ازرائیل کو تسلیم کرنا خود کشی ہو گی

ابراہیمی معاہدہ (Abraham Accord) کا متن کچھ یوں ہے، امریکن وزارت خارجہ کے مطابق: ’’ہم لوگ جنہوں نے اس معاہدے پر دستخط کیے ہیں،مانتے ہیںکہ مشرق وسطیٰ اور دنیا میں امن بحال رکھنے اور اسکو پائدار بنانے کی کتنی اہمیت ہے، جو باہمی مفاہمت اور بقائی باہمی کے اصولوںپر مبنی ہو، اور اس کے ساتھ انسانیت کی عزت اور آزادی اور مذہبی روا داری پر مبنی ہو۔ ہم بین ال مذاہب اور دانشمندانہ بات چیت کی کوششوں کو سراہتے ہیں جن سے تینوں ابراہیمی مذاہب اور انسانیت میں امن کی ثقافت کا فروغ ہو ۔۔۔‘‘
اگر سچ پوچھیں تو اس معاہدے میں ہر وہ بات لکھی ہے جس پر ازرائیل عمل نہیں کرتا اور نہ اس پر یقین رکھتا ہے، اور نہ اس کا ایسا کوئی ارادہ ہے۔یہ تو دنیا نے گذشتہ دو سالوں میں اس کی غزا میں نسل کشی کی جنگ میں دیکھ لیا ہے۔ازرائیل نے اس جنگ میں ابراہیمی معاہدے کی دھجیاں اڑا دی ہیں۔ اس پر لکھے ہوئے ہر قول کو جھوٹا ثابت کر دیا ہے۔
البتہ کچھ مشرق وسطیٰ کی ریاستوں نے اس معاہدے پر دستخط کر دیے ہیں جن میں متحدہ امارات، بحرین، مراکش وغیرہ شامل ہیں۔ سوڈان میں یہ زیر غور ہے۔ یہ معاہدہ اتنی خوبصورت زبان میں لکھا گیا ہے کہ کوئی اس پر انگلی نہیں اٹھا سکتا۔اگر ازرائیل کے غزا میں اتنے انسانیت سوز اور سفاکانہ مظالم نہ کیے ہوتے تو بھی اس معاہدے پرغورکیا جا سکتا تھا۔ذرا غور کیجئیے کہ ایک قوم جس نے اس معاہدے پر دستخط کیے، اس نے فلسطینیوں پر وہ مظالم ڈھائے جن کاتصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔
ملاحظہ ہو، مزید شاہ پارے اس معاہدے کے: ’’ہم بین المذاہب اوربین المعاشرتی ڈائیلاگ کا فروغ چاہتے ہیں، تا کہ ان تین مذاہب اور پوری انسانیت کے درمیان امن کا تمدن پروان چڑھے۔ہم یقین کرتے ہیں کہ چیلنجز سے نبٹنے کا بہترین طریقہ آپس میں ، ریاستوں کے درمیان، تعاون اور بھائی چارے کی فضا بنانا جس سے مشرق و سطیٰ اور تمام دنیا میںدیر پا امن کا قیام ہو۔
ہم ہر شخص کے لیے تحمل اور عزت چاہتے ہیں تا کہ یہ دنیا ایسی جگہ بنے جہاںسب لوگ بلا امتیاز رنگ، و نسل اور مذہب ، ایک با عزت اور پُر امید زندگی گذار سکیں۔‘‘
اس معاہدے کو پڑھتے ہوئے اگر آپ غزا میں فلسطینیوں کے ساتھ سفاکانہ سلوک کی تصویریں آپ کے ذہن میں گھومنے لگیں تو معاہدہ محض ایک ڈھکوسلا لگے گا جس میں رتی بھر سچائی نہیں۔ اسرائیل کا کردار اور جنگی جنون کے پیش نظر ایسا معاہدہ ایک مذاق اور فتنہ ہی محسوس ہو گا۔
اب ذرا معاہدوں کی تاریخ میں جائیے، تو حال ہی میں کیا معاہدہ جو حماس اور اسرائیل کے درمیان کیا گیا، اس پر ازرائیل کی عملداری کا حال جان لیں، کہ باوجودیکہ ازرائیل کو اپنے جنگی قیدی، زندہ یا مردہ، مل گئے ہیں، ازرائیل نے غزا پر بمباری نہیں روکی۔ ابھی بھی وہ معاہدے کی خلاف ورزی میں مشغول ہے۔ اس سے کیا ثابت ہوتا ہے کہ جن ریاستوں کے ساتھ ابراہیمی معاہدہ ہو گا ان کو کوئی یقین دہانی نہیں ہو گی کہ جب چاہے ازرائیل ، کوئی بہانہ بنا کر ان پر بمباری کر دے گا۔ اب آپ رہ جائیں گے معاہدہ دکھاتے۔اس لیے ازرائیل کے معاہدوں پر دستخط کرنا اور اس پر بھروسہ کرنا، ایک سوالیہ نشان ہے۔ ابھی تک جن ملکوں نے ابراہیمی معاہدے کیے ہیں، ان کی ماضی میں ازرئیل کے ساتھ کوئی مخاصمت نہیں تھی۔ اس لیے ان کے لیے ازرائیل سے تجارت اور فنی امداد کے مواقع ضرور پیدا ہو گئے ہو نگے۔لیکن وہ ملک جن سے ازرائیل کے تعلقات امن پسندانہ نہیں تھے، جیسے کہ پاکستان، جس نے ازرائیل کے خلاف جنگ میں عربوں کے لیے جنگ میں حصہ لیا تھا، اس کے معاملات دوسرے ہیں۔
ایک امریکی ٹی وی انٹرویو میں نیتین یاہو نے کہا تھا کہ دنیا میں اس کا ایک ہی بڑا دشمن ہے اور وہ ہے پاکستان۔ یہ اس لیے کہ پاکستان اکلوتا اسلامی ملک ہے جس کے پاس جوہری طاقت ہے ، فضائی طاقت اور جنگ آزمودہ فوج ہے، جو ازرائیل کے خلاف کھڑی ہو سکتی ہے۔ دوسرا دشمن ایران ہے، لیکن وہ جوہری طاقت نہیں ہے۔ جب سے ازرائیل نے غزا میں جنگ چھیڑی ہے، اس نے اپنی پاکستان دشمنی کی حکمت عملی پر نظر ثانی کر لی ہے۔ وہ کم از کم تھوڑے عرصہ کے لیے ، پاکستان کے ساتھ دوستانہ تعلقات بنانا چاہتا ہے۔ اس لیے کہ بلا وجہ پاکستان کی دشمنی کا اسے کوئی فائدہ نہیں۔ دوستی کے دو فائدے تو ظاہر ہیں۔ اول یہ کہ وہ پاکستان کی طرف سے نیوکلیر حملے کا امکان روک دے گا، دوسرے، وہ سفارت کاری کے راستے بنا کر پاکستان کے خفیہ جوہری اڈوں کا پتہ لگا سکے گا۔ اس کام میں وہ امریکی ذرائع کو قابل اعتماد نہیں سمجھتا اور نہ ہی بھارتی ذرائع کو۔اس لیئے اسے جلدی ہے کہ پاکستان ابراہیمی معاہدے پر دستخط کرے اور ازرائیل جلد از جلد پاکستان میں اپنا سفارت خانہ قائم کرے۔آخر کار، اسرائیل کی سب سے بڑی ترجیح پاکستان کے ایٹمی اثاثے تباہ کر نا ہے۔اس لیے وہ پاکستان کے ساتھ سفارتی تعلقات، ہر قیمت پر، چاہتا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ازرائیل کی فنی صلاحیت ایسی ہے کہ وہ بہت جلد اپنا مشن مکمل کر لے گا ۔ دوسری طرف اس نے صدر ٹرمپ کو اس کام پر لگا دیا ہے کہ وہ پاکستانی حکومت کو اپنی مٹھی میں کر لے۔صدر ٹرمپ نے یہ کام بڑہ خوش دلی سے کر دیا ہے۔ اب پاکستان کا وزیر اعظم اور سپہ سالار اس کی ا نگلیوں پر ناچ رہے ہیں۔اس نے انہیں راضی کر لیا ہے کہ وہ ازرئیل کو تسلیم کرنے کی راہ ہموار کریں۔اس سلسہ میں سپہ سالار نے کمال پھرتی دکھائی ہے۔ غالباً ان کو مشورہ دیا گیا ہو گا کہ اگر مذہبی جماعتوں تمہیں مخالفت کا اندیشہ ہے توکسی ایک جماعت کو نشان عبرت بنا دو تا کہ دوسرے مخالفت کا سوچیں بھی نہیں۔ سپہ سالار کو اس وقت ایک ہی فکر لاحق ہے کہ اسے ملازمت میں اکسٹینشن ملے گی کہ نہیں؟ اگر وہ صدر صاحب کے حکم کی تعمیل کرے کرے گا تو ایکسٹینشن پکی۔اب اس پس منظر میں یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ مرید کے میں کیا ہوا اور کیوں سینکڑوں بے گناہ لوگ مارے گئے۔ اس سے آپ کو یہ بھی اندازہ ہو یا ہو گا کہ پاکستان میں جو کچھ یہ دونوں حضرات کر رہے ہیں، اس کے تانے بانے کہاں جا کر ملتے ہیں۔
یہ بہت ضروری ہے کہ سپہ سالار صاحب بہادر اپنے ذہن سے نکال دیں کہ یہ ان کی ذات ہے جو ازرائیل اور ٹرمپ کو چاہیئے۔ نہیں بھائی جان، کل کو جو بھی آپ کی جگہ آئے گا وہ بخوشی یہی کام ٹرمپ کے کہنے پر کر دے گا۔ یہ ٹرمپ کو بھی پتہ ہے اور ازرایئل کو بھی۔ البتہ، یہ وزیر اعظم کے بارے میں نہیں کہا جا سکتا۔ اگر نیا وزیر اعظم عمران خان یا اس جیسا آ گیا تو حالات بگڑ بھی سکتے ہیں۔ اس لیے عمران خان کو جب تک رہا نہیں کیا جا سکتا جب تک ازرائیل پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کا پتہ نہیں چلا لیتا ۔ اس کے بعد تو چراغوں میں روشنی نہیں رہے گی۔ اب ضروری نہیں کہ ازرائیل کا سفارت خانہ ہی یہ کام کرے گا۔ نہیں بھائی جان ،ہمارے پیارے پا کستانی چاندی کے چند سکوںلے کر سارے ایٹمی ہتھیاروں کے ٹکانے سفارت خانے میں موساد کے ایجنٹوں کو بتا دیں گے۔ فکر ہی نہ کریں۔ مثلاً جو ڈرائیور ان جگہوں پر سواریاں لاتے لے جاتے ہیں، ان کو سب پتہ ہوتا ہے۔
اب ذرا غور کیجئیے کہ امریکہ کو افغانستان کی پرانی بیس بگرام سے کیوں اتنی محبت ہو گئی ہے؟ یہ بڑی کام کی ایر بیس ہے۔ اس میں ہر قسم کے ہوائی جہازوں کے چڑھنے اترنے کی جگہیں ہیں۔ بڑے گودام ہیں جن میں سب کچھ رکھا جا سکتا ہے۔ اسلحہ ، ہتھیارم ٹینک اور بکتر بند گاڑیاں۔ دوسرے لفظوں میں یہ ایک مکمل چھاونی ہے۔ اس کی اہمیت یہ ہے کہ یہ پاکستان اور ایران دونوں پر فضائی حملوں کے لیے موزوں ترین مقام ہے۔ اس لیے جب ازرائیل کو پاکستانی ایٹمی اثاثوں کے ٹھکانوں کا پتہ چل گیا تو بگرام بیس سے ساری کاروائی کی جا سکے گی۔ اگر امریکہ کے پاس یہ بیس نہ ہوئی تو ایسی کاروائی پھر دور سے کرنی پڑے گی جو نا ساز گار ہو گی۔ اب غور کیجئے کہ ہمارے پیارے سپہ سالار پاکستانیوں کی جانوں کا نذرانہ دیکر، کسی طرح بگرام بیس پر قبضہ کر کے امریکہ کو دلوا دیتے ہیں تو وہ بالآخر کس کو فائدہ پہنچائیں گے؟ وہ پاکستان میں اپنی قبریں کھودنے کا کام کریں گے، اوراپنے ایٹمی اثاثوں کو ہاتھ سے دھو بیٹھیں گے۔کیوں ایسا ہی ہے نا؟ اسی لیے ازرئیل نے ٹرمپ کے کان کھینچے ہیں کہ جب امریکہ نے افغانستان چھوڑا تو بگرام کیوں چھوڑ دیا؟
