گرین ہیلمٹ

گزشتہ ادوار جن میں زمانے پنہاں ہیں میں گندگی کے ڈھیڑ سے چھوٹے بچوں کو کھانے وغیرہ کی چیزیں ڈھونڈتے دیکھتا آ رہا ہوں جو جرم ِ غریبی کی سزا نوعمری کے اوائل سے ہی کاٹ رہے ہیں نہ جانے عالم ِ شباب میں قدم رکھنے سے پہلے ان کے حالات ِ زندگی میں ان کی موجودہ معاشی ابتری میں کسی بہتری ی کی نوید جگمگائے گی کہ نہیں !!!اس مخمصے میں مبتلا میرے جیسے کئی عام اشخاص سکتے میں جا چکے ہیں کیونکہ کئی دہائیوں سے حکمرانوں و آمروں کی صرف آنیاں جانیاںدیکھ رہے ہیں عوامی فلاحی کے دعوے سن رہے ہیں عمل ناپید ہے یعنی معاشی بہتری کے جو دعوے یہ عوامی قائدین اپنے بیانات و تقاریر میںسیلاب کی مانند بہاتے جارہے ہیں اُس سے تو غریبوں کی فصل سیراب ہوتے دکھائی نہیں دیتی البتہ معاشی ماہرین نے جانے کس کرتب سے حکومت کو بہتری کے اعشاریے دکھائے ہیں کہ وہ پھولے نہیں سمارہی لیکن عام عوام خط ِ غربت پہ کھڑی مہنگائی کی بے رحم دھکم پیل سے اپنا توازن برقرار نہیں رکھ سک رہی ۔وطن ِ عزیز سے غربت کا خاتمہ ،بیروزگاروں کی بڑھتی شرح کا سدباب کرنے میں کسی رہنماء کی اہلیت تو سامنے نہیں آئی بس وعدوں پر یا ان دیکھی طاقتوں کے سہارے انھیں مسند نشین ہوتے کئی بار دیکھا ہے جسے مسند مل جائے اُس کے لئے انتخابات منصفانہ وعوامی اعتماد کا مظہر ہوتے ہیں ان حالات اور ایسے طرز ِ سیاست میںجہاں قرضوں پر ملک چلانے کی روایات پنپ رہی ہوں اور دستیاب وسائل کو بروئے کار لانے والوں کا قحط پڑا ہو تو ایسی ریاست میں غربت بڑھتی ضرور ہے مگر کم نہیں ہوتی بڑی بڑی شاہراہیں دستیاب ہوتیں ہیں مگر اُن پر ترقی محو سفر تو ہوتے دکھائی نہیں دیتی وجہ اُس کی بدعنوانیوں کی بڑی بڑی کھائیاں ہیں جو ترقی کو اپنا نوالہ سمجھ کر چبا جاتی ہیںہماری خارجہ پالیسی کی چھتری میں پھلتی پھولتی دوستیاں بھی خود کفیل ممالک سے امداد لینے کا موقع جانے نہیں دیتیں انگریزی کہاوت ہے کہ وہ محبت جو تحفوں پر انحصار کرے ہمیشہ بھوکی رہتی ہے اور یہ بھوک اب نسل در نسل منتقل ہو رہی ہے نو عمر بچوں کا کھانا پینے کی اشیاء کو گندگی کے ڈھیر میں ٹٹولتے ہوئے آئی ٹی و ٹیکنالوجی کی جدت کے دور میں گرین ہیلمٹ پہن لینا ترقی نہیں ہے ایک نسل کی مکمل معاشی و اخلاقی بربادی ہے جس پر توجہ کی ضرورت ہے ملک یا اُس میں رہنے والی قومیں بھوک و افلاس میں رہنا نفسیاتی طور پر پسند نہیں کرتیں حصول رزق کی راہیں گر حکومتی پالیسیوں یا عدم توجہ کی بناء پر محدود ہو جائیں تو پھر جرائم گلی کوچوں سے نکل کر بڑی بڑی شاہراہوں کو نشانہ بنانے میں شرم محسوس نہیں کرتے گرین ہیلمٹ پہن کر نوجوان یا بوڑھا ایام ِ زندگی کی ضروری اشیاء کے لئے کے ہر سڑک اور ہر مصروف نُکر پر دکھائی دیتے ہیں مگر ذہن اسے ملکی ترقی سے تعبیر نہیں کرتا اسے پسماندگی کی جانب گامزن کہتا ہے دوران ِ رمضان گرین ہیلمٹ والے سے بات چیت کے دوران یہ عقدہ کھلا کہ وہ تعلیم ادھوری چھوڑ کر باہر کسی ملک میں نوکری کے حصول کے لئے پیسے جمع کر رہا ہے تا کہ ایک بندے کی معاشی سختی سہنے کی بدولت شاید گھر کے دیگر افراد اُن سختیوں کا سامنا نہ کریں جس کا سامنا اُسے درپیش ہے میرے ملک اس نوجوان نے اپنی معاشی تاریکیوں پر غم کی روشنی ڈالتے ہوئے بتایا کہ میں یا میری طرح کے دیگر مزدوری کرنے والے اس رمضان میں بھی اُن عام سہولتوں سے مستفید ہونے کی سکت نہیں رکھتے کھانے پینے کی اشیاء میں ہم پھل فروٹ یا کسی سبزی میں گوشت سے لطف انداز ہونے کا گھریلو بجٹ ہی رکھ سکتے ہیںحق حلال کی روکھی سوکھی کھا کر بھی معاشرے میں ہمیں اخلاقی طور پر وہ عزت نہیں دی جاتی جو ایک انسان کا پیدائشی ،و مذہبی حق ہے ہم تو پیٹ و بدن کی آگ میں اس قدر جھلسے سے ہوتے ہیں کہ اپنے زخموں کی مرہم بھی امدادیں لے کر کرتے ہیں گویا گندگی کے ڈھیروں سے گرین ہیلمٹ تک کے معاشی سفر کو کسی بھی ترقی سے منسوب کرنا قوم کی آنکھوں میں دھول جھونکنے والی بات ہے سچائی نہیں سچائی کی یہ مفلسی ہمیں تحریک ِ انصاف کے دور حکومت میں بھی دیکھنے کو ملی اور آج بھی قوم ایسی ہی غربتوں کے جال میں ہے ۔