک نئے وزیر اعظم کا انتخاب ہوا، جو اسی عمر کے ہی نہیں حلیہ میں بھی ظہران ممدانی سے ملتے ہیں،وہ ہیں سہیل آفریدی۔ یہ بھی اپنی نسل کی بہترین نمائیندگی کرتے ہیں۔ یہ محض اتفاق ہے یا قدرت کی طرف سے پیغام کہ پرانی نسل کے قائدین کو تیاگ دو اور نئی نسل کو موقع دو۔ظہران کی سیاسی حکمت عملی اشتراکی ہے جو کہ ڈیموکریٹ پارٹی کے ایک بازو سے میل کھاتی ہے۔شروع میں، صدر ٹرمپ نے ان کے خلاف کچھ بیانات دئیے تھے لیکن ان کی بے مثال کامیابی کے بعد اپنے رویہ میںلچک پیدا کی ہے جو خوش آئند ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Check Also
Close
Back to top button