ہفتہ وار کالمز

آئینی ترامیم

پاکستان کو قیام کے فوراً بعد آئین نہیں ملا،اربابِ اختیار نے تو چپ سادھ لی،تجزیہ کار کہتے ہیں کہ آئین اس لئے نہ بن سکا کیونکہ مسلم لیگ کے لیڈروں کی وہ لاٹ جو ہندوستان سے پاکستان آئی ان کا کوئی حلقۂ انتخاب نہ تھا اگر آئین بنتا اور انتخابات ہوتے تو ساری کی ساری لاٹ فارغ ہو جاتی،پھر ان کو پوچھنے والا بھی نہ ہوتا،لیاقت علی خان کا بھی کوئی حلقۂ انتخاب نہ تھا،ان کو متروکہ جائیداد کی وجہ سے کراچی میں لالو کھیت کی اراضی الاٹ کی گئی تھی مگر اس زمیں پر جو لوگ آباد ہو گئے تھے ان پر بھی لیاقت علی خان کا اثر و رسوخ نہ تھا لہٰذا لیت و لعل سے کام لیا جاتا رہا حتی کہ لیاقت علی خان کا قتل ہو گیا،دیگر ہائی پروفائل کیسز کی طرح اس قتل کا بھی سراغ نہ مل سکا،لوگ باگ تو یہ بھی کہتے ہیں کی حلقۂ انتخاب تو قائد اعظم کا بھی نہ تھاآ ئین بن جاتا اور الیکشن ہوتے تو وہ بھی الیکشن نہ لڑ سکتے لڑتے تو ہار جاتے مگر قائد کے حق میں یہ دلیل بھی دی جاتی ہے کہ کراچی کے کچھی،میمن، کاٹھیاواڑی برادری قائد کو ووٹ دے کر کامیاب کرا دیتی 1956تک پاکستان سر زمینِ بے آئین رہا چوہدری محمد علی کے دورِ وزارت میں دستورساز اسمبلی نے آئین کی منظوری دی اور 23rd of March,1956کو آئین فوری طور پر نافذ العمل ہو گیا،اس آئین کے تحت اسمبلی کی کل نشستیں 80 تھیں چالیس مشرقی پاکستان سے اور چالیس مغربی پاکستان سے ہر چند کہ اس وقت بھی مشرقی پاکستان کی آبادی مغربی پاکستان سے زیادہ تھی،یعنی شروع ہی سے ذہنوں میں فتور تھا جس دن آئین نافذ ہوا اس دن کو یومِ جمہوریہ کہا گیا اور پاکستان کا نام Republic of Pakistan تھا ہر چند کہ 1956 کے آئین میں دینی جماعتوں کا خاصا Contribution تھامگر پھر بھی اس آئین کو اسلامی آئین نہیں کہا گیا،اس آئین کی عمر بہت کم تھی،اندرونی سازشوں کی وجہ سے جس میں بیوروکریسی کا زیادہ دخل تھا فوج نے سول حکومت کا تختہ الٹ دیا اسکندر مرزا کا اقتدار بھی چند روزہ تھاپھر جنرل ایوب نے اسکندر مرزا کو ملک بدر کرکے ملک کی باگ ڈور سنبھال لی اور مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بن گئے 1958/1962ملک آئین کے بغیر ہی چلا اللہ اللہ کرکے 1962 میں پاکستان کو ایک نیا آئین ملا جو دس سال تک چلتا رہا،1956 اور 1962 کے آئینوں میں شائد کوئی ترمیم تجویز نہیں کی گئی اس نہج کو برقرار رکھنے میں جسٹس منیر،شریف الدین پیرزادہ اور ایس ایم ظفر نے بہت زبردست کردار ادا کیا،ایوب کے دس سالہ جشن تک اپوزیشن مضبوط ہو چکی تھی اور متحدہ محاذ نے اپنے جلسوں میں شروع سے ہی یہ اعلان کرنا شروع کر دیا تھا کہ ان کو 1962 کے آئین پر شدید تحفظات ہیںاور لگ رہا تھا کہ اگر ایوب کو جانا پڑا تو یہ آئین بھی ان کے ساتھ ہی جائے گامگر طرفہ تماشا یہ ہوا کہ جس نے آئین بنایا تھا اس نے ہی آئین توڑ کر حکومت جنرل یحییٰ کے سپرد کردی اور اپنے آبائی گاؤں ریحانہ چلے گئے ایک دو سالہ افراتفری کے بعد بھٹو نے عنانِ حکومت سنبھالی،سوشلزم کا نعرہ دیا اور قوم کے ہاتھ میں ایک رجعت پسندانہ آئین دے دیا ایک ایسا آئین جو اپنے شہریوں کے ایمان کی correction کرتا ہے یہ بہت حیران کن تھا ۔