دریا راستہ نہیں بھولتا!

عمر کا ابتدائی زمانہ راولپنڈی میں گزرا، ابتدائی تعلیم بھی وہیں پائی،اس زمانے میں لیاقت باغ راجہ بازار اور راولپنڈی کی جامع مسجد ہمارے لئے بڑی ATTRACTIONS تھیں، لیاقت باغ میں کرکٹ میچ ہوا کرتے تھے ، کئی چھوٹے گراؤنڈ بچوں کے کھیلنے کے لئے تھے ، ایک بڑی نرسری، اور خوبصورت لان، لیاقت باغ تک رسائی بچپن میں ممکن نہ تھی البتہ ہائی اسکول میں پابندیاں نرم ہو گئیں تھیں، کبھی کبھی چوری چھپے یہ حدود خود بھی توڑیں، ایک بار راولپنڈی میں بہت بارش ہوئی دوستوں نے بتایا نالا لئی میں بہت پانی ہے، بہت EXCITEMANTہوا بارش میں چوری چھپے نالہ لئی دیکھنے چلا گیا،بہتے ہوئے پانی کو دیکھنا بہت پر لطف ہوتا ہے، موجوں کا زیر و بم، لہروں کا مچلنا، اور نالہ لئی جو عام طور پر تقریباً سوکھا رہتا تھا اس وقت اپنے جو بن پر تھا، مختلف زاویوں سے اس کا نظارہ کیا ایک جگہ پاؤں پھسلا اور ہم بلندی سے نالہ لئی میں گر گئے، تیر نا آتا نہیں تھا مگر کچھ لوگ نالے میں کود گئے اور ہماری جان بچ گئی مگر دل میں خوف بیٹھ گیا مگر ایسا نہیں ہوا کہ دریا یا سمندر کی FASCINATION کم ہو گئی ہو ، اس زمانے میں پاکستان متحد تھا مشرقی پاکستان میں مون سون کے موسم میں سیلاب کی خبریں آتی تھیں نقصانات کی خبریں، انسانی جانوں کے ضیاع کی خبریں، ریڈیو دو چار سطروں میں سیلاب کی بات ختم کر دیتا تھا مگر اخبارات میں قدرے تفضیل ہوتی تھی مجھے نہیں یاد کہ مشرقی پاکستان میں سیلاب کی کبھی شہہ سرخی لگی ہو جب سیلاب میں انسانی جانوں کے ضیاع کی خبریں ملتیں تو اپنا تجربہ یاد آ جاتا، سوچتا کہ جب پانی کا MAGNITUDE زیادہ ہوتا ہوگا تو ڈوبنے والے پر کیا گزرتی ہوگی اس وقت تو RESCUE کے کوئی ادارے بھی نہ تھے ، 1988 کا سیلاب آیا تھا تو دل کانپ گیا اور پھر 2019 کا سیلاب، ایک بچے کی لاش پانی میںبہتے دیکھی تو کلیجہ کٹ گیا، کچھ لوگ مدد مانگتے مانگتے موت کے منہ میں چلے گئے ، ان کا تو ماتم بھی نہ ہو سکا، کچھ بہہ جانے والوں کے لواحقین کا علم بھی بہت دیر سے ہوا، میں اپنے گھر میں ایک فرد کی کمی کو اب تک رو رہا ہوں جن کے خاندان کے کئی چلے گئے ان پر کیا گزری ہو گی ، دعا کے لئے ہاتھ اٹھیں بھی تو کس لئے ؟ پاکستان کو موسمیاتی تبدیلیوں کی خبر بہت پہلے سے تھی 2022 کا سیلاب آیا تھا تو اس وقت کہا گیا تھا کہ بڑے ممالک نے عالمی طور پر بے تحاشا کیمیائی عمل سے دنیا کے موسم پر اثرات ڈالے ہیں اور اس عمل میں پاکستان کا حصہ بہت کم ہے اور پاکستان بڑے ممالک کی پالیسیوں کی وجہ سے گرداب میں ہے عالمی طور پر پاکستان کی مدد کے لئے بہت سی PLEDGES بھی کی گئیں مگر وعدے ایفا نہ ہو سکے اس کی کچھ وجوہات بھی ہیں 19 COVID کے بعد تقریباً ہر ملک کی معیشت کمزور ہوئی لہٰذا وعدے پورے نہ کئے جاسکے ، یہ بات نہیں بھولنی چاہیئے کہ پاکستان ایک غریب ہے اور IMF کے قرض پر چل رہا ہے حکومت کو سیاسی استحکام مل نہیں سکا حکومت بقول خواجہ آصف ایک ARRANGEMENT کے تحت بنائی گئی ہے عمران IRRELEVENT کبھی ہوا ہی نہیں ملک کے دو صوبے حالت جنگ میں ہیں چاہے کتنے ہی بیرون ملک دورے کر لیں کتنے ہی غیر ملکی صدرو اور اعلیٰ شخصیات کو پاکستان کے دورے کروائیں آرمی چیف کتنی ہی ضمانتیں کیوں نہ دیں ملک میں نہ تو صنعت کا پہیہ نہیں چل رہا اور بد امنی کی وجہ سے بیرونی سرمایہ کاری نہیں آرہی، ٹیکس لگا لگا کر آئی ایم ایف کے اہداف تو پورے کر لئے مگر ترقیاتی منصوبوں پر کام نہیں ہو سکا، جو ڈیم بننے تھے وہ نہ بن سکے دہشت گردوں نے ڈیم پر کام کرنے والے چینی ماہرین کو مار دیااب چینی ENGINEERS پاکستان نہیں آنا چاہتے ، اس تمام صورتِ حال کے ذمہ دار کسی حد تک عمران اور ان کے بیانات ہیں جس کی وجہ سے معیشت STAND STILL پر ہے، لہٰذا وہ کام نہیں ہو سکے جو ہونا چاہیئے تھے ، موسمیاتی تبدیلیوں پر کیا کام ہونا چاہیئے تھا یہ ایک تکنیکی بات ہے اس کا حل موسمیاتی امور کے ماہرین ہی دے سکتے ہیں، ہم اتنا ہی بتا سکتے ہیں کی حکومت کی توجہ پاکستان کو موسمیاتی تبدیلیوں کی تباہ کاریوں سے بچانے پر مرکوز نہ ہو سکی، وزیر اعظم اور دیگر وزراء کے بیرونی دوروں پر مجھے بہت تحفظات ہیں جن کے خاطر خواہ نتائج بر آمد نہیں ہو رہے، ایک پریس ریلیز تیار کر رکھی ہے کہ دو طرفہ تعلقات مضبوط کرنے پر بات چیت ہوئی ہمیں یہ بھی پتہ نہیں چلتا کہ جو درجنوں MIUS سائن ہوتے ہیں ان کی نوعیت کیا ہوتی ہے اور نہ یہ پتہ چلتا ہے کہ ان پر عمل در آمد کتنا ہوتا ہےسیلاب نے پورے پاکستان کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے، پہلے بارشوں اور CLOUD BURST نے بونیر، سوات اور مالاکنڈ میں تباہی مچائی پورے پورے دیہات تباہ ہو گئے پانی کے ریلے میںپہاڑوں سے بڑے بڑے پتھر گھروں کو تباہ کرتے چلے گئے، کچھ خاندانوں کے تمام افراد اس عفریت کا شکار ہو گئے ، لوگ بے یار و مددگار رہے حکومتی امداد پہنچ نہ سکی، حامد میر اور عاصمہ شیرازی نے بونیر کی حالت زار دکھائی حامد میر نے دکھایا کہ پہاڑوں پر سارے جنگلات کاٹ دئے گئے اور پہاڑوں سے قیمتی پتھر بھی کاٹ لئے گئے جس نے پانی کے بہاؤ کو بہت خطرناک بنا