بھئی فیض احمد فیض صاحب آپ بس باز آ جائیں

اچھا اب مسئلہ یہ ہے کہ فیض احمد فیض کو ان کی زندگی میں تو برداشت کر ہی لیا، بھئی بڑے سخت جان واقع ہوئے تھے ، دائیں بازو کے اخبارات کے ناتراشیدہ دانشوروں ،کالم نگاروں اور خبر نگاروں نے کیا کیا اہتمام اور الزام نہ تراشے، معلوم نہیں کیوں،فیض صاحب کی مقبولیت بلکہ ایک دل جلے منہ نے تو جل کر کہا تھا کہ بھیا مقبولیت بھی برداشت ہو جاتی ہے ، پر اس ظالم کے بارے میں تو ناقابلِ فہم محبوبیت پائی جاتی ہے ۔پھر یہ دیکھو سیالکوٹ تو اس کا آبائی شہر ہے ، کیا نسبت ہے اقبال سے ۔پھر لاہور ان کے لیے شہر علم رہا۔لائیلپور اگر شہر دل تھا تو راولپنڈی کا ان کی زندگی سے کچھ انوکھا سا تعلق رہا۔وجہ یہ ہے کہ راولپنڈی شہر کا فیض احمد فیض سے سلوک اور برتاؤ بڑا ہی مختلف اور متنوع رہا ہے۔اسی شہر میں وہ ایم آئی سکس کی ایک کاذب رپورٹ کی بنیاد پر پنڈی سازش کیس میں ماخوذ کئےگئے ، اور اسی مبینہ سازش کی بنیاد پر کالج میں پڑھانے والا استاد، افواج ہند کےمحکمہ تعلقات عامہ کا لیفٹیننٹ کرنل اور بلاشبہ اُردو زبان کا نہایت مقبول و محبوب شاعر رات کے وقت لاہور میں اپنے گھر سے گرفتار ہو کر حوالہ زنداں ہوا اور یوں زنداں نامہ ان کی زندگی اور انکی شاعری کا بڑا حوالہ بن گیا ۔سازش کے بے بنیاد الزام کے بے بنیاد ثابت ہونے پر وہ رہا تو ہو گئے،لیکن ان کا محبوب وطن زیادہ عرصہ ان کے لیے ایسے زندان کی صورت اختیار کرتا رہا ،جس سے وقتی رہائی کے لیے انہیں جلاوطن بھی ہونا پرتا۔اسی شہر میں ان کے پسندیدہ ریسٹورنٹ، ان کے دلدادہ دوست اور ان سے بے لوث محبت کرنے والے لوگ بھی رہتے تھے ۔یہی وہ شہر ہے جہاں افواج ہند کا نادرن ہیڈ کوارٹر بھی واقع تھا ۔ اور حیرت ہے کہ جب غداری کے الزام میں قید رکھا گیا تھا ، ایسا شرپسند ہے کہ قید میں بھی مسکراتا رہا ، ذرا دیکھو تو زندان کی صبح پر نظم لکھتا ہے تو کبھی زنداں کی شام پر۔ہم اسے وطن سے دور کرنا چاہتے تھے ، اس نے وطن ہی کو اپنی لیلی بنا لیا ، اور دیکھو وہ ظالم جادوگر وطن کی گلیوں پر نثار ہوا جا رہا تھا۔
ہے اہل دل کے لیے اب یہ نظم بست و کشاد
کہ سنگ و خشت مقید ہیں اور سگ آزاد
بہت ہے ظلم کے دست بہانہ جو کے لیے
جوچند اہل جنوں تیرے نام لیوا ہیں
بنے ہیں اہل ہوس ،مدعی بھی ، منصف بھی
کسے وکیل کریں ، کس سے منصفی چاہیں
مگر گزارنے والوں کے دن گزرتے ہیں
ترے فراق میں یوں صبح و شام کرتے ہیں
یار دیکھو۔۔۔۔یہ ذرا بھی گبھراہٹ کا شکار نہیں ہوتا۔بھئی دیکھو کیسا ڈھیٹ ہے۔ دست صبا کے بعد تو چار سال قید بامشقت کی سزا بھی اس کا کچھ نہ بگاڑ سکی۔سینٹرل جیل لاہور اور سینٹرل جیل منٹگمری جسے اب ساہیوال کہتے ہیں، میں قید بامشقت کے دوران سیدھے سیدھے زنداں نامہ لکھ ڈالا ۔اور لکھا بھی سراسر محبت نامہ کے اندازمیں۔اب ہم نے اقبال اور روشن خیال ترقی پسندوں کے مابین خلیج پیدا کرنے کی بہت کوشش کی ،بھئی ہندوستان کے ترقی پسند شعرا تو ہمارے جھانسے میں کہاں آتے،انہوں نے تو اقبال کے فکر و خیال کو بڑے خوب انداز میں اپنی ترقی پسندی کا حوالہ بنایا ،صرف علی سردار جعفری ہی کو دیکھ لو،دست کار آفریں کی عظمت کے اعتراف اور بیان پر اقبال کی کس قدر توصیف کرتا ہے ۔تو وہ لوگ تو اپنے قابو میں نہ تھے ۔مگر پاکستان میں ہم نے ملا کو اقبال سے بغلگیر کر ہی دیا۔ لیکن فیض نے ہمارا یہ کام بھی خراب کردیا۔یہ کہہ کر فیض نے بہت سوں کے منہ بند کر کے آنکھیں کھول دیں کہ۔۔۔ ۔۔۔بیسویں صدی کے بعض معاشرتی، معاشی اور اخلاقی مسائل اور احساسات کو پہلی مرتبہ اقبال ہی نے اُردو شاعری میں پیش کیا تھا۔سرمایہ و محنت کے تضادات کو انہوں نے ہی سمجھا،سرمایہ داری اور استعماریت کے بندھن کی نشاندہی کی،جمہوریت،فاشزم،وطن پرستی، انسان دوستی، حرمتِ انسانی،مساوات،مادیت و روحانیت کے ٹکراو، تاریخ، فلسفہ اور سائنس کے کتنے ہی نئے موضوعات تھے جو اقبال ہی کے توسط سے اُردو شاعری میں پہلی بار آئے تھے۔جس نے اُردو شاعری کے تناظر ہی کو تبدیل کر دیا تھا۔اقبال نے نئے موضوعات اور احساسات کے پیش کرنے کے لیے زبان بھی نئی ڈھالی تھی،نئے شعری لفظیات،علائم اور استعارے بھی قدیم فارسی کے شعری ذخیرے سے لئے گئے تھے۔اقبال کی شاعری ترقی پسند شاعری کا منشور بن سکتی تھی لیکن ان کی شاعری میں مابعدالطبیعیاتی، موضوعات،علامتیں،استعارے وغیرہ کے غلبے نے بعض ترقی پسندوں کو قدرے محتاط کر دیا تھا۔ورنہ اقبال نے اُردو شاعری کے بند دریچوں کو کھول کر تازہ ہوا فراہم کی تھی۔
اب بتاؤ ایسے فیض کا ہم کیا کریں۔؟
علامہ اقبال سے فیض کی محبت ، عقیدت اور توجہ کو لاکھ چھپایا گیا، اور اس میں ہمارے یمین و یسار متحد اور ہم آواز تھے ۔بھئی کہاں شاعر اسلام اور کہاں لینن امن ایوارڈ لینے والا سرخا۔۔توبہ توبہ ۔ان کا آپس میں کیا مقابلہ ؟ کیا تعلق؟۔مقابلہ تو خیر کوئی نہیں ، ہاں مگر تعلق بہت گہرا ہے ۔کیا مطلب اقبال اس لینن امن ایوارڈ لینے والے سے تعلق رکھے گا۔۔استغفراللہ۔۔۔ناممکن ۔۔ دیکھو بھائی اقبال اگر لینن کو خدا کے حضور کھڑا کر کے اپنے عمرانی اور معاشی سوالات اٹھا سکتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ لینن سے اقبال کو کوئی مسئلہ نہیں تھا، یقیناً لینن کوئی اہم آدمی تھا۔۔۔۔اہم آدمی ۔۔روس کا صدر تھا ،سرخا۔۔۔اس کا خدا سے کیا تعلق؟ یار دیکھو کسی انسان کا خدا سے تعلق ہے یا نہیں ،یہ بہرحال خدا کا مسلہ نہیں ہے ،خدا انسان کے حوالے سے اپنی ذمہ داری سے دستبردار نہیں ہوتا۔ یہ کس نے کہا ہے۔کیا ؟ یہی کہ خدا کافروں کے بارے میں اپنی ذمہ داری سے غافل نہیں ہوتا۔دیکھو یہ انسانوں کو کافروں شافروں کے عنوان سے تقسیم کرنا چھوڑ دو ۔جن انتہاپسندوں نے اقبال کو اپنی تحویل میں لے کر اس کے افکار کے گرد اپنے عقیدے اور مسلک کی چار دیواری کھڑی کر کے فہم اقبال کے دروازے کو مقفل کرنے کی کوشش کی تھی ، انہوں نے فیض احمد فیض پر محنت کیوں نہیں کی۔ شائد فیض احمد فیض کو سرخا، کیمونسٹ ،ادبی اشرافیہ کا چسکا شاعر وغیرہ سمجھ کر نظر انداز کیا ہو؟ مگر 1984 ء میں اپنی وفات کے بعد سے لے کر اب تک وہ زندہ کیوں ہے ۔اب بھی کیا پاکستان کیا ہندوستان جہاں بھی مزاحمت ،آزادی ،حقوق ،انسانی اتحاد اور مساوات کی بات ہو تو فیض ہی کی آواز گونجتی سنائی دیتی ہے ۔
ہم دیکھیں گے
لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے
جو لوح ازل میں لکھا ہے
جب ظلم وستم کے کوہ گراں
روئی کی طرح اُڑ جائیں گے
اور دیکھو یہ بھی
جب ارض خدا کے کعبے سے
سب بت اٹھوائے جائیں گے
ہاں تو پھر کیا فرق پڑا اس سے؟ کون سا بت اپنی جگہ سے ہٹا یا ہلا ہے؟ بھئی نہیں ہٹا تو ہٹ جائے گا ، نہیں ہلا تو ہل جائے گا ۔بتوں کی زندگی انہیں تراشنے ، آویزاں کرنے اور ان کی پرستش کرنے والوں کی مرہون منت ہوتی ہے ۔یہ سارے بت دراصل خود ہماری خدا بننے کی آرزو کا اظہار ہوتے ہیں۔جب تک پوجنے والے بچاری باقی رہیں گے بتوں کو خدائی کرنے سے کون روک سکے گا۔اہم بات یہ ہے کہ فیض احمد فیض ارض خدا کے کعبے سے بتوں کو کیوں اٹھوانا چاہتے ہیں ،وہ کہتا ہے کہ بت غارت ہوں گے تب
اور راج کرے گی خلق خدا
جو میں بھی ہوں اور تم بھی ہو
اس نظم کا خلوص، سچائی اور اس میں شامل آرزو کی شدت نے اسے اُردو بولنے سمجھنے والوں کے لیے انقلاب کا ترانہ بنا دیا ہے ۔یہ ترانہ آج بھی ہر ظالم گروہ کا دل دہلا کر رکھ دیتا ہے ۔بس یہی وہ ظلم ہے جو آراستہ نظم بست و کشاد کو درہم برہم کرنے کے لیے کرتے چلے جا رہے ہیں۔اقبال کو تو مُلا نے اس کے چند شعروں کی بنیاد پر اپنی من پسند تعبیروں کے حصار میں لینے کی کوشش کر رکھی ہے اور جب تک ہمارے نوجوانوں نے اقبال کے متون کو از خود پڑھ کر اقبال کو ازسرنو دریافت کرنا شروع نہ کیا ، یہ چالبازی کار گر رہے گی۔ پر یہ فیض قابو کیوں نہیں آرہا؟ اس لیے قابو نہیں آرہا کہ یہ 1984 میں وفات پا جانے کے بعد بھی مرنے سے انکاری ہے ۔مطلب ؟ …مطلب یہ کہ اس طرح کے خواب فروشوں کو خواب دیکھنے والے لوگ زندہ رکھتے ہیں۔اب اسی نظم کو دیکھ لو ۔۔۔ہم دیکھیں گے کچھ ایسا جادو بھر دیا ہے خواب دیکھنے والے دیوانوں نے کہ جب بھی یہ دھرائے جاتے ہیں ، فکر و نظر کی دنیا میں ایک زلرزلہ سا جاتا ہے ۔تمہیں پتہ ہے جنرل ضیاء الحق کے زیر سایہ جب سخت مذہبی ماحول میں جذبہ جہاد کو پھیلایا جارہا تھا ،مدارس معاشرے کے سب سے بااختیار اداروں کا روپ اختیار کر چکے تھے ، مولوی کھجور کی چٹائی پر سے اٹھ کر لینڈ کروزر پر بیٹھ کر گھومنے لگے تھے ۔تو ایسی فضا میں خواتین کا ساڑھی پہن کر ٹی وی پر نظر آنا سخت معیوب خیال کیا جانے لگا تھا۔1986 میں لاہور آرٹس کونسل سے فیض کی سالگرہ منانے کی اجازت بمشکل حاصل کی گئی ،طرح طرح کے وعدے اور پابندیوں سمیت۔اب وہاں موقع پر ہوا یوں کہ معروف گلوکارہ اقبال بانو سیاہ رنگ کی ریشمی ساڑھی میں ملبوس آئیں اور فیض کی یہی نظم ہم دیکھیں گے اپنے انداز و آہنگ میں گائی۔۔نظم اور طرز ادا کیا تھی کہ ہجوم میں طوفان امڈ آیا، لوگ بلند آواز میں ساتھ ساتھ گا رہے تھے۔ ایک شدید گھٹن میں اک ذرا سی کھڑکی کھلنے سے چمن کے سارے اداس پرندے چہک اٹھے۔وہ دن اور آج کی یہ نظم تو جاری نظم سیاست و ریاست کی چھیڑ سی بن گئی ہے ۔
یار سنو فیض آج بھی باز نہیں آرہا ،کیوں؟۔ ہاہاہا بھئی اب آپ اسے نہ غداری کے جرم میں قید کر کے سزا سنا سکتے ہیں ، نہ ملازمت سے نکلوا سکتے ہیں ، نہ جلاوطن کر سکتے ہیں۔اب تو اس کا کچھ بھی بگاڑا نہیں جا سکتا۔
ایک راستہ ہے اسے اقبال کا دشمن ثابت کر دیا جائے۔۔کیسا آئیڈیا ہے ۔فضول۔ ۔وہ دونوں نہیں مانیں گے ۔کون نہیں مانیں گے؟
یہی اقبال اور فیض۔دونوں ایک دوسرے کو پسند کرتے تھے ۔ فیض تو اقبال کی عظمت کے معترف اور مداح تھے ، دراصل یہ فیض ہی تھے جنہوں نے اقبال پر مُلا کی اجارہ داری کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا ۔ اگر اقبال قیام پاکستان کے بعد بھی حیات رہتے تو اس آزاد و خودمختار نو آزاد ملک پر جو کچھ بیتا، شائد ان کو بھی فیض احمد فیض ہی خیال کیا جاتا۔چھوڑو ایسی باتیں، اتنی محنت سے تیار کیے گیے ماحول اور ذہنی فضا کو ،اس چلتے ہوئے نظمِ ریاست و سیاست کو بس آرام سے چلنے دیں۔بس مہربانی کریں، ہمارے کرنے کے اور بہت سارے کام ہیں ۔ہمیں اب اپنے دشمن ملک کے اندر ہی سے تراش کر ان سے جنگ کرنی ہے تاکہ ریاست سلامت رہے۔ہم جیتے جی بہت ہی مصروف لوگ ہیں ،فیض جیسے نہیں جو کام اور عشق دونوں ادھورے چھوڑ کر بھی مطمئن رہیں۔سیدھی سی بات ہے ۔بھئی فیض احمد فیض صاحب آپ بس باز آجائیں۔