نیتن یاہو کا مرغ دست آموز ڈونلڈ ٹرمپ

2023ء کے اواخر سے شروع ہونے والی دھماچوکڑی نے فلسطین کے مسئلے کو یخ بستہ فریزر سے نکال کر آتش و آہن کا عنوان بنایا، لاتعلقی اور فراموشی میں گم دنیا اچانک بیدار ہوئی اور امریکی پشت پناہی سے برپا کی جانے والی صیہونی تباہی اور فلسطینیوں کی نسل کشی نے دنیا کے سامنے صحیح اور غلط ، قاتل اور مقتول ،انسانیت اور نسل کشی کے مابین فرق کو اتنا واضح اور روشن کر دیا ہے کہ سال 2024 اور اب سال 2025 کے اواخر تک آتے آتے دنیا میں اسرائیلی ریاست کے بارے تاثر اور تاثرات بالکل تبدیل ہو چکے ہیں۔ مسلم ممالک کے حکمران خوئے غلامی میں مست اور مسلم ممالک کے عوام حسب معمول لاتعلقی اور خود فراموشی جیسے عوارض کا شکار ہیں ۔لیکن غیر مسلم ممالک کے انسان دوست اور انسانیت نواز لوگوں اور لیڈروں نے اپنے بے مثال مظاہروں اور دو ٹوک موقف سے مسئلہ فلسطین کو ایک دیگر انداز کی روشنی سے منور کر دیا ہے ۔غزہ کو ملبے کا ڈھیر بنا دینے کے باوجود اسرائیل یہ جنگ جیت نہیں پا رہا تھا۔ اور واقعتاً غزہ اسرائیل کا ویتنام بنتا جا رہا تھا، دلچسپ بات یہ ہے کہ غزہ کو ملبے کا ڈھیر بنانے کے باوجود اسرائیل حماس کی مزاحمت ختم نہیں کر سکا تھا، اور تمام تر ہوائی اور میزائل حملوں کے باوجود غزہ کی سڑکوں اور گلیوں میں حملہ آور اسرائیلی فوجی قسطوں میں مر رہے تھے۔پوری دنیا میں اسرائیل اور نیتن یاہو کے خلاف نفرت بڑھتی جا رہی تھی۔ بڑے بڑے غیر مسلم ممالک میں تاریخ کے فقید المثال اجتماعات میں فلسطینی ریاست کے قیام اور مظلومین غزہ کے حق میں مطالبات پیش کئے جا رہے تھے۔خود اسرائیل کے اندر نیتن یاہو کے خلاف احتجاج اور عوامی بغاوت کے آثار پیدا ہو رہے تھے۔ اسرائیلی یرغمالیوں کے لواحقین نیتن یاہو کے جنگی پاگل پن کی وجہ سے اپنے یرغمالیوں کی رہائی کے امکانات کو محدود سے محدود تر ہوتا دیکھ رہے تھے ۔ایسے میں صیہونی ذہن نے زہر کا تریاق زہر سے تیار کرنے کا فیصلہ کیا ، اور بنجمن نیتن یاہو کے پرائیویٹ ڈھول سپاہی یعنی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنا بظاہر بیس نکاتی فارمولہ پیش کر دیا ۔ پھر گرد و نواح کے اہم ،کار آمد اور متعلقہ آدمیوں کو بلا کر تنہائی میں اور شاید تھوڑے سے پوٹھوہاری لہجے میں ساری منصوبہ بندی ، اس میں مختلف و متعلقہ ممالک اور افواج کے کردار اور ایسا کر گزرنے سے ،آخرت کے انتظار کی بجائے دنیا ہی میں حاصل ہونے والے اجر و ثواب کی تفصیلات بھی سمجھا دی گئی ہوں گی ،گویا جس مہارت سے غیر انگریز فوج کے بل بوتے پر برطانیہ نے پہلی اور دوسری جنگ عظیم میں اپنی جان بچائی تھی، اکیسویں صدی میں امریکہ نے اسے اسرائیل کو فلسطینی مزاحمت کاروں سے نجات دلانے کے لیے راضی کر لیا ہے۔ستم ظریف شکوہ سنج ہے کہ فیصلہ ساز اپنی رائل برٹش آرمی والی شناخت ، ضیاءالحقی طرز عمل اور مشرفی خودسپردگی کے حصار سے ابھی تک باہر نہیں نکل پائے، اور نہ ہی باہر نکلنا چاہتے ہیں۔ چین کے ساتھ اسٹرٹیجک معاملات میں کھیلنا خود پاکستان کے اپنے سکھ چین کے لیے نقصان دہ ہے ۔ امریکی دفاعی اور جنگی سامان آج تک کسی بھی جنگ میں پاکستان کے کام نہیں آیا ،بلکہ امریکی اسلحے کی خریداری میں یہ شرط شامل ہوتی ہے کہ یہ ہتھیار یا طیارے بھارت کے خلاف استعمال نہیں کئے جائیں گے ۔اس کے باوجود امریکی سرمایہ دارنہ ذہنیت نے ہمارے جیسے ملکوں کے نوسرباز حکمرانوں کو کسی بھی ڈیل یا ڈیوٹی کی تفویض کے ساتھ ہی میز کے نیچے سے ملنے والی رقوم نے بدمست کر رکھا ہے۔