دیا، ابھی یہ پانی پنجاب میں داخل بھی نہ ہوا تھا کہ بھارت نے راوی، ستلج اور جہلم کے دریاؤس میں پانی چھوڑ دیا اس کی اطلاع بھی سفارتی طور پر دی گئی بھارت میں بھی بے تحاشا بارشیں ہوئیں اور ان بارشوں نے بھارت میں بھی بے تحاشا تباہی مچائی اس پانی نے آنا فانا پنجاب کو اپنی لپیٹ میں لے لیا بڑے ریلے گاؤں اور شہروں میں داخل ہو گئے اور بستیاں پانی میں ڈوب گئیں NDMNA صرف یہ بتاتا رہا کہ کس جگہ سے کتنے کیوسک پانی گزرے گا، عام افراد کو کچھ اندازہ نہ تھا کہ ان کے علاقے میں کتنا پانی کتنی منہ زوری سے داخل ہوگا مریم سیلاب سے پہلے جاپان اور تھائی لینڈ کے دورے پر تھیں لیکن واپسی پر انہوں نے حالات کو خوبصورتی سے سنبھال لیا پنجاب میں اتنا جانی نقصان نہیں ہوا جتنا پختون خواہ میں ہوا، سب سے زیادہ نقصان راوی کی گزرگاہ میں بنی ان بستیوں کو ہوا جو قانونی یا غیر قانونی طور پر بنائی گئی تھیں علیم خان نے راوی کی گزر گاہ میں ایک بڑی سوسائٹی بنائی لوگوں نے پلاٹ خریدے اور مکانات بنائے اس کے بعد عمران نے RAVI URBAN DEVELOPEMENT AUTHORITY بنائی جس مقصد راوی کی آبی گزر گاہ پر ایک نیا شہر بسانا تھا کسانوں نے احتجاج کیا لاہور ہائی کورٹ نے تعمیرات کو غیر قانونی قرار دیا مگر سپریم کورٹ کے دو ججوں مظاہر نقوی اور اعجاز الاحسن نے ہائی کورٹ کے فیصلے کو معطل کر کے تعمیرات کرنے کی اجازت دے دی، اب یہ تمام بستیاں پانی میں ڈوبی ہوئی ہیں کہا جاتا ہے کہ دریا اپنا قبضہ کبھی نہیں چھوڑتا دریا کی یاد داشت بھی پانچ ہزار سال پرانی ہوتی ہے، سیانے یہ بھی کہتے ہیں دریا اپنا راستہ بھی نہیں چھوڑتا یہ سب باتیں سچ ثابت ہو گئیں اس وقت تک 37 جانیں تلف ہو ئیں مال مویشی کو بچایا گیا ہے مگر سب سے بڑا نقصان ان بستیوں کا ہوا جو RUDA کے NOCS سے بسائی گئیں اور اب کہا جا رہا ہے کہ ان بستیوں کو ختم کر دیا جائیگا، میرا خیال ہے کہ عالمی ماہرین کی رائے لینی چاہیئے کہ ان بستیوں کو کیسے بچایا جا سکتا ہے کیونکہ اس میں لوگوں کی اربوں کھربوں کی INVESTMENT ہے،RUDA کو اس جانب توجہ دینی چاہیئے، اب نو لاکھ کیو سک کا ریلہ جو تین دریاؤں پر مشتمل ہے سندھ میں داخل ہوگا وڈیرے تو اپنی زمینیں اپنے حساب سے بند اور پشتے توڑ کر بچا ہی لیں گے مگر غریب کسان ہاری مارا جائیگا پچھلی بار بھی اس کی ساری پونجی لٹ گئی تھی اور اس کو COMPENSATE نہ کیا جا سکا اس بار تو بیرونی امداد کا بھی کوئی آسرا نہیں دیکھنا ہے کہ مراد علی شاہ اس صورت حال سے کیسے نمٹتے ہیں خدا خیر رکھے یہی دعا کی جا سکتی ہے۔