پتہ ہی نہیں چلا کہ آئین وزیرِ قانون عبد الحفیظ پیرزادہ بنا رہے ہیں یا آئین پروفیسر غفور، مفتی محمود اور نورانی بنا رہے ہیں ،حیرت اس بات پر ہوئی کہ ملک کا Progressive طبقہ بھی خاموش رہا،ان عقل کے اندھوں کو اتنا یقین تھا کہ بھٹو جو کچھ دے گا اچھا ہی دے گاجب آئین بنائے جاتے ہیں تو دنیا کے کامیاب آئین پڑھ لئے جاتے ہیں ان کو سامنے رکھ کر آئین سازی کی جاتی ہے جس کا مقصدعو ام کو تعلیم، صحت، شہری تحفط دینا، شہری حکومت کی سہولت فراہم کرنا اور ملک کو ترقی کی راہ پر ڈالنا ،دنیا میں امریکہ،فرانس، سوئیٹزرلینڈ اور کینیڈا کے آئینوں کو بہترین مانا جاتا ہے،جن میں امریکہ کا آئین سرِ فہرست ہے،یہ آئین 1787میںJames Madison,Alexander Hamilton, and John Ray نے تحریر کیا۔یہ غلط ہے کہ Thomas Jafferson نے آئین لکھا جب امریکہ کا آئین لکھا جارہا تھا اس وقت Thomas Jefferson فرانس میں امریکہ کا سفیر تھا مگر یہ سچ ہے کہ آئین میں اس کی تجاویز کا گہرا اثر تھا مگر James Madisonکو ہی آئین کا معمار کہا جاتا ہے اس آئین کو 1789 میں درست کیا گیا، ان میں کل 26ترامیم کی گئیں جس میں سے دس ترامیم وہ تھیں جن کو Bill of Rights کہا جاتا ہے ان کا تعلق شہری آزادیوں،اور شہریوں کے حقوق سے ہیں سولہ دیگر ترامیم مختلف معاملات سے ہے جن کی تفضیل کا موقع نہیں ہے پاکستان کا آئین شروع دن سے ہی انسانی حقوق کے حوالے سے متنازعہ رہا، آئین کی منظوری کے بعد ہی بھٹو نے کئی ترامیم پاس کرالیں،اس کے بعد جنرل ضیا اور جنرل مشرف نے آئین میں اپنی مرضی کی ترامیم کر لیں جنرل ضیاء چونکہ ایک غاصب تھا لہٰذا اس کو یہ خوف رہتا تھا کہ اگر اس نے اپنے اقدامات کو تحفظ نہ دیا تو اس کو سنگین نتائج کا سامناکرنا پڑ سکتا ہے،یہی خوف جنرل مشرف کو بھی رہا جنرل مشرف ایم ایم اے سے اپنے کچھ اقدامات کا تحفظ نہ کرا سکا جس کی وجہ سے وہ زیر عتاب آیا اور اس پر آرٹیکل چھ کا مقدمہ چلا اور جسٹس سیٹھ نے اس کو غداری کی سزا سنائی اگر جنرل راحیل شریف ملک سے نکلنے میں جنرل مشرف کی مدد نہ کرتے تو جنرل مشرف کو تختہ ء دار تک جانا ہی پڑتا،میڈیا نے کبھی جنرل مشرف کو اس کے غیر آئینی اقدامات پر،آئین توڑنے، حکومت پر قبضہ کرنے ،اور دیگر غیر آئینی اقدامات پر کبھی سرزنش نہیں کی،تا دمِ آخر میڈیا ان کی خبریں نشر کرتا رہا، ان کے انٹر ویو کرتا رہا اور ان کی نازبرداری کرتا رہا،میرا خیال ہے کہ اگر جنرل مشرف کو واپس آنے کا موقع مل جاتا تو میڈیا ان کے آگے پیچھے ہوتا،کراچی پر مشرف نے کوئی احسان نہیں کیا،جو کچھ کیا وہ کراچی کا حق تھا بلکہ میں تو یہاں تک کہوں گا کہ جنرل مشرف کو یہ موقع ملا تھا کہ کراچی کو دس کے اندر جدید شہر بنا دیںمگر انہوں نے ایسا نہیں کیا مگر ایم کیو ایم ہمیشہ جنرل مشرف کی احسان مند رہی اور جب جنرل مشرف کا دبئی میں انتقال ہوا اور ان کے جسدِ خاکی