0

پاکستان میں غربت کیوں ختم نہیں ہوتی؟

گذشتہ روز، سوشل میڈیا پر ایک نوجوان کا انٹرویو دیکھا جسے چند دن پہلے قید سے ضمانت پر رہائی ملی تھی۔ اس پر الزام تھا کہ اس نے لبرٹی چوک پر9 مئی کےتحریک انصاف کے جلسہ میں شرکت کی تھی۔محض اس الزام پر اس کو قید کیا گیا، اس پر تشدد ہوا اور وہ بے چارہ سوائے یہ سب کچھ سہنے کے اور کچھ نہیں کر سکتا تھا۔پولیس والے اسے کہتے تھے ’ہم مجبور ہیں۔ ہمیں اوپر سے حکم ملا ہے۔ تم ہم سے تعاون کرو تو ٹھیک رہو گے۔‘ لیکن اس جوان نے جو اپنے ساتھی تحریک کے جلسہ میں شریک دوسرے نو جوانوں پر جو گذری اس کا حال بتایا تو میرے تو آنسو آ گئے۔ان پر جو تشدد کیا گیا اور ان سے جھوٹے بیانات دلوا کر ان پر دستخط کروائے گئے، کہ انہوں نے فوجی تنصیبات پر لو ٹ مار کی اور آتشزدگی کی، اس کا حلفیہ بیان لیا گیا۔یہ غالباً ان ہزاروں پی ٹی آئی کے نوجوانوں کی کہانی تھی جنہیں پنجاب پولیس نے گرفتار کیا اور محسن نقوی اور اس کے شریک کار سیاستدانوں، پولیس کے افسروں کے حکم پر جیلوں میں ٹھونس دیا گیا۔ اور وہاں جس حال میں رکھا وہ نا قابل برداشت گرمی، بھوک اور پیاس کے ساتھ مار پیٹ اور شدید تشدد سے بھر پور تھا۔ اس جوان کی گفتگو اس سے ہمارے معاشرے کی دکھتی رگ کی ایک جھلک دیکھنے کو ملی وہ نہایت اندوہناک تھی۔ اس نوجوان نے اپنے ساتھی قیدیوں کی داستانیں سنائیں، جن سے پتہ چلتا تھا کہ کس طرح ان کی قید سے ان کے خاندانوں پر مشکلوں کے پہاڑٹوٹ پڑے۔ان کو اپنے پیاروں کی وفات پر جنازے پر شرکت سے روکا گیا۔جو اپنے خاندان کی کفالت کے ذمے وار تھے ان کے خاندان بھیک مانگنے پر مجبور ہو گئے تھے۔جب کبھی ان نوجوانوں کی داستانیں عوام تک پہنچیں گی تو عوام میں پولیس اور فوج کے متعلق کیسے جذبات ابھریں گے اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔اس انٹرویو سے راقم کوقارئین کے سامنے پاکستان میںغربت کی تصویر رکھنے کا خیال آیا ۔
جنوری 2022میں پاکستان کی تقریباً ایک چوتھائی آباد ی غربت کی لکیر کے نیچے تھی۔ اس کا مطلب ہے کہ ہر چوتھا فرد اور کل آبادی میں سے آٹھ کروڑ سے زیادہ۔اقوام متحدہ کا تجزیہ بتاتا ہے کہ غربت کثیر الجہت تھی۔ یعنی ایک طرف اشرافیہ کی ایک چھوٹی سی تعداد ملک کے اثاثوں کے بڑے حصہ پر قابض تھی۔اس تقسیم کی وجہ سے ملک میں سماجی اور معاشرتی وسائل میں غریبوں کا حصہ نہ ہونے کے برابر تھا۔ غرباء کی پہنچ تعلیم، صحت کے وسائل، صاف پانی، اور سینیٹری سہولتوں تک کم تھی یا بالکل نہیں تھی۔مثلاً تعلیم میں کمی کا اندازہ ایسے لگایا جا سکتا تھا کہ سکولوں سے بچوں ایک بڑی تعدادباہر تھی جنہیں سکول میں ہونا چاہیے تھا۔ یہ تفاوت شہری اور دیہاتی علاقوں میں اور بھی واضح تھا ۔ ایک اور سطح پر ، دیکھنے سے پتہ چلتا ہے کہ غریبوں میں بیروزگاری اور کم روزگاری کا مسئلہ بھی بہت تھا۔اس بارے میں شماریات آسانی سے دیکھے جا سکتے ہیں۔ پاکستان کی معیشت آسانی سے مشکلات کا شکار ہو جاتی ہے۔جیسے قدرتی آفات، معاشی بحران، اور اچانک سیاسی تبدیلیاں،وغیرہ۔ ان حادثاتی تبدیلیوں کا اثر سب سے پہلے غریبوں پر ہوتا ہے۔اور غربت میں اورزیادہ لوگ متاثر ہو جاتے ہیں۔اور جو پہلے ہی سے غربت کی لکیر کے نیچے ہیں وہ اس سے نکل نہیں پاتے۔حکومتیں جو غربت کو کم کرنے کی معاشی سکیمیں چلاتی ہیں، وہ بھی، بد انتظامی اور کرپشن کی وجہ سے زیادہ تر صحیح لوگوں تک نہیں پہنچتیں۔ غربت کے مختلف پہلوؤں پر لا تعداد معلومات تحقیقی تصانیف سے مل جاتی ہیں جو قومی، بین الاقوامی اداروں نے کی ہیں۔ مختصراً، اس امر کی شہادتوں میں کوئی کمی نہیں کہ غربت کا صحیح مقابلہ کرنا ہے تو اس کے لیئےجامع اور اہداف کے ساتھ منصوبوں پر عمل درآمد کرنا ہو گا۔
ان 75سالوں میں غربت کو کم کرنے کی کوششیں بار آور نہیں ہوئیں۔غربت کم نہ ہونے کی بہت سی وجوہات ہیں۔مثلاً:
۔ آبادی بڑھنے کی رفتار جو باوجود حکومتی نعروں کے بہت سست رفتاری سے کم ہو رہی ہے۔آبادی بڑھنے سے حکومت اسی تناسب سے ملازمتیں نہیں دے سکتی جن سے عوام غربت کے جال سے نکل سکیں۔
۔ آمدنی میں آبادی میں اتنا تفاوت ہے کہ غریب غریب تر ہو رہے ہیں اور امیر امیر تر۔یہ تضاد غربت کو بڑھاتا ہے ۔
۔ تعلیم جو آمدن بڑھانے کا ایک آزمودہ راستہ ہے اس تک غریبوںکی پہنچ کم ہے۔اعلیٰ کوالٹی کی تعلیم کا فقدان ہے۔خصوصاً دیہی علاقوں میں۔اچھی تعلیم کے مواقع کی کمی کی وجہ سے غریب آبادیوں میں ہنر مندی کی تربیت اور ملازمتوں کے امکانات کم ہوتے ہیں۔
۔ بے روزگاری اور نیم بیروزگاری کی اونچی سطح فیملی کی آمدن کو بڑھنے نہیں دیتی۔اورغیررسمی شعبہ میں جس میں بہت سے لوگ کام کرتے ہیں، اس میں نہ نوکری کا کوئی تحفظ ہوتا ہے، نہ مناسب اُجرت ملتی ہے، اور نہ ہی معاشی تحفظ۔اس وجہ سے غربت اور بھی بڑھتی ہے۔
۔ زراعتی شعبہ پاکستان کی ایک کثیر آبادی کی ضروریات پوری کرتاہے، خصوصاًدیہی علاقوں میں۔اس کے ساتھ اس میں مشکلات بھی بہت ہیں۔ جیسے پانی کی کمی، زراعت کے پرانے طریقے، زمینوں کے ٹکڑے اور حصہ بندیاں، قرض کے حصول میں مشکلات جن سے پیداوار میںکمی اور دیہی آبادی میں غربت کا اضافہ۔