ان کا حال اس مزاحیہ جن کے ڈرامائی کردار سے ملتا جلتا ہے جو فارغ وقت میں یہ تکرار جاری رکھتا ہے کہ؛ مجھے کام بتائو۔۔۔میں کیا کروں ۔۔۔میں کس کو کھاوں۔تو امریکہ کی یہی رمز شناسی ہمارے جیسے ملکوں کے حاضر سروس حکمرانوں سے ایک جیسی وفا داری میسر آتی رہتی ہے ۔سچ ہے دنیا بدل گئی ،ہمارے حکمرانوں کی ارزاں دستیابی میں کوئی فرق نہیں آیا۔ ایران کے ساتھ ہمارا طویل سرحد اور طویل ترین تاریخ و تہذیب و ثقافت کا رشتہ ہے ،اس حقیقت اور اس لوکیشن کو ہم تبدیل نہیں کر سکتے ۔لیکن اپنے فیصلہ سازوں کے دماغوں کو اندر سے تبدیل کئے بغیر ہمارے لیے اپنے ملک کو منڈی کے اسٹیٹس سے باہر نکالنا ممکن نہیں رہا۔نام یا شکل سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔سب کے دل و دماغ اندر سے ایک ہی سانچے اور کھانچے میں ڈھلے ہوئے ہیں۔ستم ظریف اس دھندے ،جسے وہ پھندے سے تعبیر کرتا ہے ،کو سمجھانے کے لیے ایران کی مثال پر غور کرنے کی دعوت دیتا ہے ۔ دراصل ہماری حس واقعات بہت کمزور ہے۔ہم سب کچھ تقدیر کے نام لگا کر اپنی ہر ذمہ داری سے بری الذمہ ہو جاتے ہیں۔ایران نے بھی ایک بڑی کوتاہی کی تھی۔یعنی اسرائیل سے کھلی مخالفت اور دشمنی کے ساتھ ہی ساتھ بیک وقت بھارت سے بے حدود دوستی اور قربت۔مجھے آج تک یہ بات سمجھ نہیں آسکی کہ پاکستان کے عرب ممالک کے ساتھ عموماً یک طرفہ تعلقات پر برا سا منہ بنا کر بیٹھنے والا ایران ،اپنے بھارت کے ساتھ تعلقات کی گہرائی پر غور کیوں نہیں کرتا تھا۔خیر نہ کرے ، ہمارا کیا جاتا ہے۔جاتا ہے یا جائے گا تو خود ایران کا جائے گا۔یہی حالیہ ایران اسرائیل جنگ میں بھی ہوا۔ اسرائیل بھارتیوں کی وساطت، سہولت کاری ، مدد اور بامعاوضہ تعاون کے ساتھ ایرانی سسٹم کے اندر تک اپنے جاسوس داخل کر چکا تھا۔اور جس کی وجہ سے جنگ کے پہلے ساٹھ منٹس میں ایران کے سیکیورٹی اداروں کے سربراہان ، اہم ترین ایٹمی سائنسدان اور دیگر مدبرین کو ان کے گھروں کے اندر ہی قتل کر دیا گیا تھا۔ایران کو پھر سنبھلنے میں کافی دن لگ گئے۔میں نہیں جانتا کہ ایران نے اس سے کچھ سیکھا ہے یا نہیں؟ قیاس کر سکتے ہیں کہ اگر ایران کے چاروں طرف سے بند اور حساس نظم ریاست و حکومت کے اندر اسرائیل اتنی گہرائی تک جا سکتا ہے ، جڑیں پھیلا سکتا ہے ،تو پاکستان کا حال تو ہر طرف سے کھلے بازار کی طرح کا ہے۔اگر کل کو اسرائیل اور بھارت سے مبارزے کی نوبت آ جاتی ہے تو ہمارے اداروں کے اندر دشمن کی رسائی کی کیا سطح سامنے آ سکتی ہے؟ ستم ظریف کا قیاس یہ بھی ہے کہ یہ کم و بیش بیس نکاتی فارمولہ ڈونلڈ ٹرمپ کی چار سو بیسی کی دستاویز ہے۔ اکتوبر کے اوائل میں امن کا نوبل انعام پانے کا آرزو مند ٹرمپ سب کچھ جلد از جلد کروانا چاہتا ہے ۔ہدف نہ تو غزہ کی تباہی کا خاتمہ ہے اور نہ ہی ساٹھ ہزار سے زیادہ انسانوں کے بہیمانہ قتل کے ذمہ دار اسرائیل کے لیے کسی روک ٹوک یا سزا کا اشارہ۔اصل مقصد حماس کے قبضے میں موجود یرغمالیوں کی رہائی ہے۔جونہی کسی نہ کسی طور یرغمالیوں کی رہائی مکمل ہو گئی اور جونہی نوبیل امن انعام والی کمیٹی نے اپنا فیصلہ سنا دیا، وونہی نیتن یاہو اپنے جنگی جرائم کا سلسلہ بصورت دیگر شروع کر دے گا ۔اب جب کہ حماس نے سارے احوال اور اس طرح کے معاہدوں کے مآل جانتے ہوئے بھی ،اس معاہدے کو منصفانہ شرائط اور جزوی تبدیلیوں کے ساتھ تسلیم کرنے کا عندیہ دے دیا ہے ،تو جواب میں اسرائیل نے متعدد ہوائی حملے کر کے مزید سترہ فلسطینی شہید کر دیئے ہیں۔کیا ٹرمپ اور اسرائیل پر اعتبار کیا جاسکتا ہے؟ ستم ظریف کے اس سوال کا میرے پاس کوئی جواب نہیں ہے ۔