کو پاکستان میں لانے میں مشکلات تھیں اسوقت ایم کیو ایم نے مشرف کے جسدِ خاکی کو اعزاز کے ساتھ دفنایاایک آئینی تحفظ نہ ملنے کی وجہ سے مشرف کو ذلت کا سامنا کرنا پڑا، زرداری صدر بنے تو انہوں نے نہایت کمالِ ہنر سے اٹھارویں ترمیم پاس کرا لیاور فوج ہکا بکا رہ گئی اٹھارویں ترمیم میں زرداری نے وفاق سے سارے اختیارات صوبوں کو منتقل کر دیئے اور وفاق کا کاسہ خالی رہ گیا ہم نے اس وقت لکھا تھا کہ اٹھارویں ترمیم کے بعد پاکستان میں چار پاکستان بن گئے ہیں،اٹھارویں ترمیم نے وفاق کو بہت نقصان پہنچایا،پی پی پی اٹھارویں ترمیم کو اپنی بہت بڑی کامیابی قرار دیتی تھی افتخار چوہدری نے دھمکی دی تو انیسویں ترمیم لائی گئی مگر مداوا نہ ہو سکا،اس بار پی ڈی ایم 2کو تہائی اکثریت ملی تو انہوں نے سب سے پہلے افتخار چوہدری کی باقیات کےJudicial Marshal Law کو ختم کرنے کے لئے اقدامات کئے اور آئینی بنچ بنانے میں کامیاب ہو گئی،جس کی وجہ سے پی ٹی آئی کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑااس کے بعد بھی کچھ کام باقی تھا جس پرنون لیگ کام کرتی رہی اور اب ستائیس ویں ترمیم جس کی بازگشت بہت دنوں سے سنی جا رہی تھی اس پر بات کی جانے لگی آج بلاول نے ایک ٹوئٹ کرکے یہ بتایا کہ ستائیس ویں ترمیم میں کیا کچھ شامل کیا جائے گا بلاول نے جو کچھ کہا وہ ستائیس ویں ترمیم کا حصہ ہوگا یا نہیں اس بارے کچھ نہیں کہا جا سکتا،مگر رانا ثنا اللہ نے ایک پروگرام میں کہا کہ ستائیس ویں ترمیم لائی جا رہی ہے اور اس میں کچھ عدالتی اصلاحات بھی موجود ہیں اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ عدالتی اصلاحات میں کچھ چیزیں حل طلب تھیں جن کو اب ستائیس ویں ترمیم میں ایڈریس کیا جائیگا اس کے علاوہ یہ بھی کہ صوبوں کا حصہ کم کرکے وفاق کا حصہ کیسے بڑھایا جائے میرا خیال ہے کہ اس ترمیم کے پیچھے فوج یا مقتدرہ Establishment کھڑی ہے اور اس کا sole purpose اٹھائیس ویں ترمیم کو کمزور کرنا ہے،بہر حال یہ کوشش حکومت کو استحکام دینے کی ہے آئین بننے اور نافذ العمل ہونے کے بعد عوامی بہبود کے لئے ترامیم نا ہونے کے برابر متعارف کرائی گئیں اسمبلی کے ارکان کی تنخواہوں میں اضافے کی بات ہو تو بل بہت جلد واضح اکثریت سے منظور کر لیا جاتا ہے جس میں اپوزیشن بھی شاداں و فرحاں شامل ہو جاتی ہے مگر ایسا نہیں ہوتا کہ پولیس اصلاحات ٹیکس اصلاحات،بجلی پانی صحت کے بارے میں قانون سازی کر لی جائے ،ایلیٹ طبقہ اپنی مراعات میں کمی پر راضی ہو جائے آئین کی شق 63Aعمران دور میں عدلیہ نے Rewrite کی تھی اور ہر رکن اسمبلی کو پارٹی کے سربراہ کی مرضی کا پابند کر دیا گیا تھا ،موجودہ ستائیس ویں ترمیم میں اس کو Reverseکرنے کی بات بھی نہیں پنجاب اسمبلی نے بلدیاتی اداروں کے بارے میں ایک قراداد وفاق کو بھیجی ہے ہمارا مطالبہ ہے کہ اس کو ترمیم میں شامل کیا جائےتاکہ نچلی سطح پر اقتدار منتقل ہو اور نئی قیادت ابھر سکے۔

 

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button