0

بھٹّو شہید!

اپنے ایک عزیز دوست سے پوچھا آپ کسی عالم دین کو بہت احترام سے اپنے گھر آنے کی دعوت دینگے، میرا منہ تکنے لگے، میں ہنس دیا، میں نے استفسار کیا کہ پاکستان کے کس سیاست دان کو یہ اعزاز دینا چاہیں گے، سر کھجایا، مسکرائے سوچا اور پھر فرمایا سہروردی یا شاید بھٹو میں خاموش ہو گیا، تنہائی میں سوچا اور مکرر سوچا، بلاشبہ سہر وردی پایۂ کے سیاست دان تھے مگر انکو کام کرنے کا موقع نہ ملا، سو ان کے بارے میں ساری باتیں امکانی ہیں، ہاں بھٹو کے بارے میں بات کی جا سکتی ہے، ذوالفقار علی بھٹو سر شاہنواز بھٹو کے صاحب زادے تھے شاہ نواز بھٹو کی ایک لمبی کہانی ہے جو اس خاندان کی طاقت ، فراست، اور بے مثال سیاسی فہم سے جڑی ہوئی ہے، بھٹو خاندان کی سندھ کے دیگر وڈیروں سے رقابت رہی تو ایسے قلم بھی میسر آئے جنہوں نے ایک متنازع تاریخ لکھی، مگر تاریخ کی سچائی کو پرکھنے کے جدید ضوابط ہیں اس پیمانے پر کسی بھی تاریخ کو پر کھا جا سکتا ہے، کہنے کو تو ایک نواب کی فرمائش پر تاریخ فرشتہ بھی لکھی گئی اور مورخ نے مضحکہ خیز طور پر تاریخ آدم سے شروع کر دی، مگر یہ بھی ہے کہ مسلمان تاریخ فرشتہ کو عقیدت سے پڑھتے ہیں اور اس پر ایمان بھی رکھتے ہیں، اور دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ علی گڑھ یونی ورسٹی کے وائس چانسلر حشمت حبیب کی لکھی تاریخ سے مسلمان واقف بھی نہیں ہونا چاہتے ، یہی حال ڈاکٹر منظور علی کی کتب کا ہے ڈاکٹر مبارک بھی اسی زُمرے میں آتے ہیں، ان تواریخ کے بارے میں علمائے نے جو کچھ کہہ دیا وہی سچ مانا گیا، یہ پچھلی صدی کا سب سے بڑا جھوٹ تھا کہ پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ مگر اب اس کو کیا کہیے کہ نظریہ پاکستان کی بنیاد بھی یہی جھوٹ بن گیا، ساری مذہبی جماعتیں بھی اسی جھوٹ پر یقین رکھتی ہیں، عمران نے اسی جھوٹ کی بنیاد پر اپنی سیاست استوار کی، علماء اگر اس جھوٹ کو جھوٹ تسلیم کر لیں تو ان کی ساری سیاست دھڑام سے گر جائیگی پھر ماننا پڑے گا کہ پاکستان کے بننے کی بنیاد سیکیولرزم ہے نہ کہ 1947 کے بعد ایجاد ہونے والا سیاسی اسلام جس نے ملک کی جڑیں کھوکھلی کر دیں، مولوی منہ چھپاتے پھر رہے ہیں اور آسمانوں سے رزق نہیں اتر رہا، آس لگائے بیٹھے تھے من و سلوا کی ذوالفقار علی بھٹو کی ذہانت ، فطانت، علم اور سیاسی بصیرت سے کون منکر ہو سکتا ہے وہ اپنے وقت کا بہت بڑا ORATOR تھا اس کا ہاتھ قوم کی نبض پر تھا، بھٹو خاندان کی دلیری کی کہانیاں بھی مشہور ہیں ، بہت نامساعد حالات میں بھی اس خاندان نے وقار قائم رکھا، اور ذولفقار بھٹو میں بھی یہ دلیری بدرجہ اتم تھی مگر سیاست میں کسی سیاست دان کو