اس سے قطعانظر، کہ افغانستان پاکستان کے لیے ایک چھوٹا سا چیلنج ہے، ہمسایہ ملک ہے اور اسلامی ملک ہے جس کے ساتھ پاکستان کو برادرانہ تعلقات بنانے چاہئیں۔ بگرام حاصل کرنے کے شوق میں وہ اس ملک سے ہمیشہ کے لیے لڑائی مول لے لیں گے۔ اور اس کا فائدہ پاکستان کے دشمنوں کا ہو گا۔سپہ سالار صاحب تو اس کے بعد امریکہ میں جا کر رس بس جائیں گے، اس کام کا نتیجہ تو پاکستان کی قوم کو بھگتنا ہو گا۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ٹرمپ مالی امداد کے بارے میں سخت کنجوس ہے۔ وہ چاہے گا کہ سپہ سالار بغیر مالی امداد لیے یہ سارا کام کر دے۔ اس کے بدلے میں جو امریکہ کا فوجی سامان وہاں پڑا ہے، وہ لے لے۔اور ہمارا سپہ سالار اس پر بھی راضی ہو جائے گا، کیونکہ اسے تو ایکسٹنشن چاہیئے۔ پاکستانی جائیں جہنم میں۔شہباز شریف خود ہی قرضے مانگتا پھرے گا ، یہ تو اس کا پیشہ ہے۔
اب ذرا غور کیجئے کہ جب پاکستان افغانستان پر چڑھائی کر رہا ہو گا ، تو بھارت پاکستان پر حملہ کرے گا، پوری قوت کے ساتھ۔اس کا مقصد ہوگا کہ کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ رقبہ پر قبضہ کر لے۔ اس میں کوئی بعید نہیں کہ پاکستان کے شمالی علاقے، آزاد کشمیر اس کی دسترس میں چلے جائیں۔ بعد میں اپنی من مانی شرائط پر وہ ان کو واپس کر دے، وہ اس کی مرضی ہو گی۔ ٹرمپ ، نوبل پرائیز کے شوق میں بھارت کو مجبور کر دے کہ پاکستان کو اس کے علاقے واپس کر دے۔ اس طرح پاکستان کو بگرام دلوانے کا انعام مل جائے گا۔ہینگ لگے نہ پھٹکری۔ ازرائیل کو بگرام مل جائے گا، اور ٹرمپ کو بھی کچھ نہ کچھ تو ملے ہی گا۔
سوچنے کی بات ہے کہ ایک طاقت کا بھوکا سپہ سالار اور ایک کورپشن کا بھوکا وزیر اعظم مل کر پاکستان کی بقا کا سودا کرنے جا رہے ہیں، کیا ان کو معلوم نہیں؟حب الوطنی تو دور کی چیز ہے یہ تو کھلم کھلا وطن سستہ میں بیچ رہے ہیں۔اور ان کو روکنے والا کوئی نہیں؟ یہ ننگ دین، ننگ ملت ، ننگ وطن ہمارے محافظ ہیں، اللہ رحم کرے۔
آخر میں، پاکستانی فوج کا ازرائیل میں جانا ایک اہم پیش رفت ہے اس پر غور کیجئیے۔حقیقت یہ ہے کہ ازرائیل کے پاس فوج کم ہے اور وہ حماس کے ہتھیار اتارنے کے لیے خطرہ مول نہیں لینا چاہتا۔ اس کے لیے وہ مسلمان ممالک کی فوج استعمال کرنا چاہتا ہے جن پر حماس حملہ کرنے سے گریز کریں گے۔ہمارے فوجی ان حالات میں قربانی کا بکرا بھی بن سکتے ہیں کیونکہ ازرائیل ہوائی بمباری کرنے سے باز نہیں آئیں گے۔ازرائیل کے اور بھی مقاصد ہو سکتے ہیں جیسے پاکستانی فوج کی نفسیات، اقدار اور کمزوریوں پر تحقیق کرنا۔ اس لیے پاکستان کو بھی چاہیئے کہ وہ اسرائیلیوں کی بھی تحقیق کرے کہ ان کو کس چیز سے خوف آتا ہے اور کس سے نہیں۔ان کی کیا کمزوریاں ہیں اور کیا نہیں؟ بالآخر، اسرائیل نے ایک دن بھارت کے ساتھ ملکر یا اکیلے پاکستان کے ایٹمی اثاثوں پر حملہ کرنا ہے اور سب کچھ اسی کے لیے تو کیا جا رہا ہے۔مشتری، ہشیار باش۔



