پاکستان میں پہلی ٹرین ہائی جیکنگ! جعفر ایکسپریس کا سانحہ، ایک اور فوجی انٹیلی جنس کی ناکامی

جیسا کہ ہم نے پچھلے کالم میں بھی پاکستان کے چاروں بڑے انٹیلی جنس اداروں آئی ایس آئی، ایف آئی اے، آئی بی اور ایم آئی کی دہشت گردی کے حوالے سے مسلسل ناکامیوں کا ذکر کیا تھا، اس ہفتے ایک مرتبہ پھر ان خفیہ اداروں نے اپنی مسلسل ناکامیوں کا تسلسل جاری رکھا، کوئٹہ سے جانے والی نو بوگیوں کی ٹرین جعفر ایکسپریس کو دہشت گردوں نے سبی کے قریب دھماکے سے ٹرین کی پٹڑی کو ٹنل نمبر 5سے پہلے اڑا کر یرغمال بنا لیا۔ جعفر ایکسپریس میں پانچ سو سے زائد مسافروں کو اغواء کیا ہوا ہے۔ 36گھنٹے گزر چکے ہیں، حکومت اور فوج اصل حالات کو چھپارہے ہیں، صرف 26دہشت گردوں کو مارنے کی خبریں آرہی ہیں۔ نہ مسافروں کی ہلاکتوں کی کوئی خبر ہے اور نہ فوج کے اہلکاروں کے کوئی نمبرز دئیے جارہے ہیں۔ مجبوراً لوگ غیر ملکی میڈیا اور سوشل میڈیا پر دھیان دے رہے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق 20سے زائد فوجی اہلکار جاں بحق ہو چکے ہیں، 17سے زائد زخمی مسافر ہسپتالوں میں لائے گئے ہیں۔ بے وقوف جنرلز یہ سمجھ رہے ہیں کہ خبروں کا بلیک آئوٹ کر کے وہ صورت حال کو اطمینان بخش ظاہر کر سکتے ہیں مگر وہ احمق الجزیرہ سے لیکر بی بی سی تک اور سی این این سے لیکر اے بی سی تک سارا بین الاقوامی میڈیا اپنی اپنی خبریں نشر کررہا ہے اور ایسے میں افواہیں گردش کررہی ہیں اور لوگوں میں خوف و ہراس پھیل رہا ہے، خصوصاً مسافروں کے وہ رشتہ دار زبردست دبائو کا شکار ہیں اور یوں پانچ سو سے زائد خاندانوں کے سروں پر تلوار لٹکی ہوئی ہے۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نو بوگیوں والی ٹرین کو قابو کرنے کیلئے اس سنسان علاقے میں کم از کم ڈیڑھ سو گاڑیاں اور دو سو بی ایل اے کے دہشت گرد تو حرکت میں آئے ہوں گے۔ کیا خفیہ ایجنسیاں اس قدر بے خبر تھیں اور خواب غفلت میں محو تھیں کہ اتنا بڑا موومنٹ ہی ان کے رڈارمیں نہ آسکا؟ بلوچستان کی حکومت اور خفیہ اداروں کے پاس سیٹلائٹ فونز تک نہیں تھے کہ مقتول ٹرین ڈرائیور اس حادثے سے پہلے خبر بھی نہ دے سکا۔ نائن الیون کے بعد سے آج تک امریکہ کی اندرون ملک اور بیرون ملک ہوائی جہازوں کی پروازوں میں کم از کم دو اسلحہ بردارسویلین ڈریس میں کمانڈوز موجود ہوتے ہیں۔ جب بلوچستان میں گزشتہ تین سالوں سے بگڑتے ہوئے حالات ہیں صوبائی حکومتوں اور خفیہ ایجنسیوں نے نو بوگیوں والی جعفر ایکسپریس میں کوئی بھی سکیورٹی اہلکار نہیں تعینات کئے تھے؟ اگر تعینات تھے تو کیا ان کے پاس سیٹیلاٹ فونز موجود نہیں تھے جن کے ذریعے وہ حکومت اور فوج کو بروقت اطلاعات پہنچا سکتے؟ ٹرین کو ہائی جیک کئے جانے کے کئی گھنٹوں بعد وہاں پر پہلا ملٹری یا ایئرفورس کا ہیلی کاپٹر نظر آیا۔ اس عرصے میں دہشت گرد تمام بوگیوں میں مسافروں کے درمیان خودکش جیکٹس پہنے خودکش حملہ آور بٹھا چکے تھے۔ ٹرین میں موجود فوجی جوانوں کو اغواء کر کے اپنے ساتھ پہاڑوں پر لے جا چکے تھے تاکہ وہ حکومت کی تحویل میں موجود اپنے دہشت گردوں کو بازیاب کرانے کیلئے ان فوجیوں کو استعمال کر سکیں لیکن حکومت اور آرمی تو سوئی ہوئی تھیں۔ نہ انہیں اپنے فوجی جوانوں کی پرواہ ہے اور نہ ہی پانچ سو سے زائد مسافروں اور ان کے اہلخانہ کی کوئی فکر ہے۔ اگر امریکہ کی کسی ریاست میں اتنی خوفناک صورتحال ہوتی تو ساری فیڈرل حکومت اور خفیہ ادارے اور سرکاری فوجی نیم فوجی اہلکار اس ریاست میں ڈیرہ ڈال کر لمحے لمحے کی میڈیا کو بریفنگ دے رہے ہوتے مگر ہمارے ہاں عین اس وقت پر جب دہشت گرد ٹرین کو رہائی جیک کررہے تھے، ہمارے خفیہ اداروں کے اہلکار کوئٹہ میں پی ٹی آئی کے رہنما عادل بازئی کے گھر اور بزنس کو ملیا میٹ کرنے میں مصروف تھے تو اب آپ کو سمجھ آیا کہ ہمارے انٹیلی جنس ادارے کہاں مصروف ہیں؟ ان خوفناک حالات میں بھی سرکاری میڈیا آرمی کے کہنے پر جھوٹ بول رہا ہے کہ 80عورتوں اور بچوں کو رہا کروالی گیا ہے۔ ارے بھائی انہیں بلوچ لبریشن آرمی والوں نے رہا کیا تھا، شناخت کرنے کے بعد پھر کہا جارہا ہے کہ دہشت گرد افغانستان میں مسلسل اپنے ماسٹر مائنڈ سے رابطے میں ہیں تو جناب ان رابطوں کاآپ کو واردات سے پہلے کیوں علم نہ ہوا، اس وقت خفیہ ادارے کہاں تھے، ہمیں نہیں معلوم کہ یہ کالم آپ تک پہنچنے تک کتنے بے گناہ مسافر خودکش حملہ آوروں کا نشانہ بن چکے ہوں گے، کتنے عیدکی چھٹیاں منانے کیلئے گھروں پر جانے والے سکیورٹی اہلکار مغریوں کا نشانہ بنا چکے ہوں گے اور کتنے ہمارے فوجی جوان اس لڑائی میں شہید ہوچکے ہوں گے؟
چلیں کوئی بات نہیں، عادل بازئی سے تو ایجنسیوں نے بدلہ لے لیا نا، احمد فرہادکی بیوی کو تو قتل کیس بنا کر جیل میں ڈال دیا نا، کیا ہوا جو پانچ سو لوگوں کی جانیں حلق میں اٹکی ہوئی ہیں!