ہان کانگ کے ناول ’’دی وجیٹیرین‘‘پر دوسری نظر

جنوبی ایشیاء میں ادب کا نوبل انعام حاصل کرنے والی پہلی ناول نگار خاتون ہان کانگ کے ناول دی ویجیٹیرین کا اُردو ترجمہ شاکا ہاری کے نام سے سامنے آیا۔نوبل انعام یافتہ ہونے کی وجہ سے اِسے شوق سے پڑھا۔ اپنی پہلی خواندگی کے تاثرات ایک کالم جنوبی کوریا کی مصنفہ کا شاکا ہاری ناول میں پیش کئے تھے۔ مجھے اس ناول نے متاثر نہیں کیا تھا، اور اُردو ترجمہ بھی چونکہ کورین کی بجائے انگلش ترجمے کی بنیاد پر ہوا تھا ،اس لیے تشنہ اور کم تاثیر محسوس ہوا۔لیکن اس ناول پر دوسری نظر ڈالنے کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ گرشتہ سال جنوبی کوریا میں لگنے اور چھ گھنٹے بعد ہٹنے والے مارشل لاء کے صرف تین روز بعد سویڈن کے شہر اسٹاک ہالم کی سویڈش اکیڈمی میں دنیا بھر سے آئے ہوئے صحافیوں کے روبرو ہان کانگ نے خطاب کرتے ہوئے اپنے ملک میں مارشل لاء کے نفاذ اور پھر چھ گھنٹے کے اندر اندر خاتمے پر اپنے ذاتی تاثرات اور مشاہدات بیان کئے، تو اس ناول کے زیادہ تناظرات واضح ہو کر سامنے آنے لگے۔سویڈش اکیڈمی میں ہان کانگ سے ان کے ناول کے حوالے سے گفتگو سننے اور ان کے ادبی نصب العین کو سمجھنے کے منتظر سامعین نے کسی حد تک ہان کانگ کی طرف سے چھ گھنٹے والے مارشل لاء کے تذکرے اور اس کی معنویت کو سمجھنے کی کوشش ضرور کی ہو گی، اور یہ امر واضح ہو کر سامنے آ گیا ہوگا کہ جنوبی کوریا میں 1979ء میں لگنے والےخونریز مارشل لاء کے احوال و مآل کا ہان کانگ کے انعام یافتہ ناول دی وجیٹیرین سے گہرا تعلق ہے۔ہان کانگ نے 1979ء والے مارشل لاء کے احوال پڑھے یا سنے تھے، یا اس کے اثرات اپنے معاشرے پر محسوس کئے تھے ، اور یہی اثرات دی وجیٹیرین کی علامتی حیثیت کا تعین بھی کرتے ہیں۔اس مترجم ناول کے پہلے مطالعے کے بعد میں نے اپنے ایک کالم بہ عنوان ’’جنوبی کوریا کی مصنفہ کا شاکا ہاری ناول‘‘ میں لکھا تھا کہ…1961ء میں جنوبی کوریا کو ایک فوجی بغاوت کا تجربہ ہوا اور ایک جنرل مسمی جنرل پارک چنگ ہی حکمران گروہ کا سرغنہ بن گیا ، بعد ازاں 1963ءمیں اسی جنرل کو صدر منتخب کر لیا گیا۔تماشا جاری رہا اور 1972 ء میں ایک ریفرنڈم کا ڈرامہ رچا کر جنرل پارک چنگ ہی کو غیر معینہ مدت کے لیے ملک کا صدر بنے رہنے کا اختیار تفویض کر دیا گیا۔ بالآخر 1979ء کے اواخر میں کوریا کی اپنی خفیہ والوں نے جنرل پارک چنگ ہی کو قتل کر دیا ،اور 1980ء میں جنوبی کوریا کی ملٹری انٹیلی جنس کے سربراہ جنرل جن دوھواں نے ملک میں مارشل لاء نافذ کر دیا ۔عوام کی طرف سے قدرے مزاحمت ہوئی لیکن اس مزاحمت کو بے دردی سے کچل دیا گیا۔ جنوبی کوریا کی یہاں تک کی کہانی تو پاکستانیوں کے لیے بالکل اجنبی نہیں ، بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ یہ تو گھر جیسی بات معلوم ہوتی ہے، تو کچھ غلط بھی نہیں ہوگا۔ کیا یہ محض اتفاق ہے کہ نوبل انعام یافتہ مصنفہ ہان کانگ جنوبی کوریا کے اس شہر گوان جو میں پیدا ہوئی تھی، جہاں مارشل لاء حکومت کے خلاف شہریوں کی طرف سے خونریز مزاحمت ہوئی تھی۔ 1980 ہان کانگ کا سال پیدائش ہے اور اسی سال مارشل لاء کے خلاف مزاحمت اور مظاہرہ کرنے والے یونیورسٹی طلباء پر فوج نے براہ راست فائرنگ کر کے انہیں ہلاک کر دیا تھا، بیشتر طالبات کی آبرو ریزی بھی کی گئی تھی۔ سرکاری فوج کے اس وحشیانہ اقدامات کے خلاف گوان جو کے شہریوں نے اسلحہ خانوں اور پولیس اسٹیشنوں پر حملہ کرکے اسلحہ لوٹ لیا اور بغاوت کردی تھی ۔ناول کے حواشی میں درج ہے کہ ؛ فوج کے خلاف اس بغاوت میں چھ سو شہری ہلاک ہوئے تھے۔ گوان جو شہر کا یہی وہ بغاوت والا سال ہے جس میں ہان کانگ نامی مصنفہ نے جنم لیا تھا۔ناول کے استعاراتی نظام کا بہ احتیاط مطالعہ گوان جو بغاوت میں جان گنوانے اور بچ رہنے والوں کی طرف اشارہ کرتا دکھائی دے جاتا ہے۔ ہان گانگ کا یہ ناول بنیادی طور پر تین مختلف عنوانات کے ناولچوں کی صورت کورین زبان میں علحدہ علحدہ شائع ہوا تھا۔اسی کو بعد ازاں یک جا کرکے ایک ناول کی صورت The Vegetarian کے نام سے پیش کیا گیا۔ ناول کورین زبان میں لکھا گیا، انگریزی میں ترجمہ ہوا ،پھر وہیں سے اُردو زبان میں۔تو یہ اندازہ قائم کرنا مشکل ہے کہ کورین زبان کے تاثر اور تاثیر کی ترسیل انگریزی سے ہوتی ہوئی اُردو تک آتے آتے کتنی باقی رہ پائی تھی۔لیکن کہانی اور کردار دیکھے سمجھے جا سکتے ہیں۔۔۔ ہان کانگ طاقتور بزدلوں کی طرف سے نہتے اور پرامن لوگوں پر تشدد اور ظلم برداشت کرتے رہنے والے لوگوں کی غیر مختتم مزاحمت اور اس مزاحمت کی بدلتی صورتوں پر لکھنے اور انہی تصورات کو کہانیوں کے علامتی جال میں الجھا کر پیش کرنے میں مہارت رکھتی ہیں۔اس ناول کے گوشت خور ایک خاص ذہنیت اور چلن کے حامل لوگوں یا طبقات کی نمائندگی کرتے ہیں۔یعنی یہ کہ ناول نگار کسی نہ کسی زندہ چیز کو ختم کر کے اپنی خوراک کا حصہ بنانے کی عادت کو کہیں نہ کہیں بندوق کے زعم میں مارشل لگانے والے احمقوں کے مماثل قرار دے رہی ہوتی ہیں۔ہان کانگ جانتی اور سمجھتی ہے کہ ظلم کرنے والے بنیادی طور پر بزدل اور اندر سے خوفزدہ لوگ ہوتے ہیں۔اور یہ بزدل اور خوفزدہ لوگ اپنے احساس کمتری کے سامنے کسی پراعتماد ذی روح کا وجود پسند اور برداشت نہیں کرتے ۔آمریت کے گدھے پر سوار ہونے والے اپنے سامنے ڈرے سہمے ،گھبرائے ہوئے ہجوم کو پسند کرتے ہیں۔اس ناول میں ایک ایسے ہی شوہر کے کردار کی مدد سے بزدل، کمتر ، احساس کمتری کے مارے مگر تسلط پسند آمر کو پیش کیا گیا ہے ۔ناول کے مرکزی کردار یونگحے کا شوہر ایک ایسے ہی اندر سے ڈرے سہمے اور خوفزدہ تسلط پسند مرد یا مرد نما کے طور سامنے آتا ہے ، ایسے کردار اپنے مقابل کس طرح اور کس قابلیت کی رعایا یا مخلوق پسند کرتے ہیں۔ناول کا آغاز ہی ناول کے ماساہاری کردار (شوہر) کے اس بیان سے ہوتا ہے کہ…جب تک میری بیوی شاکا ہاری نہیں ہوئی تھی ، میں اسے ایک معمولی عورت سمجھتا تھا، ہر لحاظ سے انتہائی معمولی عورت ۔ سچ کہوں تو جب میں اُس سے پہلی بار ملا تو مجھے اُس میں رتی بھر کشش محسوس نہیں ہوئی ۔ درمیانہ قد، باب کٹ بال نہ زیادہ لمبے نہ زیادہ چھوٹے ، یرقان زدہ سی بیمار جلد، اُبھری ہوئی رُخساروں کی ہڈیاں ۔ اُس کے ڈرے سہمے، زرد چہرے نے مجھے اس کی شخصیت کے بارے میں وہ سب کچھ بتا دیا جو مجھے جاننے کی ضرورت تھی۔ جیسے ہی وہ میز کے پاس آئی، جہاں میں بیٹھا اُس کا انتظار کر رہا تھا، میں اُس کے جوتوں پر توجہ دیے بغیر نہیں رہ سکا سادہ ترین سیاہ جوتے ۔ اور اُس کی وہ چال نہ تیز نہ آہستہ، قدم نہ زیادہ بڑے نہ چھوٹے ۔ لیکن اگر اُس میں کوئی غیر معمولی خوبی یا کشش نہیں تھی تو کوئی خامی بھی نہیں تھی ، لہٰذا شادی نہ کرنے کے لیے بھی ہم دونوں کے پاس کوئی وجہ نہ تھی۔۔۔ مرکزی کردار یونگحے کا شوہر اپنے انتخاب کی مزید وضاحت کرتے ہوئے کہتا ہے کہ…ایسی جامد شخصیت کی عورت جس کی ذات میں مجھے کوئی تازگی، دلکشی یا خوبی نظر نہیں آتی تھی میرے لیے نہایت موزوں تھی۔ اس کا دل جیتنے کے لیے مجھے بہت پڑھا لکھا نظر آنے کی ضرورت نہیں تھی۔ اس بات کی بھی پریشانی نہیں تھی کہ وہ میرا موازنہ ماڈلنگ کرنے والے خوش شکل اور خوش لباس مردوں کے ساتھ کرے گی۔ میں اگر کبھی کسی ملاقات پر دیر سے پہنچتا تب بھی وہ شکوہ شکایت نہیں کرتی تھی۔ میری توند پچیس چھبیس برس کی عمر میں ہی باہر نکلنے لگی تھی، پہلی ٹانگوں اور بازوؤں نے تمام تر کوششوں کے باوجود فربہ ہونے سے قطعاً انکار کر دیا تھا، اپنے عضو تناسل کے سائز کی وجہ سے میں احساسِ کمتری میں مبتلا تھا۔ لیکن مجھے یقین تھا کہ ان مسائل کی وجہ سے مجھے اس کی طرف سے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ یونگحے کے شوہر کے کردار کی جزئیات ہمیں ایک آمر مطلق کی ،اپنے مقابل رعایا کے حوالے سے ذہنی ترجیحات ، رجحانات اور خواہشات کی طرف متوجہ کرتی ہیں۔جب وہ اقرار کرتا ہے کہ …میں ہمیشہ سے ہر معاملے میں آسان راستہ اختیار کرتا تھا۔ اسکول میں بھی اپنے ہم عمر بچوں کے درمیان رہ کر کوئی خطرہ مول لینے کے بجائے، میں اپنے سے دو تین سال چھوٹوں کے ساتھ رہتا تاکہ ان پر دھونس جما سکوں ۔ اسکول کے بعد میں نے ایڈمیشن فارم بھی ان کالجوں میں بھیجے جہاں مجھے آسانی سے مکمل اسکالر شپ مل سکے۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد میں نے ایک چھوٹی سی کمپنی میں نوکری کر لی جہاں محنت سے اپنا کام کرنے کے عوض مجھے معقول ماہانہ تنخواہ مل جاتی تھی۔ اور مجھے امید تھی کہ چھوٹی کمپنی ہونے کی وجہ سے یہاں میری عام سی صلاحیتوں کی قدر کی جائے گی ۔.. تو گویا وہ ایک طرح سے اپنی ان کمزوریوں کا برملا اعتراف کر رہا ہوتا ہے ،کہ جن کے وجود سے وہ ہمیشہ انکار کرتا رہتا ہے۔دراصل ہر تسلط پسند اندر سے ڈرا سہما اور خوفزدہ شخص یا گروہ ہوتا ہے۔وہ اپنے خوف کو چھپانے کے لیے دوسروں کے لیے خوفناک اور اپنی بزدلی کو چھپانے کے لیے دوسروں کے سامنے اپنی فاسق بہادری اور بے بنیاد شجاعت کا مظاہرہ کرنے یا ایسا ہونے کا تاثر پھیلانے میں عافیت محسوس کرتا ہے۔وہ اپنے مقابل ہمیشہ کمزور اور گبھرائے لوگوں کو پسند کرتا ہے ، اگر اسے شبہ بھی ہو جائے کہ مقابل فرد یا رعایا کمزوری یا گبھراہٹ کا شکار نہیں ہے تو وہ کوشش کر کے اسے کمزور اور خوفزدہ کرنے کا اہتمام کرتے ہیں۔ناول میں ماسا ہاری شوہر کا کردار ایک ایسے ہی تسلط پسند لیکن پرلے درجے کے احساس کمتری کے مارے شخص کا ہے ،جو شاید اپنے طرز فکر و عمل کے اعتبار سے کسی غاصب گروہ کی نمائندگی بھی کرتا دکھائی دیتا ہے۔یاد رکھنا چاہیےکہ احساس کمتری کے مارے بزدل آمر (یا شوہر) اقتدار و اختیار کے نشے میں دھت اپنے مقابل کو فتح یا تسخیر کرنے میں لذت محسوس کرتا ہے ۔ شاید یہی وہ مقام ہے جب گوشت، گوشت سے بنی ہر شے اور ہر گوشت خور سے شدید نفرت جنم لیتی ہے۔ یونگحے کا سبزی خور بننا، اس کی مزاحمت کا اعلان و اظہار ہی تو ہے۔ یہ مزاحمت اسے گوشت خوری کے مقابل نباتات دوستی کی طرف مائل کرتی دکھائی دیتی ہے۔ناول کے بقیہ دو حصے یونگحے کی اسی نباتات دوستی کی حیرت انگیز کہانی بیان کرتے ہیں۔ یہ جانتے اور سمجھتے ہوئے کہ یونگحے خود بھی گوشت پوست کے بنے ایک جسم پر مشتمل ہے،اس نے سب سے پہلے اپنے جسم کے اندر کی تمام تر خواہشات کو از خود ختم کر لیا تھا اور پھر نوبت یہ آگئی تھی کہ… یونگحے کے لیے ایسے برہنہ لیٹنے میں کوئی شہوانی عنصر نہیں تھا۔ دراصل اس نے وہ زندگی ہی دھتکار دی تھی، جس کا مظہر اس کا جسم تھا۔ یوں وہ گوشت پوست کی دنیا سے نکل کر نباتات کا حصہ بنتی چلی گئی ۔یونگحے شاید جان چکی تھی کہ اس پر گزرنے والے ہر عذاب کا نشانہ اس کا جسم بنتا تھا، اس کا دل ،ذہن اور روح اس کے فانی جسم سے کہیں زیادہ طاقتور اور اسی لیے دیرپا تھے۔وہ شاید سمجھ چکی تھی کہ انسانی زندگی اور انسانی معاشرے میں بزعم خود طاقتور ذہنی مریضوں کو سادہ ، پرامن اور سب کے لیے خیر طلب انسانوں پر تشدد کرنے سے روک پانا ناممکن یا بےحد مشکل ہے ،تو کیا کیا جائے ؟ کیا زندگی نامی کھیل کے میدان سے باہر نکل جانا ہی اس مسلے کا حل ہے؟ اگر یہ راز سمجھ میں آ جائے کہ دوسری دنیا بھی پہلی دنیا ہی کا ایک ناگزیر اور منسلک حصہ ہے ،تو شاید انسانی مزاحمت اور نجات کے طور طریقے تبدیل ہو سکتے ہیں۔ورنہ استاد ذوق کے اس سوال کا جواب تو ہان کانگ کے ناول میں بھی نظر نہیں آ رہا کہ :
اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے
مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے!