ٹرمپ انتظامیہ کا غیر ملکی طلبہ کے ویزا کے غلط استعمال کو ختم کرنے کیلئے نیا قانون تجویز

ٹرمپ انتظامیہ نے ایک مجوزہ قانون کا اعلان کیا جو حتمی شکل دیے جانے کی صورت میں بعض ویزا حاصل کرنے والوں بشمول غیر ملکی طلبہ کے امریکہ میں قیام کے عرصے کو محدود کر دے گا۔ اس کا مقصد ویزا کے غلط استعمال کو روکنا اور ہوم لینڈ سیکیورٹی کے محکمے کی نگرانی کی صلاحیت کو بہتر بنانا ہے۔بہت عرصے تک سابقہ انتظامیہ نے غیر ملکی طلبہ اور دیگر ویزا حاصل کرنے والوں کو تقریباً غیر معینہ مدت تک امریکہ میں رہنے کی اجازت دی، جس سے سیکیورٹی خطرات پیدا ہوئے، ٹیکس دہندگان کے اربوں ڈالر ضائع ہوئے اور امریکی شہریوں کو نقصان پہنچا۔ یہ نیا مجوزہ قانون اس غلط استعمال کو ہمیشہ کے لیے ختم کر دے گا اور ویزا حاصل کرنے والوں کے قیام کی مدت کو محدود کر کے وفاقی حکومت پر غير ملکی طلباء اور ان کے ماضی کے حوالے سےنگرانی کا بوجھ کم کرے گا۔سال 1978 سے غیر ملکی طلبہ (ایف ویزا ہولڈرز) کو امریکہ میں ایک غیر معینہ مدت کے لیے داخلہ دیا جاتا رہا ہے جسے “دورانیہ حیثیت” (Duration of Status) کہا جاتا ہے۔ دیگر ویزوں کے برعکس، اس حیثیت کے تحت آنے والوں کو بغیر کسی اضافی جانچ کے غیر معینہ مدت تک قیام کی اجازت دی جاتی رہی ہے۔اس سہولت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے غیر ملکی طلبہ “ہمیشہ کے ليے طلبہ” بن گئے، جو صرف امریکہ میں رہنے کے لیے تعلیم کے اعلی کورسز میں بار بار داخلے لیتے رہے۔صدر ٹرمپ کے مجوزہ قانون کے تحت، وفاقی حکومت غیر ملکی طلبہ اور تبادلہ پروگرام میں شامل افراد کے داخلے اور توسیعی مدت کو ان کے پروگرام کی معیاد تک محدود کرے گی، جو زیادہ سے زیادہ 4 سال ہوگی۔ غیر ملکی میڈیا نمائندوں کے لیے ابتدائی داخلے کی مدت 240 دن تک ہوگی۔ انہیں مزید 240 دن کی توسیع مل سکتی ہے لیکن یہ ان کی عارضی سرگرمی یا ذمہ داری کی مدت سے زیادہ نہیں ہو گی۔مزید برآں، غیر ملکی طلبہ، تبادلہ پروگرام اور میڈیا نمائندوں کے ویزے کو مقررہ مدت کے لیے محدود کرنے سے یہ افراد امریکہ میں قیام کی توسیع کے لیے یو ایس سی آئی ایس (USCIS) سے اجازت حاصل کرنے کے پابند ہوں گے۔ اس طرح ڈی ایچ ایس ان کی باقاعدہ جانچ کرے گا تاکہ غير ملکيوں کے طویل قیام کی منظوری دی جا سکے۔یہ اقدام ڈی ایچ ایس کو SEVP اور SEVIS کے تحت مؤثر نگرانی کرنے، معلومات تک رسائی بہتر بنانے اور ویزا حاصل کرنے والوں کی تعداد کم کرنے میں مدد دے گا۔یہ مجوزہ قانون پہلی بار صدر ٹرمپ نے 2020 میں پیش کیا تھا لیکن 2021 میں بائیڈن انتظامیہ نے اسے واپس لے لیا، جس سے امریکی شہریوں اور ٹیکس دہندگان کو نقصان پہنچا۔