ہیرا پھیری

فتنہ الخوارج کی در اندازی کے واقعات نے ایسے وقت میں پھر سے سر اُٹھا یا جب پاکستان و افغان حکومت کے مذاکرات دہشت گردی کی روک تھام کے حوالے سے جاری تھے مذاکرات کو ناکامی سے درپیش کرنے کے لئے بھارتی پراکسی کے طالبان اپنی پوری قوت سے امن کی فضاء کو قائم ہونے سے پہلے ہی خود کش دھماکوں سے لرزہ براندام کر رہے تھے جس میں انھیں کامیابی ملی اور یہ مذاکرات کسی نتیجے پر پہنچنے سے پہلے ہی ختم کروا دئیے گئے افغانستان کا جو وفد مذاکرات کی میز پر کئی دن براجمان رہا وہ اپنے طور پر کوئی بھی منصفانہ ،اُصولی فیصلہ کرنے کا اختیار ہی نہیں رکھتا تھا جیسے ہمارے ملک میں تحریک انصاف کی قیادت اپنے ذہن سے کسی عام سے مسئلے پر بھی بات چیت کے لئے بانی سے ہدایت لینا ضروری سمجھتی ہے مذاکرات کبھی بند اور کبھی شروع کی اس ہیرا پھیری میں دہشت گردی جیسے المناک مسئلے کو غیر سنجیدگی کے طرز ِ عمل کے حوالے کرنا یہ تاثر دے رہا ہے کہ افغان حکومت حکومت ہندوستانی فتنہ الخوارج طالبان کے زیر ِ سایہ اپنی حکومت چلا رہی ہے کیونکہ وہ کسی فیصلے میں آزاد نظر نہیں آتی دوران ِ مذاکرات افغانی وفد کو بار بار کسی بھی نکتے پر اپنے پس ِ پردہ محسنوں سے مشورہ کرنا یہ ثابت کر چکا ہے اور اس میں کوئی دوسری رائے شامل نہیں ہو سکتی کہ یہ مذاکرات افغانی وفد کی بجائے پیٹھ پیچھے بیٹھے ہندوستانی جھنڈے کے تلے رہنے والے طالبان سے کرنے ہیں دوسرے لفظوں میں اُن کے ایجنڈے پر رہتے ہوئے طالبان کی آزادانہ نقل و حرکت کو برداشت کرنا ہے جو پاکستان کو کسی صورت قبول نہیں کیونکہ ہندوستان اور اُس کے پراکسی طالبان کسی صورت پاکستان میں اور خصوصی طور پر مقبوضہ کشمیر میں دیر پا امن کے خواہاں ہی نہیں ہیں مذاکرات کی ظفری کیفیات کو لئے یہ دہشت کے رسیا تو خوش ہیں مگر اپنے عبرت ناک انجام سے بے خبر ہیں ان کی بات چیت کے دوران بار بار مداخلت سے یہ بات سمجھ میں آتے دیر نہیں کرتی کہ افغانیوں کی سر زمین پر بھارت اپنے پورے نظم و ضبط سے قابض ہے اور وہ حسب ِ ایجنڈا پاکستان کو دفاعی طور پر عدم استحکام سے دوچار کر کے دنیاکو باور کرانا چاہتے ہیں کہ پاکستان میں اللہ نہ کرے ایٹمی تنصیبات محفوظ نہیں ہیں بارہا پاک فوج سے شکست کھانے کے باوجود بھارت اپنی ہٹ دھرمی ،مسلمانوں سے دشمنی کی روش کو ترک نہیں کر رہا ہے جس سے خطے میں آباد یا منسلک ممالک پُر امن رہنے کی بجائے انتشار کا شکار ہیں سی پیک کے مسئلے کو لے کر بھارت افغان راہداری میں ترقی کے اہداف کو تکمیل کے مراحل میں بذریعہ طالبان رکاوٹیں کھڑی کر رہا ہے جہاں دشمنی کے اس لاعلاج مرض میں مبتلا بھارت دہش گردی کے کینسر کو پھیلانے میں اپنی توانائیاں زائل کر رہا ہے اس کے برعکس پاکستان اپنے دفاعی محاذ پر ہندوستان کو اور اس کے پراکسی ہولڈرز طالبان کو بیشتر مرتبہ شکست کی دھول چٹا کر یہ باور کرا چکا ہے کہ پاکستان ناقابل نسخیر قلعہ ہے ۔موجودہ دور کے طالبان مجھے لگتا ہے کہ یہ مدارس سے سند یافتہ ہونے کی بجائے صرف جنگجو گروپس کے تربیت یافتہ ہیں یہ مذہبی احکامات پر بھی وہ دسترس نہیں رکھتے جو ایک مسلمان کا خاصا ہوتا ہے تعلیمی خواص سے تہی دست یہ طبقہ صرف اپنے مذموم اہداف کی تکمیل کے لئے سرگرم رہتا ہے اسلام کا لبادہ اوڑھ کر غیر اسلامی حرکات و سکنات کا مرتکب ہونا منافقانہ عمل کہلاتا ہے مگر ایسے سانچے میں ڈھلے یہ طالبان اپنے آپ کو ہمیشہ بہتر قرار دیتے ہیں اپنے اس مخصوص راستے پر چلتے ہوئے وہ کج روی ،غلط فہمی ،یا اعتدال اور حقیقت پسندی کے فقدان کا شکار رہتے ہیں جس سے ان کا عمل مومنانہ ہونے کے برعکس ہو جاتا ہے جو ہیرا پھیری کی دلیل بن جاتا ہے مذکورہ مذاکرات میں دونوں فریقوں کا کسی واضح نتیجے پر نہ پہنچنا سرحدی کشیدگیوں کو تقویت دے گا جو ہندوستان کی منشاء ہے اُس کا ایجنڈا ہے جس میں امن کے بقاء کی خوشبو نہیں ہیرا پھیری کی بدبو ہے بس بڑی طاقتیںاور افغان حکومت اسے محسوس کر لیں تو دوست دشمن کی پہچان میں آسانی ہو جائے گی ۔



