ہفتہ وار کالمز

پاکستان

یہ کالم آپ تک جب پہنچے گا تو آپ یوم آزادی منا چکے ہونگے ، معرکہء حق بنیان المرصوص کے بعد اس بار یہ دن جوش و جذبہ کے ساتھ منایا جا رہا ہے، زندہ قوموں کو اپنا یوم آزادی جوش و جذبہ کے ساتھ ہی منانا چاہیے یہ ظاہر کرنے کے لئے کہ ہم اپنے وطن سے محبت کرتے ہیں اور اپنی آزادی کی قدر کرتے ہیں وطن سے محبت اور آزادی کی قدر RELATIVE TERMS ہیں جس ملک میں جتنی معاشی بہتری ہو گی اتنی ہی وطن سے محبت ہوگی اور اتنی ہی آزادی کی قدر، معاشی بہتری کے اعشاریے کو آسان الفاظ میں اس طرح بیان کیا جا سکتا ہے کہ شہری کی جیب میں کتنا پیسہ ہے،اس کی خرچ کرنے کی استطاعت کتنی ہے، اور وہ کتنا بچا لیتا ہے، ان سب باتوں کا تعلق روزگار سے ہے، اور روزگار کا انحصار کسی ملکی کی معاشی پالیسیوں سے ہے کہ وہ وسائل کا کس طرح استعمال کرتے ہیں، وسائل کیسے بڑھاتے ہیں ، اور روزگار کے مواقع کیسے پیدا ہوتے ہیں، اس سے آگے بڑھ کر اس ملک کی FISCALIMONRTARY کیسی ہیں یہ ساری کی ساری تکنیکی باتیں ہیں جن کی سمجھ ایک عام پاکستانی کو نہیں ، اگر ترقی یافتہ ملکوں میں عوام اتنے تعلیم یافتہ ہیں کہ MARKET CONDITIONS اور RATE OF INTEREST سے ہی ملکی معاشی حالت کا اندازہ لگا لیتے ہیں، امریکہ بہت بڑی معاشی طاقت ہے مگر امریکی یہ بھی دیکھتے ہیں اور تشویش میں گرفتار ہو جاتے ہیں کہ امریکہ 36 کھرب ڈالرز کا مقروض ہے، اس قرضے کا حجم بہت زیادہ لگتا ہے مگر امریکی عوام کو یقین ہے کہ امریکی بڑے ذہن جو کانگریس اور سینیٹ میں بیٹھے ہیں وہ اس قرض سے چھٹکارا حاصل کرنے کے طریقے نکال لیں گے ، اس لئے امریکی ہماری طرح مایوس نہیں ہیں ، یہاں کا میڈیا تنقید بھی کرتا ہے اور راستے بھی تجویز کرتا ہے، خیر یہ بات تو ترقی یافتہ ممالک کی ہے، ہمارا حال پتلا ہے، ارسطو نے کہا تھا کہ جس ملک سے نوجوانوں کا مستقبل اُٹھ جائے وہاں سے جذبہء حب الوطنی اُٹھ جاتا ہے، مستقبل کا مطلب GROW کرنے کے مواقع کا نہ ہونا، سو نوجوان روزگار کی تلاش میں باہر چلے جاتے ہیں، اب غیر قانونی طور بھی لوگ باہر جانے کی کوشش کرتے ہیں اور بعض اوقات اپنی جان بھی گنوا بیٹھتے ہیںہمارے معاشی مسائل ہیں معاشی مسائل نہ ہوتے تو ہم بھی سیاست میں انتہا پسند نہ ہوتے، ہمیں بھی آزادی کی قدر ہوتی ، معاشی مسائل کے ساتھ ساتھ کچھ اور بھی صورتیں ہیں جو پریشان کرتی ہیں ایک شعر یاد آگیا جو بر محل ہے؎
کچھ تو ہوتے ہیں محبت میں جنوں کے آثار
اور کچھ لوگ بھی دیوانہ بنا دیتے ہیں!
حامد میر آزادی کے حوالے سے سبز سوٹ اور سبز ٹائی میں جیو ٹی وی پر نمودار ہوئے حامد میر ہر پروگرام میں ایک نیا سوٹ پہن کر آتے ہیں، خوش لباس ہیں، کہا جاتا ہے کہ اس وقت الیکٹرانک میڈیا پر جتنے اینکرز ہیں ان میں حامد میر سب سے زیادہ مشاہرہ طلب کرتے ہیں، خوش لباسی کے ساتھ صحافیوں میں مثبت سوچ کا ہونا بہت ضروری ہے، پروگرام کی ابتدا حامد میر نے اس بات سے کی کہ کچھ کتابوں میں لکھا گیا ہے کہ جناح انگریز کا ایجنٹ تھا، حامد میر نے اسکرین پر کچھ کتابیں بھی دکھائیں کچھ دستاویزات بھی لہرائے، اس پرو گرام کا منفی پہلو یہ تھا کہ حامد میر خواہ گفتگو میں جناح کو کتنا ہی عظیم لیڈر بنا کر پیش کیوں نہ کرے ایک ٹی وی کے ناظر کے ذہن میں ایک ہی جملہ گونجتا رہے گا کہ جناح انگریز کا ایجنٹ تھا، اس موضوع پر دو کتابیں ہندوستان میں لکھی گئیں اور ایک کتاب پاکستان میں لکھی گئی، گوپال ورما کی کتاب جس میں جناح کو انگریز کا ایجنٹ کہا گیا کچھ زیادہ پزیرائی حاصل نہ کر سکی خان ولی خان کی کتاب THE FACTS ARE FACTS جنرل ضیا الحق کے زمانے میں لکھی گئی پاکستانی پبلشرز نے یہ کتاب چھاپنے سے انکار کر دیا اس کا انگریزی ورژن جرمنی سے شائع ہوا پاکستان میں اس کا ترجمہ حقائق حقائق ہیں کے نام سے ہی اس کتاب پر پابندی عائد کر دی گئی سو اس کتاب کو چھپ چھپ کر پڑھا گیا گوپال ورما کے مقابلے میں خان ولی خاں میں حقائق پر بات کی گئی یہ کتاب علمی حلقوں میں کافی مقبول ہوئی اور اس پر علمی مباحث بھی رہے اس زمانے میں پیر پگارا مسلم لیگ کے صدر تھے انہوں نے اعلان کیا کہ مسلم لیگ کا وفد کتاب میں دی گئی دستاویزات کی تصدیق کے لئے لندن جائے گا مگر ایسا کوئی وفد لندن نہیں گیا یہ ایک سیاسی بیان تھا مگر کچھ عرصہ کے بعد پیر پگارا خود خان ولی خان کی زبان بولنے لگے وہ کہا کرتے تھے کہ جناح ان کے خاندان کا وکیل تھا آئے دن جب پیر پگارا کے جناح مخالف بیاں آنے لگے توth 2000.JULY 16 کو سہیل وڑا یچ ط، زاہد حسین اور عارف الحق نے ان سے ایک طویل انٹر ویو کیا ایک کہرام مچ گیا نوائے وقت نے بہت واویلا کیا کچھ عرصے کے بعد جب ایک صحافی نے پیر پگارا سے پوچھا کیا آپ اب بھی اس بات پر قائم ہیں کہ پاکستان انگریز نے بنایا تو پیر پگارا نے بہت رعونت سے کہا تو کہ کیا تمہارے باپ نے بنایا تھا مذکورہ بحث لا یعنی ہو چکی حامد میر ایک EVIL GENIOUS ہے اس نے بہت سے معاملات کو الجھایا ہے سلجھایا کچھ نہیں، ملک بنے جب 78سال ہو گئے تو یہ بات کوئی وزن نہیں رکھتی، ملک بن گیا جیسے تیسے چل رہا ہے سوال یہ ہے کہ ملک کی معاشی سمت کیا ہے ؟ بد قسمتی یہ ہے کہ ان 78سالوں میں پاکستان کو کوئی سیاست دان نہ مل سکا جو معاشی وژن رکھتا ہو ایک سوشلزم کا نعرہ لے کر آیا لوگ سمجھے ایلیٹ کلاس سے جان چھوٹ جائے گی وہ ملک کو مولویوں کے ہاتھوں میں دے کر چلا گیا، معیشت برباد کردی جنرل ضیا الحق نے قرار داد مقاصد کو آئین کا حصہ بنا دیا، معیشت منشیات فروشوں کلاشنکوف بیچنے والوں اور دعاؤں سے مسائل حل کرنے والوں کے ہاتھ میں چلی گئی، جنرل ضیا الحق سے ڈاکٹر محبوب الحق نے کہا تھا، ملک میں اسلامی اصلاحات کرنا ہے کریں مگر معیشت معاشیات کے اصولوں پر ہی چلنا چاہیے معاشیات کا سبجیکٹ غیر اسلامی نہیں ہے، جنرل کو یہ بات سمجھ نہیں آئی، رہی بات حامد میر کی کوئی اور یہ تو سوچے کہ اگر سلطنت عثمانیہ کے ٹکڑے بھی تو انگریز نے کئے، سعودی عرب میں بغاوت بھی تو انگریز کی حمایت سے شریف مکہ نے کی تھی اس اعتبار سے سعودیہ کی موجودہ حکومت بھی انگریز نے بنائی، مصر، مراکش، اردن، شام، اور دیگر مسلم ریاستیں بھی انگریز نے بنائیں یہ بحث کہ پاکستان انگریز نے بنایا فضول سی ہے بحث یہ ہونی چاہیئے کہ پاکستان کس نے چلایا، اور کس کس نے ڈبویا، جس جس نے ڈبویا تعلیمی نظام تباہ کیا صحت پر توجہ نہیں دی، دہشت گردی عام کی ، حساب تو ان کا ہونا چاہیے، سوال یہ ہر گز نہیں کہ ملک کس نے بنایا، جناح نے اپنا کام پورا کیا ، سچ یہ ہے کہ ہمارے نام نہاد لیڈر ملک سنبھال نہ سکے ۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button