۔ معاشرے میں معاشی تحفظ کے انتظامات کی کمی، جس میں انتہائی مفلسی سے بچائو کا حفاظتی جال اور سماجی بیمہ نہ ہونا شامل ہیں۔اور جو ہیں وہ بھی نا کافی اور غیر موثر ہیں۔ ان وجوحات سے بہت سے غریب،جب انہیں ضرورت ہوتی ہے، مناسب تحفظ حاصل نہیں کر پاتے، جس سے اقتصادی تنگدستی، غربت میں اضافہ، اور غیر مساوی سلوک بڑھتا ہے۔
۔ ملک میں سیاسی استحکام کی کمی، بد عنوانی، اور اداروں میں غیر موثر انتظامیہ، اقتصادی ترقی اور غربت میں کمی لانے کی کاوشوں میںکمی کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔اس کے علاوہ سیاسی عزم کا فقدان ، اور اس کے ساتھ شفافیت اور احتساب کا نہ ہونا،غربت کے خاتمہ کے منصوبوں کو غیر موثر بناتا ہے۔
۔ پاکستان قدرتی آفات جیسے سیلاب، زلزلے، اور خشک سالی سے دو چار رہتا ہے،جن کا روزی کمانے پر شدید تباہ کن اثرات ہوتے ہیں ۔اس میں موسمی تبدیلیاں جلتی پر تیل چھڑکتی ہیں۔مثلاًفصلوں کا نقصان، مال مویشییوں اور گھروں کا تلف ہونا، عوام کو اور بھی غربت کے گڑھے میں دھکیلتا ہے۔پاکستان سے اگر غربت کو کم کرنا ہے تواس کے لیے جامع اور مختلف اداروں کے تعاون سے مختلف شعبوں کی مدد سے،کوششوں کی ضرورت ہو گی۔ان میں تعلیم اور صحت کے شعبوں میں سرمایہ کاری، سب کی شمولیت سے اقتصادی ترقی، سماجی تحفظ کے طریقوں کو مستحکم کرنا، حکمرانی کو مستحکم کرنا، احتساب کو موثر بنانا، اور موسمی تبدیلیوں اور قدرتی آفات سے نپٹنے کی اہلیت کو پایئداربنانا شامل ہیں۔
مندرجہ بالا اقتسابات ، مصنوعی ذہانت سے حاصل کردہ تحقیق کا نچوڑ ہیں۔ ان تمام وجوحات کو اگر غور سے دیکھا جائے تو پس پردہ جو عوامل غربت کے خاتمہ میں سب سے بڑا کردار ادا کررہے ہیں وہ اس راقم کی نظر میںتعلیم ، مذہبی ماحول، بد عنوانیت، اور اخلاقیات کی کمی سے ہیں۔پاکستان کا تعلیمی نظام ہمیشہ سے ایک ترقی پذیر ریاست کے فطری تقاضوں سے لا تعلق رہا ہے۔ اول تو تعلیمی نظام میں بنیادی کمزوریاں ہیں جیسے کہ طالب علموں کو کوئی ہنر نہیں سکھایا جاتا جو انکو تعلیم مکمل کرنے کے بعدملازمت حاصل کرنے میں یا اپنا کاروبار کرنے میں مدد دے۔جو کچھ پڑھایا جاتا ہے وہ بھی ایسے کہ طالب علم صرف امتحان پاس کرنے پر اپنا زور لگادیتے ہیں ۔ اور سرٹیفیکیٹ حاصل کرنا ہی پڑھائی کا مقصد اعلیٰ سمجھتے ہیں۔یہ تو وہ خوش قسمت ہیں جو سکول جا سکتے ہیں۔ زیادہ آبادی نوجوانوں کی ہے جو یا تو سکول گئے ہی نہیں، یا اگر گئے بھی تو تین سال کے بعد سکول چھوڑ گئے۔ان پر کسی کی توجہ نہیں۔صاحبان اقتدار کہتے ہیں ان کے پاس اتنے وسائل ہی نہیں کہ وہ اس آبادی کے لیے کچھ کریں۔
بد عنوانیت جسے کرپشن بھی کہتے ہیں، پاکستان کے ہر شعبے کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے۔یہ اس قدر معاشرے میں رس بس چکی ہے کہ لوگوں کو یہ زندگی کا لازمی جزو نظر آتی ہے۔ان کو یہ سمجھانا مشکل ہے کہ رشوت لینے اور دینے سے کس طرح انسانی حقوق پامال ہوتے ہیں۔جب کار پردازان حکومت رشوت لینا شروع کر دیتے ہیں، تو وہ نہ صرف اپنے فرائض سے چشم پوشی کرتے ہیں بلکہ جرم بھی کرتے ہیں۔کرپشن کی اتنی قسمیں ہیں کہ انسان سوچ بھی نہیں سکتا۔جب ایک سرکاری عہدہ دار اپنے رتبہ کا فائدہ اٹھا کر رقمیں وصول کرتا ہے اس وقت وہ کسی اور کا حق مار رہا ہوتا ہے، یا وطن عزیز کے وسائل پر ڈاکہ۔جن کے پاس رشوت دینے کی استطاعت نہیں وہ اپنا جائز کام بھی نہیں کروا سکتے اور اسطرح انصاف نہیں ملتا۔جب یہی کاروائی اونچی سطح پر ہوتی ہے تو کروڑوں اربوں روپے کی رشوت لی اور دی جاتی ہے جس سے ملک کا نقصان ہوتا ہے۔جب ملک کے رکھوالے یہ کام کرتے ہیں تو وہ در اصل نہ صرف ملک کو نا قابل تلافی نقصان پہنچاتے ہیں بلکہ وہ عوام کو بھی ان سہولتوں اور فوائد سے محروم کرتے ہیں جو ان کے رشوت نہ لینے سے پہنچتے۔ اسی طرح جب سرکاری افسر سرکاری وسائل کا نا جائز فائدہ اٹھاتے ہیں، وہ عوام کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے کے مترادف ہے، چونکہ عوام نے ان کو ملکی خزانے سے عوام کی بھلائی کے کام کرنے کے لیے ملازمت دی ہوتی ہے۔اور وہ اس خزانہ کو اپنی ذاتی ضروریات کے لیے استعمال کرتے ہیں جو چوری کے مترادف ہے۔اس کی ایک عام چھوٹی سی مثال ہے۔ سرکاری افسر کو سرکاری کام کرنے کے لیے کار ملی ہے اور وہ کار اور ڈرائیوراس افسر کے بچوںکو سکول لاتا لے جاتا ہے اور بیگم صاحبہ کو شاپنگ کروانے لے جاتا ہے۔یہ سب نا جائز استعمال ہیںاورجرم ہیں لیکن چونکہ ہر افسر یہی کر رہا ہوتا ہے ، اس لیے کون کس کو پکڑے گا؟
رشوت جسے پیار سے اوپر کی آمدنی کہتے ہیں ، اپنی مختلف شکلوں میں، ملک کے ہر شعبہ میں پھیل چکی ہے۔اس سے نہ انتظامیہ بچی ہے، نہ عدلیہ اور نہ ہی افواج پاکستان۔ سب ہی حتی الامکان بڑھ چڑھ کر اس سے مستفید ہو رہے ہیں۔ یہ لوگ جنہیں عوام کے ٹیکسوں سے تنخواہیں اور مراعات ملتی ہیں، اوپر کی آمدنی سے اندرون ملک اور بیرون ملک نہ صرف جائیدادیں بناتے ہیں بلکہ بینک بیلنس بھی۔زرداری صاحب جو ماشا اللہ اب دوبارہ صدر پاکستان بن گئے ہیں، اربوں روپے کے بینک بیلنس بناتے ہیں اور کچھ تو اپنے گھریلو ملازموں کے نام بھی رکھواتے ہیں تا کہ پوچھ گچھ میں پکڑ نہ ہو۔ ویسے بھی پاکستان میں کونسا ایسا کام نہیں کیا جا سکتا جس کی پکڑ پر لے دے کر معاملہ رفع دفع نہ کیا جا سکے؟ پاکستان میں غربت اور اس کے ختم نہ ہونے میںکرپشن کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں