لبیک پر پابندی!

تایخ ایک آئینہ ہے اس آئینے میں صورت صاف نظر آتی ہے جیسی صورت ویسا عکس،چڑیا آئینے سے کتنا ہی لڑتی رہے آئینہ یہی کہتا رہے گا یہ تم ہواور اس حقیقت کو جھٹلایا نہیں جا سکتا،اگر صورت دھندلی نظر آئے تو آئینے کو صاف کر لیا جاتا ہے اور عکس تازہ ہو جاتا ہے اس میں بھی قصور آئینے کا نہیں گرد کا ہے،لیکن اگر آپ Denial کا شکار ہیں تو آپ آئینے کو ہی الزام دینگے،Denial حقیقت سے انکار ہے، کینسر کا ایک مریض لاکھ کہتا رہے کہ وہ کینسر کو نہیں مانتا اور وہ کینسر کا شکار نہیں مگر حقیقت یہی ہے کہ وہ کینسر کا شکار ہے،Denial کے پیچھے ایک خاص ذہنیت ہوتی ہے اس کو آپ جہل سے تعبیر کر سکتے ہیں ایک ایسا پردہ جو آپ کے اور سچ کے درمیان ہے اور آپ سمجھتے ہیں کہ ایسا کوئی پردہ ہے ہی نہیں،یہ عقیدے کی ایک شکل بھی ہے عقیدہ بھی آپ کو دور تک دیکھنے سے روکتا ہے،مذہبی رہنماؤںکی جانب سے بھی Hammering کی جاتی ہے کہ عقیدے پر قائم رہوورنہ بھٹک جاؤگے اور فرد کو سمجھا دیا جاتا ہے کہ عقیدے میں دراڑ پڑی تو ایک طرف عمر بھر کی ریاضت بھرشٹ ہو جائے گی اور جنت سے بھی ہاتھ دُھونا پڑے گاپھر حلقہء ارادت میں رکھنے کے لئے یہ بھی کہا جاتا ہے کہ توبہ کے دروازے کھلے ہیں،مسلم رہنما نے کبھی سوال کرنے کی اجازت نہیں دی،اس صورتِ حال نے مذہب کو مکمل طور پر Authoritarianبنا دیا،فتؤں نے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت چھین لی مغرب نے جب بھی کوئی سوال اٹھایا تو یہ کہہ کر مسترد کر دیا گیا کہ اعتراض کرنے والے کافر ہیں،اعتراض کا جواب کبھی نہیں دیا گیا،صدیوں کی اس روش نے مسلمانوں کو فکر سے دور رکھا،عباسیوں کے دور میں سائنس کو ترقی ملی مسلمان فلسفے کے قریب ہونے لگے تھے معتزلہ کی تحریک نے معاشرے کو روشن خیالی کی جانب دھکیلا تھا مگر یہ سفر زیادہ دیر جاری نہ رہ سکا،چرچ نے 359 سال بعد گلیلیو سے معافی مانگ لی اور اس کا نظریہ قبول کر لیا کہ زمین سورج کے گرد گھومتی ہے سورج زمین کے گرد نہیں گھومتا،مگر مسلم رہنماؤں نے کبھی ابنِ رشد سے معافی نہیں مانگی ابن ِرشد نے کہا تھا کہ مادہ ابدی اور لافانی ہے اور خدادنیاوی امور میں مداخلت نہیں کرتاابن ِرشدنے یہ بھی کہا تھا کہ تخلیقِ آدم ایک افسانہ ہے،جدید فکر ابنِ رشد کو رہنما کئے ہوئے ہے یہی وہ مقام ہے جہاں مذہب کے کنگرے گرنا شروع ہو گئے اور یہیں سے مذہب میں شدت پیدا ہوئی ،تقسیم پاکستان سے پہلے کوئی کسی کا مسلک نہیں پوچھتا تھا تھا بس اتنا ہی کافی تھا کہ مخاطب مسلمان ہے،یا زیادہ سے زیادہ نام کے لاحقوں سے اندازہ لگایا جاتا کہ کوئی سنی ہے یا اہلِ تشیع، اس وقت یہی دو مسالک سامنے تھے اہل ِ دیوبند اور بریلوی بہت بعد کی پیداوار ہیں،پاکستان کے قیام کے بعد مسالک کی ریل پیل ہو گئی مودودی صاحب بہت ذہن انسان تھے انہوں نے سوچا کہ اگر معاشرہ ایسے ہی چلتا رہا تو ان کی دال نہیں گلے گی لہٰذا انہوں نے پاکستان کا پہلا فرقہ وارانہ فساد اسٹیج کیا اس کے بعد سے فرقہ واریت کبھی رکی نہیںاور فرقوں نے پگڑیاں اچھال اچھال کے ناچنا شروع کردیا اور یہ ورائیٹی پروگرام ابھی تک چل رہا ہے، جہل چمٹا ہوا تھا تو اس بات پر غور ہی نہیں ہوا کہ ہندوستان میں اسلام کبھی آیا ہی نہیںتصوف کو ہی اسلام مان لیا گیا، حاکم خود اسلام سے واقف نہ تھے لہٰذا صوفیوں کو خوب اچھلنے کودنے کا موقع ملااور حاکموں کی سرپرستی بھی ان کو حاصل رہی دین کا کام ملفوظات سے چلتا رہاہزار سال میں کوئی عالمِ دین تھا ہی نہیں،بس صوفی تھے اور ان کی جھوٹی کرامات جو بعد میں کیمرے نے چھین لیںقیامِ پاکستان کے بعد اس جہل کو ختم کرنے کی کوئی سعی نہیں ہوئی بلکہ دین فروشوں کو آزادی دی گئی کہ وہ اپنا کاروبار جاری رکھیں،اس کاروبار میں کوئی Investmentکی ضرورت نہیں تھی ایک مسجد اور ایک لاؤڈ اسپیکر،کاروبار شروع،ایوب خان کو زوال ہوا تو نظام مصطفے،نفاذِ شریعت، نفاذِ اسلام،کی دکانیں گلی گلی سج گئیں، الیٹ کلاس نے اس جہل کا خوب خوب فائدہ اٹھایاستر کے الیکشن میں ایلیٹ کلاس نے راتوں رات کراچی کو جماعتِ اسلامی سے چھیننے کے لئے جمیعتِ علمائے پاکستان کو لانچ کر دیاجس کو ممتاز صنعتکار سہگل نے فنانس کیاجس کے لئے مساجد میں دعائیں کی گئیں،نورانی نے 73 کے آئین میں احمدیوں کو غیر مسلم قرار دینے کی دفعات شامل کرا دیںپھر آہستہ آہستہ نوارانی گروپ معدوم ہوتا چلا گیا،ضیا کے دور میں اہلِ حدیث کو عروج حاصل ہواجنہوں نے اہل تشیع کے خلاف تحریک شروع کیاور کوشش کی کہ اہلِ تشیع کو کافر قرار دیا جائے اس کی وجہ یہی تھی کہ اہلِ تشیع دلیل کے ساتھ بات کرتے تھے اور اہلِ حدیث کو دلیل پسند نہ تھی جہل کا ہی فائدہ اٹھا کر حکومتوں کو Topple کرنے کے لئے جنرل فیض حمید نے لبیک کو لانچ کیاراتوں رات مغلظات بکنے والا خادم رضوی ایک عفریت بن گیا،لبیک ایک سیاسی جماعت بھی بن گئی لبیک نے پنجاب میں درجنوں مساجد اورمدرسے قائم کر لئے مدرسوں میں نا بالغ بچوں کو سکھایا جاتا کہ۔گستاخِ نبی کی سزا ،سر تن سے جدا۔پھر اس کا عملی مظاہرہ گلی کوچوں میں ہونے لگا ہر روز کسی نہ کسی پر گستاخیء رسول کا جھوٹا الزام لگایا جاتا اور mob lynchingشروع ہو گئی پنجاب میں یہ کلٹ اتنا مضبوط ہو گیا کہ حکومتیں بھی اس سے ڈرنے لگیں،Mob ناموسِ رسالت کے نام پر جھوٹا الزام لگا کر کسی کو بھی مار دیتا تھا ،بچیوں کا ریپ ہو، مدارس میں بچوں کے ساتھ اغلام بازی ہویا جھوٹے الزام پر کسی کو مار دینا ہوکسی مولوی کو کبھی سزا نہیں سنائی گئی اہلِ حدیث کے ابو بکر معاویہ نے ایک بچے کے ساتھ بد فعلی کی پکرا گیا، مقدمہ بنا اور اہلِ حدیث کا چئیرمین ابتسام الہی ظہیر ابو بکر معاویہ کو چھڑا کر لے گیاپولیس منہ دیکھتی رہ گئی عدالتوں کے جج ان سے خوفزدہ تھے یہ عدالت میں اپنے مخالف کو مار دیتے تھے اور جج کوئی کاروائی نہ کر سکتا،حکومت کے لب سلے رہتے اور حکومت کچھ نہ کر پاتی،چرچ جلا دئے گئے،عیسائیوں کی بستیاں جلائی گئی،احمدیوں کو قتل کیا گیا بھتہ خوری بھی شروع ہو گئی یہ لوگ Textile Milsمیں گھس جاتے اور مشینوں پر بنتے ہوئے کپڑوں کو چیک کرتے کہ کہیں کوئی ایسا پرنٹ تو نہیں جس پر گستاخیء رسول کا کوئی شائیبہ ہو ان فیکٹریوں سے ماہانہ بھتہ وصول کیا جاتا پنجاب کی حکومتیں ان سے خائف رہتیں یہ پنجاب حکومت کوہمیشہ بلیک میل کرتے اور لبیک کے وفاقی اور پنجاب کی حکومتوں کے متعدد معاہدے ہوئے اور لبیک کو کروڑوں کی ادائیگی بھی ہوئی جب سے عاصم منیر نے دہشت گردی کے خلاف ریاست کی پالیسی بدلی اور Hard State کا اعلان ہوا تب سے سیاسی حکمت کو کچھ طاقت ملی عاصم منیر نے ایک بیرونی دورے پر یہ بھی کہا تھاکہ وہ چاہتے ہیں کہ پاکستان میں مذہبی آزادی کے ساتھ سماجی آزادی بھی ہونی چاہیے ا ور کوئی جبر نہ ہو، لبیک نے اپنی گزشتہ لانگ مارچ میں فرانس اور امریکہ کو دھمکیاں دی تھی،یہ بات بھی سامنے آئی کہ ــ سر تن سے جدا کا نعرہ یورپ میں بھی export کیا گیا اور چند ایسے واقعات رونما ہوئے کہ یورپی ممالک کو خدشہ ہوا کہ ان کے شہریوں کی جانیں محفوظ نہیں،ادھر لبیک نے ایک اور لانگ مارچ کا اعلان کر دیا،لانگ مارچ لاہور سے نکل کر مرید کے پہنچ گیا مذاکرات ہوئے وفاقی وزراء کا کہنا ہے کہ ہر نشست میں لبیک کی شرائط بڑھ جاتیںمعاملہ الجھ گیا یہ لانگ مارچ بقول لبیک غزہ کے فلسطینیوں سے اظہارِ یک جہتی کے لئے کیا گیا مگر لانگ مارچ سے پہلے ہی غزہ امن معاہدہ ہو چکا تھا جس کو حماس نے بھی Endorseکردیا غزہ امن معاہدہ ہونے کے بعد لانگ مارچ کا کوئی جواز نہ تھامرید کے پر لبیک جب تشدد پر اتر آئی تو پالیس کو آپریشن کرنا پڑالبیک نے ایک پولیس افسر کو قتل کر دیا درجنوں زخمی اور متعدد مستقل معذوری کا شکار ہوئے،لانگ مارچ پولیس نے Disperse ہوگیا سعد رضوی اور انس رضوی تا حال لا پتہ ہیں معروف صحافی نصرت جاوید کا کہنا ہے کہ سفارتی ذرائع نے بتایا ہے کہ چند یورپی ممالک نے لبیک کے ان پیروکاروں کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا جو بیرون ملک سماج دشمن کاروائیوں میں ملوث ہیں نصرت جاوید نے نام تو نہیں بتائے مگر کہا جا رہا ہے کہ حکومت کے پاس اسپین،اٹلی اور فرانس کی شکایات موجود تھیں ہمیں نہیں معلوم یہ شکایات موجود تھیں یا نہیں مگر پاکستان میں امن ِ عامہ کے تناظر میں یہ ضروری تھا اب پنجاب حکومت نے وفاق سے درخواست کی ہے کہ لبیک پر پابندی عائد کی جائے اور وفاقی کابینہ نے لبیک پر پابندی کی منظوری دے دی ہے لبیک کی مساجد اور مدرسوں کو اوقاف نے اپنی تحویل میں لے لیا ہے لاوڈ اسپیکر کا استعمال محدود کر دیا ہے اور ان مساجد کے امام تبدیل کر دئے گئے ہیں،یہ اقدام ان جتھوں کی حوصلہ شکنی کے لئے ہیں جو ملک میں Law and Orderکی سچوئشن بنا دیتے ہیں لبیک پر پابندی دہشت گردی کے قانون کے تحت لگائی گئی ہے سو اس کو کالعدم کرانے کے لئے سپریم کورٹ نہیں جانا ہوگا اگر آئین کی دفعہ 17کے تحت پابندی لگتی تو پندرہ دن کے اندر سپریم کورٹ جانا پڑتا،کچھ وفاقی وزراء کا کہنا ہے کہ ان ضابطوں میں کچھ اور جماعتیں بھی آ سکتی ہیں بظاہر یہ اشارہ پی ٹی آئی اور مولانا فضل الرحمن کی طرف ہو سکتا ہے جو کہہ رہے تھے کہ اب فیصلے ایوان میں نہیں بلکہ میدان میں ہونگے بہر حال ہم لبیک پر پابندی کا خیر مقدم کرتے ہیں ۔



