پاکستانیوں! فلسطین کی ریاست تسلیم کرو

تازہ اطلاعات کے مطابق، غزا میں اسرئیلی نسل کشی کی بڑھتی ہوئی رفتار اور ظالمانہ کاروایئوں کے پیش نظر ، بہت طویل بحث مباحثہ ، اور غور و خوض کرنے کےبعد برطانیہ، آسٹریلیا اور کینیڈا نے فلسطین کو ایک ریاست کے طور پر قبول کر لیا اور فرانس بھی جلد ہی اس صف میں شامل ہو جائے گا۔ اگر کوئی اس ڈیل میں شامل نہیں ہو رہا وہ ہیں57 ممالک جن میں دنیا کے 90 فیصد مسلمان بستے ہیں۔ ان سب ملکوں میںجمہوری نظام ہے یا ڈکٹیٹر شپ، یا مکس، اس سےقطع نظر، عوام کی خواہشات کو سفارتی، بڑی طاقتوں کے دبائو اور دیگر مصلحتوں کی بنا پر غزا کے مسلمانوں اور فلسطینیوں کی حالت زارپر کوئی بڑا فیصلہ نہیں کیا جا رہا۔
اس وقت دنیا میں اندازاًدو ارب سے زیادہ مسلمان ہیں۔ جن ملکوں میں مسلمان اکثریت میں ہیں، ان میں سب سے زیادہ انڈونیشیا میں ہیں۔ اس کے بعد پاکستان میں، پھر بھارت میں، بنگلہ دیش میں اور ٹرکی میں۔ وہ ممالک جن میں مسلمانوں کی اکثریت ہے، ان میں سے 57او آئی سی (Organization of Islamic Countries) کے رکن ہیں۔ ان ملکوں میں مسلمانوں کی آبادی کل مسلمانوں کی آبادی کا 90 فیصد ہے۔اس لیے او آئی سی کو مسلمانوں کا نمائندہ ادارہ کہا جا سکتا ہے۔یہ ادارہ 90 فیصد مسلمانوں کی نمائندگی کرتا ہے۔ اگر او آئی سی اپنا ہنگامی اجلاس بلا کر اس میں سب ملکوں کی طرف سے فلسطین کی ریاست کو تسلیم کرنے کا اعلان کر دے تو کیا ہو گا؟اس سے بہتر فیصلہ تو ہو نہیں سکتا۔ مگر یہ دو ارب بھیڑیں ، بزدلی کی مثال آپ ہیں۔ان کے چھوٹے چھوٹے مفادات، خوف اور مصلحتوں نے ان کو جکڑ کر رکھا ہوا ہے۔کہیں امریکہ ناراض ہو گیا تو کیا ہو گا؟ اگران کی امداد اور قرضے بند ہو گئے تو کیا ہو گا؟ بھائیو۔ ایک دفعہ اپنے میں اعتماد پیدا کرو۔ٹیپو سلطان نے کہا تھا، شیر کی ایک دن کی زندگی، گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہوتی ہے۔اگر 57ملک ڈٹ کر کھڑے ہو جائیں تو امریکہ بھی ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکے گا کیونکہ اس کے مفادات، تجارت اور بین الاقوامی ساکھ، ان ملکوں کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔وہ بیک وقت اتنے ملکوں کے ساتھ تعلقات نہیں بگاڑے گا۔ اگر بگاڑے گا تو اپنے ہی پائوں پر کلہاڑی مار لے گا۔
مسلمانوں۔ اگر اللہ پر یقین رکھتے ہو تو یہ قدم اٹھا کر دنیا کو دکھا دو کہ تم بھیڑیں نہیں ہو ، خود دار مومن ہو، جو خدا کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے۔ایک دم دنیا میں تمہاری عزت بڑھ جائے گی۔ لوگ تمہیں عزت کی نگاہ سے دیکھنا شروع کر دیں گے۔ کچھ کرو تو صحیح؟ تمہارا اتحاد دنیا کو پریشان کر دے گا۔دوست خوش ہونگے اور دشمن زیر۔اللہ نے یہ موقع دیا ہے اسے ضائع نہیں ہونے دو۔ ایک دفعہ کر جائو۔ مصلحتوں کو چھوڑ کر حق اور انصاف کا دامن پکڑ لو۔
اس وقت پاکستان کو ان ملکوں سے علیحدہ حکمت عملی نہیں بنانی چاہیے۔ اس وقت جو ملک اپنے قرضوں کی وجہ سے ، امریکہ کے آگے چوہا بنا ہوا ہےو ہ پاکستان ہے ۔ پاکستان جو بغیر کوئی بڑی امداد لیے، امریکہ کی حکمت عملی پر صاد کیے بیٹھا ہے۔ صرف اس لیے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستان کے کمانڈر انچیف کو اپنے جوتے پالش کرنے کی اجازت دی ہے۔وہ اسی اعزا زپر، ہر قومی مفاد اورعوام کی خواہش کوکو لٹانے کے لیے تیار ہیں۔پہلے زمانوں میں امریکہ بھاری امداد دے کر ایسی وفاداری پاکستان سے خریدتا تھا۔ اب امداد تو کیا، وہ ایک گھٹیا سی ڈیل میں پاکستان کی عمدہ اور قیمتی معدنیات بھی لے گا، کوڑیوں کے بھائو، اس لیے کہ ملک کا اصل حاکم یہ دینے کو تیار ہے۔اور تو اور، پاکستان کے قومی مفاد کے خلاف ، وہ افغانستان کے ساتھ ، اسرائیلیوں اور ٹرمپ کے کہنے پر ، جنگ مسلط کرنا چاہتا ہے۔ امریکن جب افغانستان سے نکلے تو ان کے پاس ایسی کوئی سہولت نہیں تھی کہ وہ بگرام کی چھاونی کو بچا سکتے۔ انہیں جان بچا کر بھاگنا تھا اور وہ بھاگ گئے۔اب ٹرمپ بہادر کوبگرام کی ضرورت کیوں پڑ گئی؟ اس لیے کہ ان کے آقا امریکی بیس سے پاکستان اور غالباً ایران پر نگرانی کر سکتے تھے اور جب ضرورت پڑے حملے بھی کروا سکتے تھے۔اس بیس کے نہ ہونے سے افغانستان پر قبضہ کا مقصد ہی فوت ہو گیا۔ اب کیا امریکہ وہ بیس لینے کے لیے دوبارہ افغانستان پر لشکر کشی کرے گا؟ یا وہ پاکستان کو ، کوئی لالچ دے کر چڑھائی کروائے گا؟ اس کے بعد اس بیس میں جو قیمتی اسلحہ پڑا ہے، وہ پاکستان کو مل جائے گا؟ لیکن کیا پاکستان اب افغانستان کے ساتھ جنگ کرے گا؟ اور کیوں؟ پاکستان بگرام سے اپنے اوپر حملے کروانا چاہتا ہے؟امید ہے کہ پاکستانی قیادت اس قسم کی خطرناک اور اندھی مہم سازی نہیں کرے گی، جس کے نتیجے میں پاکستان مصیبتوں میں پھنس جائے؟
جب تک بائیڈن کی حکومت تھی ، پاکستان کو تھوڑی بہت امدادمل جاتی تھی۔ لیکن جب سے ڈونلڈ ٹرمپ آیا ہے وہ سب امداد ختم ہو چکی ہے۔ اب ٹرمپ بہادر الٹا پاکستان کی تجارت پر ٹیرف لگا رہا ہے۔ اور چاہتا ہے کہ پاکستان اس کے لیے اپنے اعلیٰ نصب العین کو بھول کر ، ٹرمپ کی بتائی راہ پر ہنستا کھیلتا چل پڑا ہے جس کے آگے خار ہی خار اور ذلتیں ہیں۔ٹرمپ کا کہنا ہے کہ امریکہ پاکستان کو پہلے ہی بہت امداد دے چکا ہے اس لیے اب اور نہیں دے گا۔ ٹرمپ کو یہ نہیں معلوم کے امریکہ کی خاطر پاکستان نے کتنی جانیں قربان کیں۔اپنا کتنا جانی اور مالی نقصان اٹھایا، جسکی قیمت چکائی نہیں جا سکتی۔ اب پاکستان کے کمانڈر ان چیف کو بھی شرم چاہیئے، کہ وہ کس لیے پاکستان کی سلامیت اور ساکھ کو دائو پر لگوا رہا ہے۔اور بالکل مفت میں ٹرمپ کا چمچہ بنا ہوا ہے؟
یہ وقت ہے کہ سعودی عرب کی طرح پاکستان بھی اپنی خود مختار حکمت عملی اختیار کرے اور خصوصاًاسلامی دنیا کے مسائل کے حل میں پرجوش حصہ لے۔امریکہ کی وجودہ قیادت پاکستان کو ٹشو کی طرح استعمال کرے گی۔ جب کام نکل جائے گا تو اسے اسی طرح کچرے میں پھینک دے گی۔یہ جو معاہدہ پاکستان کی قیمتی معدنیات کا کیا گیا ہے ، یہ پاکستان کی معدنی دولت کو چند ٹکوں کی خاطر بیچا گیا ہے جو حقیقت میں سرمایہ کاری بھی نہیں۔ اس کا سہرا اپنے سر لینے کے لیے کمانڈر ان چیف نے یہ سودا کروایا۔کیا خوب کسی نے کہا: ما را فروختند وچہ ارزان فروختند۔ہمارے چیف صاحب ابھی تک ملک میں سرمایہ کاری تو نہیں کروا سکے۔ بلکہ جو کچھ بڑی کمپنیوں نے سرمایہ کاری کی تھی وہ بھی بوریہ بستر اٹھا کر چلے گئے۔اب جو سودا کیا بھی تو وہ گھاٹے کا ہی کیا۔ اسے سرمایہ کاری تو نہیں کہہ سکتے، یہ تو سیدھا سیدھا سودا نظر آتا ہے۔
پاکستان، جو اس وقت دنیا میں اکیلا مسلمان ملک ہے جس کے پاس یٹمی ہتھیار ہیں، اور سات لاکھ کی کہنہ مشق فوج ہے۔ایک فضائیہ ہے جو چابکدست اور جنگ آزمودہ ہے۔اس سے اسرائیل کو بھی خوف آتا ہے۔ اسی لیے وہ بھارت کے ساتھ مل کر پاکستان پر حملے کرنا چاہتا ہے اگرچہ بھارت اور اسرائیل میں کوئی قدر مشترک نہیں ہے۔صرف ایک مقصد ہے دونوں کا۔پاکستان کے ایٹمی ہتھیار تباہ کر دیں۔اگر یہ ہتھیار ختم ہو گئے تو پاکستان بھارت کے سامنے گھٹنے ٹیک دے گا۔ اور آیندہ سے پاکستان کی حکومت بجائے واشنگٹن کے، دہلی سے بنا کرے گی۔کیسے رہے گا؟البتہ اس کے دو واضح نقصانات پاکستان کی عسکری قوت کو ہونگے۔پہلا یہ کہ بھارت اپنی مرضی کے سپہ سالار لگائے گا جو اس کے اشاروں پر چلے اور دوم وہ صنعتی بادشاہت ختم ہو جائے گی جس پر عسکری محل کھڑے ہیں۔ غالباً یہ دونوں شکلیں موجودہ سپہ سالار کو پسند نہیں آئیں گی اس لیے وہ اسرائیل اور بھارت کے گٹھ جوڑ کا کامیاب نہیں ہونے دے گا۔بالکل جیسے قطر پر۔ اسرائیل نے کہا کہ انہوں نے ٹرمپ کو خبردار کر دیا تھا قطر پر حملہ کرنے سے پہلے۔ ٹرمپ نے جھوٹ بولا۔ نہیں، مجھے تو کسی نے نہیں بتایا۔اور یہی وجہ ہے کہ سعودی حکومت نے امریکہ کی امداد پر بھروسہ نہیں کیا اور پاکستان سے معاہدہ کر لیا۔پاکستان کو بھی ہوش کے ناخن لینے چاہیئں۔
اگر دنیا کے 57 ملک بیک وقت فلسطین کی ریاست کو تسلیم کر لیں گے تو اس سے بہت سے ملک جو تذبذب میں ہیں، وہ بھی شامل ہو جائیں گے۔جتنے ملک سوویٹ بلاک میں ہیں، وہ بھی شامل ہو سکتے ہیں۔ اگر دنیا کے اکثر ممالک فلسطین کو ریاست تسلیم کرنے کے لیے تیار ہو نگے تو اسرئیل پر اتنا دبائو پڑے گا کہ وہ اس کے خلاف قدم اٹھانے سے رک سکتا ہے۔ اگر اس اتحاد کے ساتھ ان ملکوں نے اقتصادی بائیکاٹ شامل کر دیا تو یہ دبائو نا قابل برداشت بن سکتا ہے۔اور اسرئیلی عوام اس سے تنگ آکر اپنے جلاد وزیر اعظم کو عہدہ چھوڑنے پر مجبور کر سکتے ہیں۔وہ جانتے ہیں کہ اس وزیر اعظم نے یہودیوں اور اسرئیلیوں کی ساکھ کو نا قابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔
پاکستان، اپنی مجبوریوں کی وجہ سے اگر فلسطینیوں کا ساتھ نہیں دیتا، کوئی بہانہ بناتا ہے، تو اسلامی برادری میں اس کی کیا اوقات رہے گی؟ خصوصاً اگر باقی سب ممالک فلسطین کو تسلیم کرنے کا اعلان کر دیں۔کیا یہ موقع نہیں کہ پاکستان اسلامی برادری کا ساتھ دے خواہ اس کو فلسطینیوں سے کوئی شکایتیںبھی ہوں۔یا پاکستان، مفت میں ٹرمپ کی جوتیاں چاٹے گا، اور اس کا غلام بنا رہے گا؟ یہ یاد رکھیں کہ پاکستان کتنی بھی جوتیاں چاٹ لے، ٹرمپ نے بھارت اور اسرائیل کا حملہ نہیں رکوانا۔ یہ بات طے شدہ ہے۔اور یہ بھی طے شدہ ہے کہ ٹرمپ وہی کرتا ہے جس کا حکم نیتن یاہو دیتا ہے۔ اس کی اپنی مرضی بہت کم ہے، کم از کم مشرق وسطیٰ کے معاملات پر، جن میں پاکستان بھی شامل ہے۔ابھی سعودی عرب اور پاکستان کے معاہدے سے جو امریکہ اور اسرائیل کو دھچکا لگا ہے اس کے اثرات آنے ہیں۔زیادہ زور ، براستہ فیلڈ مارشل ، پاکستان پر آئے گا۔ اور پاکستان اس کے دبائو میں ہر کام کرنے کو تیار ہو گا، وہ جو اسے نہیں بھی کرنا چاہے۔بس دیکھتے جائیں۔
فرض کیجیے، پاکستان امریکہ کا حکم نہیں مانتا۔ تو امریکہ کیا کرے گا؟ پاکستان کو مزید قرضے نہیں ملیں گے؟ اس پر پابندیاں لگ سکتی ہیں۔ اس کی امریکہ کے ساتھ تجارت پر پابندیاں لگ سکتی ہیں۔ پاکستان کو اس کے فضائی بیڑے کے لیے جن پارٹس کی ضرورت پڑتی ہے وہ نہیں ملیں گے؟ان میں سے کوئی بھی ایسا نقصان نہیں ہے جو پاکستانی اپنی محنت، اور جرأت سے پورا نہیں کر سکتے۔ اب تو سعودیہ اور چین بھی اس کے ساتھ ہیں۔ لیکن جسے کہتے ہیں، پنجابی میں: کبے نوں لت کاری آ گئی، والی مثال بن سکتی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ امریکہ کی ناراضگی میں پاکستان کی با عزت بحالی چھپی ہو۔ اگر پاکستان سینہ سپر نہ ہوا تو اس کی وجہ اس کا وزیر اعظم اور سپہ سالار ہو نگے۔ دونوں کو بدلنا پڑے گا۔ یہ پاکستان کی بہتری، خوشحالی اور وقار کی بحالی کی شروعات ہوںگی۔
اسرئیلی مشیروں نے ٹرمپ کو یقین دلا دیا ہے کہ وہ ان کے مشورے پر چلے گا تو اس کا ایک دھیلہ نہیں خرچ ہو گا، بلکہ ٹیرف کے ذریعے آمدن ہی آمدن ہو گی۔پاکستان کو خوش کرنا ہے تو بھارت کو ذرا آنکھیں دکھائو۔ پاکستان سے ذرا کم ٹیرف لو۔ وہ اسی میں تمہارے ساتھ ہو جائیں گے۔اور بالکل اسی طرح ہو رہا ہے۔وزیر اعظم ٹرمپ کے آگے بچھے جا رہے ہیں۔