شرمناک!

شرمناک ہی وہ لفظ ہے جس سے پاکستانی کرکٹ کے زوال کو بیان کیا جاسکتا ہے! آج، مورخہ 28 ستمبر کو، دوبئی میں ایشین کپ کے فائنل مقابلہ میں ہماری کرکٹ ٹیم جس کھیل کے بعد روایتی حریف بھارت کے خلاف میچ ہار گئی اسے شرمناک نہ کہا جائے تو اور کیا کہا جائے؟ ہمارے اوپنرز نے جس مہارت اور سرعت کے ساتھ بھارتی گیند بازوں کے چھکے چھڑائے اور جس سرعت کے ساتھ وہ بغیر کوئی وکٹ گنوائے ہوئے اسکور کو 84 رنز تک لے گئے اسے دیکھتے ہوئے ہم جیسے شائقینِ کرکٹ کو یہ امید بندھ چلی تھی کہ ہماری ٹیم بھارت کو کم از کم دو سو رنز کا ہدف دینے میں کامیاب رہے گی۔ 113 رنز تک ہمارا اسکور امید افزا تھا کہ اس وقت تک صرف ایک وکٹ ہی گری تھی لیکن اس کے بعد وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ ہمارے کھلاڑیوں نے انتہائی غیر ذمہ دارانہ کھیل کھیلتے ہوئے بھارتی گیند بازوں کو اپنے اوپر حاوی ہونے کا موقع دیا اور صرف 33 رنز کے اضافہ کے بعد، بیس اوور پورے ہونے سے پہلے ہی ہمارے تمام کھلاڑی بھارتی فیلڈرز کو کیچ پکڑنے کی پریکٹس کرواتے ہوئے پویلین کو واپس لوٹ گئے۔ 146 رنز کا ہدف بظاہر آسان تھا لیکن ہمارے گیند بازوں نے جس مہارت سے بیس رنز کے اسکور پر تین بھارتی بلے بازوں کو دھول چٹوادی اس کے بعد یہ توقع ہونے لگی تھی کہ شاید بھارت کی متکبر ٹیم اس آسان ہدف کو حاصل کرنے میں ناکام رہے گی اور پاکستان دو گذشتہ شکست کا بدلہ لے سکے گا۔ لیکن حیف کہ ہم جیسے دعا گوؤں کا یہ خواب شرمندہء تعبیر ہونے سے رہ گیا اور یوں رہا کہ اس کے بعد ہمارے گیند بازوں نے انتہائی غیر ذمہ دارانہ کھیل کھیلا اور بھارتی بلے بازوں کے نہ صرف کیچ چھوڑے بلکہ انہیں جمنے اور حاوی ہونے کا بھرپور موقع بھی دیا۔ حارث رؤف نے کوئی وکٹ لئے بغیر انتہائی گھٹیا بولنگ سے ساڑھے تین اوورز میں پچاس رنز بنوائے اور اپنی ٹیم کی شرمناک شکست کی راہ ہموار کی !
پاکستانی کرکٹ ٹیم کا یہ احوال، یہ زوال بھی قوم و ملک کے زوال سے الگ نہیں ہے۔ محسن نقوی کا نحس سایہ کرکٹ ٹیم کے ہمراہ آسیب کی طرح چمٹا ہوا اسے نقصان پہ نقصان پہنچارہا ہے لیکن کس کی مجال ہے کہ اس سامراجی گماشتہ کے آسیب سے کرکٹ کو بچاسکے۔ محسن نقوی یزیدِ وقت، عاصم منیر کا سالا ہے اور دنیا دیکھ رہی ہے کہ وہ پرانا قول کہ دنیا ایک طرف اور جورو کابھائی ایک طرف کیسے پاکستانی کرکٹ کی جڑیں کھود رہا ہے !
لیکن پاکستانی کرکٹ ٹیم کی ہار سے کہیں زیادہ شرمناک وہ رویہ تھا جو بھارت کی کرکٹ ٹیم نے
اپنی فتح کے بعد اپنایا! بھارتی ٹیم نے محسن نقوی کے ہاتھ سے اپنی جیت کی ٹرافی لینے سے انکار کردیا اور یوں دنیائے کرکٹ کی تاریخ میں یہ شرمناک باب رقم کیا کہ فتح کے باوجود فاتح ٹیم نے ٹرافی کے ساتھ جشن نہیں منایا۔ لیکن اس سے زیادہ شرمناک وہ پیغامِ تہنیت تھا جو چائے والے نریندر مودی نے اپنی ٹیم کو بھیجا اور جس میں اس شرمناک رویہ کی تعریف اور تائید کی گئی جو اس کی کرکٹ ٹیم نے اپنایا تھا! کرکٹ شرفاء کا کھیل جانا جاتا تھا اور شرفاء کا ہی کھیل تھا جب تک کرکٹ بھارتی بنیوں کی ہوس اور بھارتی چماروں کی نفرت اور پاکستان دشمنی کی اسیر نہیں ہوئی تھی! ان بھارتیوں نے کرکٹ کے کھیل میں اپنی تنگ نظری اور پاکستان دشمنی کا وہ خمیر گوندھ دیا ہے جو اب کرکٹ کے کھیل سے سرطان یا کینسر کی طرح چمٹ گیا ہے اور کرکٹ کے نام پر آئے دن کلنک کا ٹیکہ بنتا رہتا ہے۔ شرمناکی کو یوں لگتا ہے کہ جیسے پاکستان کے خود ساختہ، اپنے منہ میاں مٹھو، رہنماؤں نے اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا ہو! ایک جاہل اور بدزبان اور بد کلام شخص، خواجہ آصف نام کا، پاکستان کا وزیرِ دفاع بنا پھرتا ہے اور اسی حیثیت میں وہ کٹھ پتلی وزیرِ اعظم (جسے وزیر اعظم کہنا اس مرتبے کی کھلی توہین ہے) شہباز شریف اور دیگر حاشیہ برداروں کے ہمراہ نیویارک پہنچا ہوا تھا اور اقوامِ متحدہ میں پاکستان کی نمائندگی بھی کر رہا تھا۔
اللہ اللہ کس قماش اور کردار کے جہلاء جنہیں بات کرنے کی تمیز نہیں اور خواجہ آصف جیسے ہذیان بکنے والے جب ملک کی اس ادارہ میں جو دنیا کے ممالک کی اجتماعی تنظیم ہے، نمائندگی کرنے لگیں تو اس سے زیادہ شرم اور بے عزتی کی کیا بات ہوسکتی ہے۔ یہ بد زبان خواجہ اس دور کے سب سے بیباک صحافی، مہدی حسن کے ہتھے چڑھ گیا۔ مہدی حسن اپنے مخصوص انداز کیلئے عالمی شہرت کا حامل ہے جس میںوہ چبتھے ہوئےسوالات کے ذریعہ اپنے سامنے بیٹھے ہوئے شخص کو وہاں لے آتا ہے جہاں ایک طرف کھائی اور دوسری طرف کھڈ ہوتا ہے۔ خواجہ آصف کو گمان یہ رہا ہوگا کہ جیسے پاکستان کے لفافہ صحافی لیپا پوتی کے سوالات کرتے ہیں ویسے ہی مہدی حسن بھی اس سے سوال کرے گا لیکن مہدی حسن نے تو اپنے تند و تیز سوالات سے اس جاہل خواجہ کو دن میں تارے دکھادئیے اور اس کذب بیان کو یہ قبول کرنے پر مجبور کردیا کہ وہ دھاندلی اور طالع آزما یزیدی جرنیلوں کی سرپرستی سے اقتدار کی مسند پہ بیٹھا ہوا ہے۔
لیکن جو سفاک سچ مہدی حسن نے اس بدگفتار خواجہ کو کہنے اور ادا کرنے پہ مجبور کردیا وہ یہ تھا کہ پاکستان میں جمہوریت کے دعوے کرنے والے درحقیقت طالع آزما اور خود ساختہ فیلڈ مارشل عاصم منیر کے غلام اور تابعدار ہیں اور مرضی ٔشاہ کے خلاف چوں بھی نہیں کرسکتے! شرمناک ہے وہ ہائبرڈ نظام جو پاکستان کی جڑیں کھود رہا ہے۔ اسے ہائبرڈ یا مخلوط نظام کہنا تو در اصل منافقت ہے ورنہ اپنی اصلیت میں تو یہ وہ ظالمانہ نظامِ فسطائیت ہے جس میں ایک یزیدِ وقت کا حکم چلتا ہے اور ادارے اتنے بے بس اور مفلوج ہوچکے ہیں یا کردئیے گئے ہیں کہ وہ ایک نیم خواندہ ملت فروش کے غلام بن کے سسک رہے ہیں اور پاکستان کو جگ ہنسائی کا عنوان بناتے جارہے ہیں! اسی نظامِ فسطائیت کا سب سے شرمناک اور خون رُلانے والا پہلو یہ ہے کہ ملک کا نظامِ تعلیم اور نظامِ عدل جی ایچ کیو کے نیم خواندہ اور فرعون صفت جرنیلوں کے تابع فرمان ہوچکے ہیں اس حد تک ان اداروں کی بربادی ہوچکی ہے کہ آج پاکستان کے انگریزی زبان کے سب سے مؤقر روزنامہ ڈان کے مدیران مجبور ہوگئےکہ وہ پاکستان کے مفلوج عدالتی نظام کی تباہ کاریوں پر اداریہ لکھیں۔ ہمیں شرم آرہی ہےاپنی مادر درسگاہ، جامعہ کراچی، کی اخلاقی اور تہذیبی گراوٹ پر جس کی انتظامیہ نے چالیس سال کے بعد اپنی ہی جاری کردہ اس ڈگری کو کالعدم قرار دے دیا ہے جو اس نے چالیس سال پہلے اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس طارق محمود جہانگیری کو عطا کی تھی۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کا سربراہ، سرفراز ڈوگر ایک رسوائے زمانہ، عدل و انصاف کے نام پر بدنمائی کا داغ اور جرنیلوں کا خاکروب ہے جس نے جسٹس جہانگیری اور اپنی ہی عدالت کے دیگر چار معزز ججوں کو عتاب کا نشانہ بنایا ہوا ہے کیونکہ وہ اس کی طرح ضمیر فروش اور بے غیرت نہیں ہیں!
لیکن شرمناکی میں اس کا تو کوئی ہمسر ہو ہی نہیں سکتا جو اسکینڈل اقوامِ متحدہ کے حالیہ اور جاری اجلاس میں پاکستان کے سرکاری وفد کے حوالے سے رونما ہوا ہے۔ وہ ویڈیو وائرل ہوچکی ہے جس میں ایک خاتون، شمع جونیجو، سلامتی کونسل میں ہذیان گو خواجہ آصف کی پشت پر بیٹھی ہوئی ہے۔ یہ خاتون اسرائیلی ایجنٹ ہے اور ایک عرصے سے یہ مہم چلاتی رہی ہے کہ پاکستان کے حق میں ہوگا کہ وہ اسرائیل کو تسلیم کرلے اور اس کے ساتھ سفارتی اور دیگر تعلقات استوار کرے۔ یہ عورت شہباز شریف کے خصوصی طیارہ میں لندن سے نیویارک تک کٹھ پتلی وزیر اعظم کے ساتھ سفر کرتی ہوئی نیویارک پہنچی۔ اس کے بقول وہ وزیر اعظم کی تقاریر بھی لکھتی ہے اور ان کی مشیر بھی ہے۔اب خواجہ آصف، وہ منشی وزیرِ خارجہ اسحاق ڈار جسے وزارت خارجہ پر مسلط کیا گیا ہے کہ وہ سگِ جرنیل نواز شریف کا سمدھی ہو اور یہی اس کی سب سے بڑی لیاقت اور سند ہے، اور نیویارک میں اقوامِ متحدہ کیلئے پاکستان کا سرکاری مشن، سب جھوٹ بول رہے ہیں اور کھلی منافقت کر رہے ہیں کہ کسی کو نہیں معلوم کہ یہ عورت پاکستان کے سرکاری وفد کے ہمراہ کیسے بیٹھی اور کس نے اسے یہ سہولت مہیا کی !
اقوامِ متحدہ کے ترجمان نے وضاحت کردی اس حقِ پروٹوکول کی جس کے تحت ہر ملک کا سرکاری مشن اقوامِ متحدہ کے پاس باضابطہ لسٹ بھیجتا ہے کہ کون کون اس کے سرکاری وفد میں شامل ہوگا۔ تو چوری پکڑے جانے پر ہمارے وزراء اور سفارت کاروں کا یہ کہنا کہ انہیں معلوم نہیں کہ یہ خاتون کس طرح اور کس کے ایما پر پاکستان کے سرکاری وفد میں شامل ہوئی نہ صرف دروغ گوئی کی بدترین مثال ہے بلکہ اس کرپشن اور بدعنوانی کی بھی داستان بیان کر رہی ہے جس کا پاکستان شکار ہے اپنے فسطائیت کے نظام جبر کے ہاتھوں! صاف ظاہر ہے کہ یہ خاتون، شمع جونیجو، جس کا دعوی ہے کہ وہ بڑی دانشور بھی ہے اور سرکار کی مشیربھی ہے، کسی نہ کسی کی تو منظورِ نظر ہوگی جو اس دھڑلے سے اقوامِ متحدہ کے اجلاس میں وہاں بیٹھی ہے جہاں سرکاری وفد کے اراکین بیٹھنے کے استحقاق رکھتے ہیں! یہ ہے وہ شرمناک ، منافق پاکستان جس پر فی زمانہ ایک ایسے یزید کا حکم چلتا ہے جس کا دعوی یہ ہے کہ وہ حافظِ قرآن ہے! لیکن اس منافق حافظ نے پاکستان کو ذلت اور رسوائی کے سوا اور کچھ نہیں دیا اور اس کے ہاتھوں میں کھیلتی ہوئی کٹھ پتلیاں اور سیاسی گماشتے، شہباز، خواجہ آصف اور اسحاق ڈار جیسے، پاکستان کو اپنے افعال اور بدکرداریوں سے دنیا بھر کیلئے ایک مذاق بنانے کا شرمناک رویہ اپنائے ہوئے ہیں! وہ جو مرحوم فیض احمد فیض نے کہا تھا آج کے پاکستان کی کیسی بھرپور عکاسی کر رہا ہے:
؎بنے ہیں اہلِ ہوس مدعی بھی منصف بھی
کسے وکیل کریں کس سے منصفی چاہیں!