چلئے الیکشن کا شوق بھی پورا ہو گیا، الیکشن ہوئے اور الیکشن کے نتائج بھی آگئے ،الیکشن کے نتائج کسی کو ماننے تو تھے نہیں جو ہارتا وہ دھاندلی کا شور مچاتا، 1977 سے یہی ہوتا چلا آ رہا ہے، 1977 میں دھاندلی کا شور اسلام کے نام پر مچایا گیا تھا اس لئے مقدس تھا، لہٰذا اس سنت کو کبھی ترک نہیں کیا گیا، دھاندلی پر شور مچایا جاتا رہا، یہ جو پاکستان میں ایک سیاسی اسلام ہے وہ اصلی اسلام سے بڑا ہے اس لئے 2018 عمران کے لئے دھاندلی اسلام کے عین مطابق تھی پھر عمران کو سپورٹ کرنا بھی اسلامی اصولوں کے عین مطابق تھا، اسلام کی نشاہ ثانیہ کے لئے یہ بہت ضروری تھا سو یہ دھاندلی جائز تھی پھر ہر وہ کام جائز تھا جو عمران کو اسلامی دنیا کا بڑا لیڈر بنا دیتا، 2024 میں بھی دھاندلی ہوئی، کراچی میں مثالی دھاندلی ہوئی مگر اس وقت گٹر میڈیا نے آنکھوں پر پٹی باندھ لی، دھاندلی سندھ میں بھی دھاندلی ہوئی مگر سندھی اس دھاندلی پر خوش ہیں تو ہمیں کیا اعتراض ہو سکتا ہے، دھاندلی پختون خواہ میں بھی ہوئی مگر کیا مجال کہ اس دھاندلی پر کوئی انگلی اٹھا سکے ، پنجاب پر سب کی نظر تھی، بلاول نے زبر دست انتخابی مہم چلائی ، نواز شریف کی وہ درگت بنائی کہ رہے نام اللہ کا، اشرافیہ میں ہوتے ہوئے نواز لیگ کا حصہ بنا دیا، بلاول نے خوب خوب سب کی آنکھوں میں دھول جھونکی مگر پی ٹی آئی اپنا حصہ لے اڑی مگر اتنا نہیں تھا کہ پنجاب میں حکومت بنا سکتی، بڑا حصہ نہ ملا تو شور مچا دیا کہ دھاندلی ہوئی ہے، مینڈیٹ تو ہمارا ہے، پختون خواہ کے پاس ایک تو کلاشنکوف دوسرے وہ کہہ چکے ہیں کہ اگر عمران خود آکر یہ کہے کہ میں نے غلطیاں کی ہیں تب بھی ہم نہیں مانیں گے حال ہی ایک ویڈیو دیکھی جس میں ایک شخص ایک بینر لئے کھڑا ہے جس پر لکھا ہے کاش عمران خان میرے والد ہوتے پہلے تو ہم سمجھے کہ مخالفین نے پی ٹی آئی کو بد نام کرنے کے لئے یہ ویڈیو لگا دی ہو گی مگر انصافین کے لائکس دیکھے تو یقین کرنا پڑا کہ یہ ایک مائنڈ سیٹ ہے جس کو بدلا نہیں جا سکتا، مگر ہمیں پوچھنا یہ تھا کہ کہ عمران کو سپورٹ کرنے والے سابق فوجیوں ، سابق سفیروں ، ڈاکٹروں، اور دیگر مہذب افراد بھی کیا اس بات سے متفق ہیں؟
شہباز نے اپنے عہدے کا حلف اٹھا لیا ہے، عالمی طاقتوں نے ان کو مبارک باد کے تہنیتی پیغام بھی بھیجے ہیں، جن میں امریکہ، سعودی عرب ، ترکی، ایران، وغیرہ شامل ہیں، ان پیغامات سے عالمی طاقتوں کا PULSE دیکھا جا سکتا ہے، ایک چیز جو بہت سامنے کی ہے اور جو آسانی سے سمجھی جا سکتی ہے وہ یہ ہے مذکورہ بالا ممالک دہشت گردی کو مسترد کرتے ہیں اور روشن خیالی کو خوش آمدید کہتے ہیں،اس سے یہ بات بہت واضح ہو جاتی ہے کہ یہی پاکستان کی ضرورت بھی ہے مگر ہوسِ اقتدار نے جب سیاسی جماعتوں کو اندھا کر دیا ہو تو کوئی دلیل کام نہیں آتی ، شہباز کی پہلی تقریر میں ہر چند کہ میثاق مفاہمت کی آفر بھی دے دی گئی مگر عمر ایوب کی جانب سے جو جواب آیا وہ غیر متوقع نہیں تھا، عمر ایوب نے کہا کہ مینڈیٹ چوری کیا گیا ہے ہماری تو 245 نشستیں بنتی ہیں تو حکومت تو ہماری ہونی چاہیئے یہ گھس بیٹھیئے حکومت میں آگئے ہیں ہم ان کو دن میں تارے دکھا دینگے، بیرسٹر گوہر بھی کہہ چکے کہ ہم یہ حکومت چلنے نہیں دینگے اور نہ ہی کوئی اصلاحات کرنے دینگے ، ادھر شیر افضل مروت نے اسمبلی میں جوتا بھی لہرا دیا، آپ جو بھی کہتے ہیں آپ جو بھی کرتے ہیں دنیا اس کا مطلب اخذ کر لیتی ہے، عمران ساری دنیا کو یہ باور کرا چکے ہیں کہ ہم بہت کرپٹ قوم ہیں، اب یہ کہا جا رہا ہے کہ ہم نہ حکومت چلنے دینگے تو دنیا سمجھ رہی ہے کہ پاکستان نارمل ملک نہیں اس ملک میں سرمایہ کاری کرنا اپنے سرمایہ کو ڈبونا ہے، پہلے بھی IMF کو خط لکھا کہ قرض نہ دیا جائے ،اب بھی خط لکھ دیا کہ قرض نہ دیا جائے کہ یہ قرض واپس کون کرے گا، یہ تیور بتا رہے ہیں کہ پی ٹی آئی نے کسی قیمت پر معیشت کو نہیں چلنے دینا، عمران کو جب مسلط کیا گیا تو حزب اختلاف کو یہ خوف تھا کہ کہیں عمران معیشت بہتر نہ کر دے COVID کے درمیان کچھ بہتری کے آثار بھی تھے مگر معیشت بہتر کرنے کا کوئی ارادہ نہ تھا، انڈے، کٹے ، پناہ گاہیں، لنگر خانے، زیتوں کی کاشت، یہ عمران کی معیشت کے خاکے تھے ، باجوہ عمران سے کہتے رہے کہ معیشت پر توجہ دو، اس وقت ایک ماہر معاشیات قیصر بنگالی کہہ رہے ہیں کہ سرکاری ملازمین ، بیورو کریسی اور فوج کی تنخواہیں قرض لے کر ادا کی جا رہی ہیں، تاجر ٹیکس نہیں دیتے، اشرافیہ نے سپر ٹیکس دینے سے انکار کر دیا، پورا ملک اشرافیہ کے 1270 خاندانوں کے پاس یر غمال ہے ہم بارہا کہہ چکے ہیں کہ جب تک ملائیت اور وڈیرہ شاہی کے سر نہیں کاٹے جاتے اس وقت تک ملک ترقی نہیں کرے گا، یہ خبر عام ہے کہ ملک میں 129 بڑے مزار پیروں کی جاگیر ہیں اور پیروں کی ان گدیوں کے نیچے تین کھرب رکھا ہوا ہے، ملائیت، وڈیرہ شاہی اور گدی نشینوں کا تحفظ اگر ہوگا تو عوام کو روٹی نہیں ملے گی، اگر نئی حکومت کو نیا وزیر خزانہ میسر نہیں اور اپوزیشن یہ ٹھانے بیٹھی ہے کہ ہم ملک چلنے نہیں دینگے ، دن میں تارے دکھا دینگے ، دیکھتے ہیں کہ کون اصلاحات کرتا ہے، اس بات سے کون انکار کر سکتا ہے کہ نواز شریف اور زرداری بھی جانتے تھے کہ پی ٹی آئی اگر اقتدار میں آگئی تو ان کی سیاست فارغ ہے، مگر مشکل یہ ہے کہ پی ٹی آئی کو سوائے احتجاج کے کچھ آتا ہی نہیں، کم از کم نواز شریف موٹرویز تو بنوا دیتا ہے، اب ایسا لگتا ہے کہ پی ٹی آئی نے احتجاج ہی کرنے ہیں، دھرنے ہی دینے ہیں اور معیشت کو روک کر رکھنا ہے سول سوسائٹی میں اتنا دم نہیں کہ وہ احتجاج روک لے ، ان پڑھ گنوار لوگوں کے لئے جلسے اور دھر نے ایک شغل ہے ہلہ گلہ ہے اس کو کیا پتہ کہ سیاست کیا ہوتی ہے، سیاست دان اور خاص طور پر PTI عوام کی جہالت سے خوب فائدہ اٹھاتی ہے، اب صورت حال یہ ہے کہ خدا بھی اگر زمیں پر آ جائے تو OVERSEAS SOCIAL MEDIA KEYBOARD WARRIORS جن کا تعلق PTI ان کو سمجھائے کوئی نیا صحیفہ بھی اتار دے تو یہ نہیں مانیں گے ،TONY SAMUEL نیو یارک کے ایک کالج میں پولیٹیکل سائنیں پڑھاتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ فی زمانہ سیاست معاشیات کے گرد گھومتی ہے، تیسری دنیا کی سیاسی جماعتیں جو معیشت کو پنپنے نہیں دیتیں وہ در اصل POLITICAL TERRORISTS ہیں جو عوام کے منہ سے روٹی چھین لیتی ہیں، بظاہر یہی لگتا ہے کہ ملک میں ہنگامے ہوتے رہیں گے پی ٹی آئی لوگوں کو یہی سمجھاتی رہے گی کہ تمہاری روٹی ان چوروں اور ڈاکوؤں نے چھین لی ہے جس سیاسی جلسے کے شرکاء کو یہ سمجھایا جائے کہ میں تم کو لا الہ الا اللہ کا مطلب سمجھانے آیا ہوں وہ ان پڑھ مجمع یہ بھی مان لے گا کہ چور اور ڈاکو ان کی روٹی چھین کرلے گئے ہیں، اس جاہل مجمع کو کیسے سمجھایا جائے کہ جس ملک میں امن نہیں ہوتا وہاں سے سرمایہ بھاگ جاتا ہے سرمایہ بھاگ جاتا ہے تو روزگار بھی بھاگ جاتا ہے روزگار بھاگ جائے تو روٹی نہیں ملتی، اگر یہ بات سمجھ نہیں آتی ہے تو ناچیئے چاہے جلسے جلوسوں میں گلا پھاڑ کو نعرے لگایئے ، کرتے رئیےہڑتالیں، سجائیے دھرنے، کر دیجیے کاروبار ٹھپ اُجاڑ دیجیئے کھیت کھلیان، ویران کر دیں صنعتیں، مگر اتنا سمجھ لیجیے کہ لا الہ الا اللہ کا مطلب سمجھ لینے کے بعد بھی ایک لقمہ بھی نصیب نہیں ہوگا رزق آسمان سے نہیں اترے گا اور نہ ہی من و سلوا نصیب ہو گا، آپ کا پہلا مسئلہ روٹی ہے، ناچتے رہیئے مگر فضول نعروں پر ناچنے سے آپ کو روٹی نہیں ملے گی IMF کے ٹیکس بھگتنے ہونگے، نواز لیگ کو یہ سمجھ لینا چاہیئے کہ اس بار معیشت درست نہ کی اور عوام کو ریلیف نہ ملا تو ان کی سیاست ہمیشہ کے لئے ڈوب جائے گی۔
0