80 برسوں میں بعض اوقات اقوام متحدہ نے اپنے اصلی مینڈیٹ سے ہٹ کر کام کیا:ڈوروتھی شئے

سب کو شام کا سلام اور خوش آمدید! آئیں ہم سب مل کر “ویسٹ پوائنٹ بینی ہیونز بینڈ” لطف اندوز ہوتے ہیں!شام کا سلام۔ جنرل اسمبلی کی صدر بیرباک، انڈر سیکرٹریز جنرل، اسسٹنٹ سیکرٹریز جنرل، فضیلت مآب حضرات، معزز مہمانانِ گرامی، اور دوستو، خوش آمدید!مجھے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 80ویں اجلاس کی تیاری کے لیے آپ کی یہاں موجودگی پر دلی خوشی ہو رہی ہے۔ یہ ایک ایسا سنگ میل ہے جو ہمیں اقوام متحدہ کے بانی اصولوں اور اِس کے مستقبل کی راہ تعین کرنے پر غور و فکر کرنے کی دعوت دیتا ہے۔امریکہ ایک ایسا واضح تصور لیے اِس اجلاس کے لیے تیار ہے جس کی بنیاد امن، خود مختاری، اور آزادی ہیں۔ یہ اصول نہ صرف اقوام متحدہ کی بنیاد ہیں بلکہ یہ ایک مستحکم، محفوظ، اور خوشحال دنیا کی بنیاد بھی ہیں۔ اقوام متحدہ کے بانی رکن کی حیثیت سے امریکہ طویل عرصے سے اِس ادارے کا پُرزور حامی چلا آ رہا ہے۔ہم نے سفارت کاری، عالمگیر تعاون، اور فنڈنگ میں قائدانہ کردار ادا کیا ہے اور ہم اقوام متحدہ کے ایک ایسے بنیادی ادارے کے لیے کام کرنے کا عزم کیے ہوئے ہیں جس میں خودمختار حکوتیں بین الاقوامی چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے مِل کر کام کریں۔ تاہم ہمیں اِس امر کو تسلیم کرنا ہوگا کہ گزشتہ 80 برسوں میں بعض اوقات اقوام متحدہ نے اپنے اصلی مینڈیٹ سے ہٹ کر کام کیا ہے۔یہ وقت جرائتمندانہ اصلاحات کا ہے۔ اقوام متحدہ کو اپنے بنیادی مقاصد کی طرف لوٹنا ہوگا جن میں اہم ترین مقصد بین الاقوامی امن اور سلامتی کو برقرار رکھنا ہے۔ اسے ہر حال میں پہلے سے زیادہ اہلیت کا مظاہرہ کرنے کے ساتھ ساتھ زیادہ موثر اور اُن رکن ممالک کو جوابدہ بھی ہونا ہوگا جن کی یہ ادارہ خدمت کرتا ہے۔ امریکہ یہ اصلاحات متعارف کرانے میں پرعزم ہے اور ہم آپ سب کو اِس کوشش میں شریک ہونے کی دعوت دیتے ہیں۔ہمارے ایجنڈے کی تین بنیادی ترجیحات کے بارے میں، میں چند ایک الفاظ کہنے کی اجازت چاہتی ہوں۔پہلے، اقوام متحدہ کا وجود کا مقصد امن کو برقرار رکھنا اور تصادم کو روکنا ہے۔ یہ مشن آج بھی اتنا ہی اہم ہے جتنا کہ یہ 1945 میں تھا۔ اِس مقصد کو حاصل کرنے کی خاطر سیکرٹری جنرل کو تصادموں کو ختم کرنے کے لیے اپنے تمام وسائل و اختیارات کو بروئے کار لانا ہوگا۔امن کے قیام کے مشنوں کو ہر حال میں شفاف، جوابدہ، اور نتیجہ خیز ہونا چاہیے۔ اِن کے مقاصد واضح، پیشرفتیں ٹھوس، اور وسائل کی تقسیم ذمہ دارانہ ہونا چاہئیں۔دوسرے، امریکہ اِس بات پر پختہ یقین رکھتا ہے کہ دنیا کے ممالک کی خودمختاری کو بین الاقوامی نظام میں اساسی حیثیت حاصل ہے۔ اقوام متحدہ کو ہر حال میں رکن ممالک کی آزادی کا احترام کرنا چاہیے اور پیچیدہ قواعد اور پالیسیاں مسلط کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔ خودمختاری تعاون کے راہ میں رکاوٹ نہیں ہوتی۔ بلکہ یہ وہ بنیاد ہے جس پر باہم مل کر کام کرنے کی عمارت تعمیر کی جاتی ہے۔