پرکھنے کے الگ انداز ہیں یہ دیکھا جاتا ہے کہ سیاست دان میں اقتدار میں آکر قوم کو کیا دیا، دنیا بھر کا طریقہ تو یہی ہے کہ ملک کا میڈیا VIGILANT ہوتا ہے ادارے مستعد، نظام متحرک اور ہر فرد جواب دہ، عوام اپنے حقوق سے آشنا، تو لیڈر پابند ہو جاتا ہے کہ وہ اپنے منشورپر عمل پیرا ہو، بھٹو اسکندر مرزا کی کابینہ میں بھی وزیر تھے ایوب خان کے دور میں ان کو بہت EXOSURE ملا، اور پھر 1965 کی جنگ کے وہ ہیرو بن گئے، بحیثیت وزیر خارجہ بھٹو کی بہت پذیرائی ہوئی مگر اس سے پہلے کی سیاسی ACCOMPLISHMENTS کے بارے میں ہمیں کچھ پتہ نہیں، اس زمانے میں جسکو اُردو لکھنی آتی تھی، اُردو فاضل تھا یا اردو ادیب تھا کالم نگار بن گیا تھا اس کو پتہ ہی نہ تھا کہ سیاست کیا ہوتی ہے وزارت خارجہ کیا کام کرتے ہے بین الاقوامی امور کیا ہوتے ہیں ان کی نزاکت کیا ہوتی ہے، میرے خیال میں 1947 سے لے کر 1960 تک کے کالم نگاروں کے نام بھی کسی کو یاد نہیں ہونگے ، بہر حال مجھے بھٹو کی وہ تقریر یاد ہے جو انہوں نے 1965 کی جنگ کے دوران اقوامِ متحدہ میں کی تھی، وہ خاصی IMPRESSIVE تھی، پھر پاکستان کو چین سے قریب لانے کا مشورہ مگر یہ مشورہ کلیتاً بھٹو کے خانے میں نہیں ڈالا جا سکتا، یہ درست ہے کہ ہم نے تاشقند میں جیتی ہوئی جنگ میز پر ہار دی جس پر بھٹو ناراض تھے مگر سوال یہ بھی ہے کہ 65 کی جنگ جیتی بھی تھی یا نہیں، مگر اتنا ضرور ہے کہ تاشقند معاہدے کے بعد بھٹو کو بہت زیادہ سیاسی فراز نصیب ہوا، اس وقت کی نوجوان نسل جس کو سوشلزم سے کچھ زیادہ واقفیت نہ تھی سوشلزم کے خوبصورت نعرے سے سحر زدہ تھے بھٹو کے اس نعرے کو قبولیت اس وجہ سے بھی ملی کہ قومی سطح پر سقوط ڈھاکہ سے پہلے اور بعد فوج کے اطوار اور اس شکست پر بہت کچھ لکھا گیا تھا، سقوط کے بعد فوج بہت دباؤ میں تھی اس لئے بھٹو کو 313 افسران کو نکالنے کا موقع مل گیا جن میں کچھ جز لز بھی تھے ، جب بھٹو کی طرف سے دباؤ بڑھا تو پھر جنرل عبد الرحمن اور جنرل رحیم کو وار ننگ دینی پڑی اس کے بعد بھٹو کا لہجہ تبدیل ہوا اقتدار میں آنے کے بعد بھٹو اپنا کوئی وعدہ وفا نہ کر سکے ، کچھ مغربی تجزیہ کاروں نے لکھا تھا کہ اسلامی سوشلزم ایک دھوکہ ہے جمہوریت ہماری سیاست، سوشلزم ہماری معیشت اور اور اسلام ہمارا دین ہے وہ ملغوبہ تھا جو عوام کو دھوکہ دینے کے لئے بنایا گیا تھا، اور کچھ بھی قابل عمل نہ تھا عوام کے مذہبی رجحان کو دیکھتے ہوئے بھٹو کو اقتدار میں آنے کے لئے سمجھوتے کرنے پڑے، یہ بھی کہا گیا کہ 1970 کے الیکشن میں ایک خاص سیاسی ARRANGEMENT تھا کہ مغربی پاکستان میں بھٹو کو فتح یاب کرایا جائے اور مشرقی پاکستان میں مجیب کو اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ بھٹو نے کہا تھا جو سیاست دان اسمبلی کے اجلاس کے لئے مشرقی پاکستان جائینگے ان کی ٹانگیں توڑ دی جائیں گی، تجزیہ کار لکھتے ہیں کہ اس بیان کے بعد ہی مشرقی پاکستان سے علیحدگی کا فیصلہ کر لیا گیا تھا، ایک کالم نگار اطہر عباس جن کا جملہ کہ ’’اِدھر ہم اُدھر تم ‘‘جو ہیڈ لائین بنا، وہ بہت بعد کی بات کسی نے کہا ہے کہ کوئی لیڈر کتنا ہی جمہوریت پرست کیوں نہ ہو اس کو اقتدار ملتا ہے تو وہ آمر بن جاتا ہے یہ بات بھٹو پر صادق آتی ہے، بھٹو نے تعصب سے لبریز آئین دیا جو اپنے شہریوں کے ایمان درست کرتا ہے، ایک سوشلسٹ ذہن رکھنے والے نے ملک کا اقتدار اعلیٰ خدا کے حوالے کر دیا، اور پابند کر دیا کہ کوئی قانون سازی قرآن و سنت کے خلاف نہ ہوگی،الطاف گوہر نے کہا تھا کہ یہ آئین بھٹو کا نہیں یہ تو پروفیسر غفور اور نورانی کا آئین ہے، بھٹو کا معاشی پروگرام ملک کے لئے بہت مہلک تھا پوری انڈسٹری بیٹھ گئی قومیانے کی پالیسی نے سرمایہ دار کو ملک چھوڑنے پر مجبور کر دیا، تعلیم صحت اور HUMAN DEVELOPEMENT پر کوئی کام نہیں ہوا بہت فخر سے پڑھے لکھے لوگوں کو بیرون ملک جانے کی حوصلہ افزائی ہوئی، اسے BRAIN DRAIN کا نام دیا گیا، اس کا مقصد یہ تھا کہ ملک میں سرمایہ دار اور وڈیرے کے درمیان مسابقت ختم ہو اور وڈیرہ شاہی کی اجارہ داری ہو ، یہ مقاصد حاصل کر لئے گئے، بھٹو اگر چاہتا تو وہ سوشلزم نافذ کر سکتا تھا، مذاق یہ تھا کہ مغربی پاکستان کی چاروں اسمبلیوں میں سوشلسٹ کامیاب ہوئے اور یہ آپس میں لڑ پڑے بلوچستان میں بغاوت کی صورت پیدا ہو گئی، یہ وہ لوگ تھے جن کو منتخب کرکے عوام نے اسمبلیوں میں بھیجا تھا ان لوگوں نے ایک زہر آلود آئین دیا جس نے قوم کی ترقی کے پیروں میں بیٹریاں ڈال دیں، جس کا خمیازہ آج تک قوم بھگت رہی ہے، یہ بہت شرمناک تھا، بھٹو بہت ذہین تھے مگر افغانستان کے حکمت یار خان کو پاکستان میں پناہ دے کر یہ اشارہ دیا گیا کہ افغانیوں کو افغان حکومت کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے اس اشارے کو بعد میں امریکہ نے استعمال کیا اور نام نہاد افغان جہاد بر پا ہوا ،ان ساری باتوں سے قطع نظر اگر بھٹو معاشی طور پر پاکستان کو مستحکم کر جاتے تو یہ قوم پر احسان ہوتا مگر وہ ہندوستان سے ہزار سال تک لڑنے کی باتیں کرتے رہے، پاکستان کی سپریم کورٹ نے چند روزپہلے یہ فیصلہ دیا کہ بھٹو کا ٹرائل درست نہ تھا مگر فیصلہ REVERT نہیں کیا، یقیناً یہ ایک جوڈیشل قتل تھا مگر قوم کا جو سماجی، سیاسی، معاشی اور علمی قتل ہوا اس کی ذمہ داری کس پر ؟

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں