بوڑھا اول درجے کا !

ضمیر اگر خالص ہو تو عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ جوان ہوتا رہتا ہے ۔اپنی پر بہار نظموں میں،مہکتی دو بیتیوں ،گداز غزلوں اور گنگناتے کالموں میں ،آنے والا ہر لمحہ ان کی قوت حیات میں اضافہ کر رہا ہے۔ہر منظر آوازیں دے رہا ہے ۔۔۔۔ارے ضمیر ۔۔۔۔۔ارےضمیر۔ ایک روز کہنے لگے ۔ چراغ حسن حسرت میرا مرشد ہے۔
ماشاءاللہ
میں نے لکھنا ان سے سیکھا
گڈ
سب سے بڑھ کر یہ کہ آسان لکھنا ان سے سیکھا
واہ یہ تو بڑی بات ہے ۔لکھنا ایک چیز ہے اور آسان لکھنا دوسری چیز اور انتہائی اہم بھی۔حسرت کی کالم نگاری میں یہ آسان ابلاغ والی خوبی پَر پھیلائے نظر آتی ہے۔
میں نے پوچھا ۔۔۔حضرت ! حسرت کالم نگار کیسے تھے؟
بڑے کمال کا۔۔۔کوئی جواب ہی نہیں ۔۔۔کیا بتاؤں ۔۔۔کوئی جواب نہیں۔(ساتھ وجد کے عالم میں سر بھی ہلا رہے تھے)
میرے ذہن میں ضمیر جعفری کے کالم ابھرے ،حسرت کے اسلوب سے کچھ واقفیت تھی،دونوں کو ساتھ رکھا تو ایک بات سجھائی دی۔ میں نے سید ضمیر جعفری سے کہاکہ آپ کی کالم نگاری چراغ حسن حسرت کی کالم نگاری کی توسیع معلوم ہوتی ہے ، میرا مطلب ہے کہ ان کے انداز و آہنگ کی۔
کہنے لگے کہ یہ میرے لیے فخر کی بات ہے۔” چراغ حسن حسرت کا نام سن کر ہمیشہ ان کے چہرے پر ایک ناقابل بیان تازگی اور نظر انداز نہ کی جا سکنے والی چمک آ جاتی تھی ۔انہوں نے اپنی زندگی کا بہترین حصہ، وہ حصہ جس میں انسان سیکھتا بھی ہے، اور اپنے لیے جیتا بھی ہے، وہ حصہ انہوں نے چراغ حسن حسرت کے ساتھ گزارا۔حسرت کی رفاقت نے انہیں زندگی گزارنے کا الجبرہ سکھایا، لکھنا بھی ( وہ بڑے فخر سے بتاتے) انہی سے سیکھا ۔وہ بڑے فخر سے مجھے بتاتے کہ میں نے لکھنا ان سے سیکھا ،بلکہ یوں کہہ لو کہ آسان لکھنا ان سے سیکھا ۔وہ تھوڑی دیر کے لیے آنکھیں بند کر کے کچھ سوچتے رہے۔پھر بولے میرا تاثر یہ ہے کہ نثر میں سب سے مشکل کام آسان لکھنا ہے۔
جی ہاں، آسان لکھنا کالم نگاری کی لازمی شرط بھی ہے۔ میں نے کہا
ضمیر جعفری کہنے لگے کہ ہاں لازمی شرط ہے ، لازمی شرط ہے اور کافی مشکل شرط ہے۔
کالم نگاری دراصل گفتگو اور ہلکی پھلکی بات چیت کی پھوار ہوتی ہے ۔اگر پڑھنے والے کو یہ شک بھی پڑ جائے کہ کالم نگار اپنے علم کی دھاک بٹھا رہا ہے، اپنے ڈکشن کی دھونس جما رہا ہے ، یا اپنی حد سے بڑھی ہوئی بصیرت سے ڈرا رہا ہے ،تو وہ صفحہ پلٹ کر کوئی خبر دیکھنے لگے گا۔کالم نگاری کے متعلق ان کے تصورات بڑے واضح تھے۔وہ اس کی حدود و قیودسے واقف اور اثر اندازی سے باخبر تھے۔ وہ جانتے تھے کہ ایک کالم نگار اپنے پڑھنے والے سے اس کے گھر میں ، اس کے بستر پر، اس کے باورچی خانے یا دیوان خانے میں، یا جہاں بھی پڑھنے والا اخبار پڑھتا ہے ، ملاقات کرتا ہے۔ایسے میں قاری کو متوجہ رکھنا معمولی بات نہیں ۔کچھ یہی وجہ ہے کہ کالم نگاری سہل سمجھا جانے والا ایک مشکل کام ہے۔اور حیرت کی بات یہ ہے کہ اس مشکل کام کو بڑے آسان انداز میں کیا جا رہا ہے۔۔جس طرح ہر نو آموز شاعر طبع آزمائی کا آغاز غزل سے کرتا ہے ،اور اپنے لکھے کو غزل ہی قرار دیتا ہے۔اسی طرح بیشتر لوگ اپنے لکھے کو بہ اصرار کالم قرار دیتے ہیں۔یہ سب کچھ ہوتا ہے ، لیکن باقی وہی تحریر رہتی ہے ،جسے باقی رہنا چاہیئے۔
اخبار کی اپنی سائنس ہے۔اور اب تو خیر یہ پولیٹیکل سائنس بھی بن چکی ہے۔اب اس میں شخصی تسلط تو نظر نہیں آتا،ہاں اچھے کالم نگار ایک اخبار کے لیے ستون کا درجہ ضرور رکھتے ہیں۔ایک ہی معیار کے چند اخبارات میں درجہ بندی کرتے وقت اخبار پڑھنے والے اپنے پسندیدہ کالم نگاروں کو پیش نظر رکھتے ہیں۔اگر یہ کہا جائے کہ بعض لوگ صرف اپنی پسند کا کالم پڑھنے کے لیے اخبار خریدتے ہیں ،تو بے جا نہیں ہو گا۔یہ تو آنکھوں دیکھی بات ہے کہ اخبار پکڑتے ہی خبروں کی بجائے اپنے پسندیدہ کالم نگار کا کالم نکال کر بیٹھ گئے،اور مزے لے لے کر پڑھنے لگے۔بعض لوگ کالم پڑھتے ہوئے اپنے سر کو ہلکی ہلکی جنبش بھی دیئے جاتے ہیں۔اور اگر کسی وجہ سےاس روز اخبار میں پسندیدہ کالم موجود نہ ہو تو کہا جاتا ہے کہ؛ آج کا دن خالی گیا۔سید ضمیر جعفری ان خوش توفیق کالم نگاروں میں سرفہرست ہیں کہ جن کے کالم ایک اخبار کی قدر و قیمت میں اضافے کا باعث بنتے ہیں۔ان میں ہنگامی سیاسی شورشرابہ نہیں ہے ۔یہ نرم یا یاروں کی زبان میں بے ضرر کالم اپنے پڑھنے والوں کو کالر سے پکڑ کر جھنجھوڑتے نہیں ،پاس بیٹھ کر باتیں کرتے ہیں۔یا پھر بانسری کی ایک ہلکی مدھر سی لے ،جو ندی کنارے پانی بھرنے والیوں تک کو اپنی طرف متوجہ کر لیا کرتی ہے کالم نگار ضمیر جعفری تند و تیز مرزا جٹ نہیں،یہ نرم خو رانجھا ہے۔مقبولیت کا پوچھیئے تو آج کل وہ کالم مقبول ہوتے ہیں جن میں سنسنی خیزی ہو ۔لیکن میں دیکھتا ہوں کہ ان کے کالموں میں امن ، شانتی اور ایک عجیب طرح کے سکون کی فضا پائی جاتی ہے۔گرچہ کالموں کا موضوع یہی زندگی ہے،جو آپ ہم سب گزار رہے ہیں،لیکن وہ اس زندگی کو غیر مرتب،منتشر و محال انداز میں پیش نہیں کرتے۔معاشرتی ناہمواریاں اور نظام کی بے ترتیبیاں ایک نادان بچے کی طرح ان کی گود میں بیٹھ کر انہیں بھی تھپڑ مارتی ہیں، لیکن ایک شفیق باپ کی طرح وہ صرف مسکرا دیتے ہیں۔اور سیٹی بجا کر نادان بچے کو بہلا لیتے ہیں۔ دراصل اسی طرز عمل سے زندگی کرنے کی ہمت پیدا ہوتی ہے، اور جو تحریر زندگی کرنے کی ہمت پیدا کر سکے،وہ اپنے مقصد میں کامیاب دکھائی دیتی ہے ۔
کالم میں دھوم دھڑکے کی اہمیت اپنی جگہ ، ظاہر بات ہے کہ حکومت وقت کی مخالفت اجتماعی دلچسپی کا نمایاں ترین موضوع ہوا کرتا ہے ۔ ایسا کرنے سے ایک بڑے ہجوم کو اپنی طرف متوجہ کیا جا سکتا ہے ۔ ” بھائی صاحب! آج آپ نے ہمارا کالم پڑھا ؟ ۔ زلزلہ آ جائے گا ، اب دیکھتا ہوں یہ حکومت کتنی دیر چلتی ہے ، بڑا سمجھتے ہیں اپنے آپ کو ۔ ہم سے اندر ٹکر ٹھاہ ! میں نے ضمیر جعفری سے پوچھا کہ جناب آپ کے کالموں میں یہ مصالحہ کیوں نہیں ہے ؟ جواب میں تھوڑی دیر مسکراتے رہے ، پھر آہستہ سے بولے کہ ہاں ۔ بارود سے چٹانیں توڑ کر آپ راستے تو بنا سکتے ہیں ۔ لیکن (توقف) بھئی میری نگاہیں تو ننھے منے خودرو پھولوں پر رہتی ہیں ۔ اصل زندگی چٹان میں نہیں، پھول میں ہے۔ اور پھر دیکھو نا بارود کا دھماکہ گرتے پانی کی آواز کا مقابلہ تو نہیں کرسکتا ۔” یہ بات ادبیات ضمیر جعفری کا مرکزی نقطہ ہے۔ اپنی نثر میں میری دلچسپی کو دیکھتے ہوئے انہوں نے اپنے کالموں کو کتابی صورت میں مرتب کرنے کا کام مجھے سونیا ۔ یہ پچاسی کے اواخر کی بات ہے ۔ کہنے لگے کافی ملبہ پڑا ہے ، منتشر ، اسے اگر کھنگال سکو اور اس میں سے کچھ نکال سکو تو بڑی اچھی بات ہوگی ۔ میری رضامندی دیکھ کر انہوں نے اپنے اخباری کالموں کے تراشوں کی فائلیں میرے حوالے کیں ۔ اور پھر یہ سلسلہ آنے والے دو برسوں میں وقفے وقفے سے جاری رہا۔ ضمیر جعفری ان دنوں اکادمی ادبیات پاکستان میں تھے ۔ اکادمی کا ہرکارہ یونیوسٹی میں ڈاک لے کر آیا کرتا ، کبھی لفافے میں بند دو کالم ، کبھی چار پانچ اور کبھی ایک پوری فائل ، جس میں سے اخباری کالموں کے تراشوں کے ساتھ ساتھ سنہری اور خاکستری رنگ کے چھوٹے چھوٹے کیڑے بھی برآمد ہوتے۔ یوں یہ سارا خزانہ میرے پاس جمع ہوتا رہا ۔ یہ سلسلہ سن 1987ء چلتا رہا ۔ پھر ایک روز کہنے کے بھئی اب میرا گھر تو بالکل صاف ہوگیا ہے ، اب آپ انہیں مرتب کرنا شروع کرو اور جلدی کرو. ایک اچھے کام میں، اور بعض کے خیال میں بُرے کام میں بھی تاخیر نہیں کرنی چاہیے ۔ لیکن پھر یوں ہوا کہ میں یونیورسٹی چھوڑ کر گورنمنٹ کالج ،فیصل آباد چلا آیا۔ فیصل آباد میں بھی انہوں نے مسلسل رابطہ قائم رکھا ۔ ایک آدھ کالم میں بھجوا دیتے اور کام کی رفتار بھی پوچھ لیتے ۔ 95ء میں دوبارہ یونیورسٹی آ گیا۔ میرے اسلام آباد آنے پر ضمیر جعفری بے حد خوش ہوئے۔ کہنے کہ چلو اب تو یہ کام مکمل کرو. زمانے میں اور غموں کی موجودگی میں یہ کام اپنی رفتار سے ہو رہا تھا کہ اب کی بار ضمیر جعفری اسلام آباد چھوڑ کر گوجرانوالہ جا بسے ۔ یہ پھر وہیں پر بس نہیں کی وہاں سے سیدھے نیویارک چلے گئے۔ میں حیران ہوں کہ گوجرانوالے سے نیو یارک کی طرف کون سی سڑک جاتی ہے ؟ ۔ اب وہاں سے نامے آتے ہیں لیکن اب کام ، تو مکمل ہو چکا ، اور آپ کے سامنے ہے۔
ضمیر جعفری نے اپنی کالم نگاری کے لیے کوئی ایک مستقل عنوان قائم نہیں کیا، جیسا کہ عموماً کالم نگار کرتے ہیں۔وہ ہر اخبار میں ایک نئے عنوان سے کالم لکھتے۔خود اپنا نام بھی بدلا کیے ، معلوم نہیں کیوں؟ ہاں کوئی نہ کوئی جلی یا خفی مصلحت تو ضرور ہو گی۔ ضمیر کالمی رہے، روزنامہ غالب لاہور ( اور یہ 1949ء کی بات ہے)میں سخن گسترانہ کے عنوان سے کالم لکھتے رہے۔روزنامہ بادشمال راولپنڈی( 1950ء) میں انچےسعدون کے قلمی نام سے پانچواں کالم لکھا ۔ اسی نام سے ہفت روز شہاب میں بھی لکھا۔ ہفت روزہ ہلال راولپنڈی میں ضمیر حاضر، ضمیر غائب کے عنوان سے لکھا کیے۔ روزنامہ جنگ میں راول رنگ کا عنوان قائم کیا ، اور اپنا کالمی نام رنگ باز رکھا – یہ نام معنویت کے اعتبار سے بڑا ثروت خیر رہا اور ہے ۔ نوائے وقت میں دریچۂ زندگی اور روزنامہ مشرق میں نظر غبارے کے عنوان سے لکھا، نظر غبارے زیادہ بھایا، اور آج ان کے اخباری کالموں کے پہلے مجموعہ کے عنوان بھی یہی ٹھہرا ۔اس انتخاب میں مشرق کے نظر غبارے بھی ہیں اور جنگ کے رنگ باز کا راول رنگ بھی ۔ نوائے وقت کے دریچۂ زندگی میں سے انتخاب بھی شامل ہے ، اور کچھ خاص خاص بھی یعنی انچے سعدون کے پانچویں کالم میں سے چار کالم ۔ ایک کالم ہفت روز ہلال راولپنڈی کے ضمیر حاضر ضمیر غائب کا ہے۔ اور ان سب کے ساتھ روزنامہ مشرق میں گاہے گاہے شائع ہونے والی ضمیریات کے چار نمونے ۔ یہ رہے ضمیرچے اس انتخاب کا عنوان اُن کا اپنا تجویز کردہ ہے اور تجویز بھی انہوں نے نیو یارک میں بیٹھ کر کیا ہے ۔ تو چلیے جناب ! ضمیرچے پڑھیے اور ذکر خدا کریئے ۔ میرےکان ایک آواز سن رہے ہیں ، دھیرے دھیرے تیز ہوتی ہوئی آواز۔۔۔۔
ذکر خدا بھی کرے ضمیر
پریوں پر بھی مرے ضمیر
ہر منظر آوازیں دے
ارے ضمیر ، ارے ضمیر
آخری سانس کے آنے تک
برسے گا اور گرجے گا
بوڑھا اول درجے کا!