آزمائش اور ابتلا کا وقت عام آدمی کے علاوہ لیڈروں کیلئے بھی امتحان کا وقت ہوتا ہے کٹھن حالات میں لوگ رہنمائوںسے غیر معمولی قائدانہ صلاحیتوں کی توقع رکھتے ہیںصوبائی اور قومی سطح کے سیاستدانوں سے لیکر وزیروں‘ گورنروں‘ صدر اور وزیر اعظم تک ہر لیڈر کومشکل وقت میں لوگوںسے اپنے تعلق اور وابستگی کا ثبوت واضح‘ دو ٹوک اور جرات مندانہ قیادت کی صورت میںپیش کرنا پڑتا ہے اس امتحان میں کامیابی حاصل کرنے کیلئے کن خصوصیات کی ضرورت ہوتی ہے اس سوال کا جواب پانے کیلئے ممتاز امریکی کالم نگار ٹام فریڈمین نے ایک ماہر سماجیات Dov Seidman سے چند سوالات پوچھے سیڈمین دو ایسے اداروں کے سربراہ ہیںجو Ethics (علم الاخلاق) اصول اور ضابطے پر مبنی سیاست کی ترویج کرتے ہیںان میں سے ایک ادارے کا نام How Institute Of Society اور دوسرے کا LRN ہے یہ دونوں ادارے امریکہ کے ہزاروں عوامی نمائندوںکو اپنی تحریروں‘ کانفرنسوں اور سیمینارز کے ذریعے اعلیٰ انسانی اقدار پر مبنی سیاست کی ترغیب دیتے ہیں ٹام فریڈمین کا یہ انٹرویو نیو یارک ٹائمز میں بائیس اپریل کوشائع ہوااس کا ترجمہ ملاحظہ فرمائیے
سوال ۔۔۔دوسری جنگ عظیم کے بعد اب پہلی مرتبہ یہ سوال اہمیت اختیار کر گیا ہے کہ کونسی خوبیاں ایک لیڈر کو عظیم بنا سکتی ہیں
جواب۔۔۔کسی بھی معاشرے میں قیادت صرف سیاسی حلقوں تک محدود نہیں ہوتی بلکہ یہ سماج کی ہر سطح پر موجود ہوتی ہے ہر دور میں قیادت کو پرکھنے کے اپنے اصول‘ پیمانے اور معیار ہوتے ہیںلیڈرشپ کسی بھی دور کی ہو ا س میں اساتذہ‘ پرنسپل‘ ڈاکٹرز‘ اداروں کے سربراہ‘ مئیرز‘ وزیر‘ گورنرز‘ ریاستی سربراہ ‘ میڈیا شخصیتیں اور والدین شامل ہوتے ہیںان لیڈروں کو ہر جگہ مشکل اخلاقی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے انہیں اکثر کئی پیچیدہ آپشنز میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑتا ہے ایسا اسلئے ہے کہ چند ماہ پہلے جو بحران محض صحت عامہ تک محدود تھا اب وہ ایک بڑا انسانی المیہ بن چکا ہے اس نے عالمی معیشت کو اتنی بری طرح تباہ کیا ہے کہ جسکی مثال ڈھونڈنا مشکل ہے اور اب یہ اس لحاظ سے ایک اخلاقی بحران بھی بن چکا ہے کہ اسنے لیڈروں کو انسانی زندگی اور روزگار میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنے کے دوراہے پر لا کھڑا کیا ہے اسکے ساتھ ہی سوشل میڈیا کے اس دور میں خوف ‘ ہیجان اور ڈس انفارمیشن اتنی تیزی سے اور اتنے بڑے پیمانے پر پھیل رہا ہے کہ ہر لیڈر کو کڑی تنقید کا سامنا کرنا پڑرہاہے اسے مختلف زاویوں سے پرکھا جارہا ہے اس اعتبار سے نئے دور کے لیڈروں کو پہلے سے کہیں زیادہ چیلنجوں کا سامناکرنا پڑ رہا ہے
سوال۔۔ یہ درست ہے کہ آجکل لیڈر شپ آسان نہیں ہے اور شائد اسی لئے یہ سوال اہمیت اختیار کر گیا ہے کہ آج کے دور میں ایک اچھے لیڈر میں کیا خوبیاں ہونی چاہئیں
جواب۔۔ عظیم لیڈر ہر دور میں سچ بولتے ہیں وہ مشکل فیصلے اقدار اور اصولوں کی بنیاد پر کرتے ہیں وہ سیاست ‘ شہرت اور ذاتی منفعت کو خاطر میں نہیں لاتے عظیم لیڈر جانتے ہیں کہ جب بہت سے کمزور اور خوفزدہ لوگ اپنی زندگی اور اپنے روزگار جیسے اہم ترین فیصلے اپنے لیڈروں کے ہاتھوں میں ڈال دیتے ہیں اور وہ تمام قربانیاں دیتے ہیں جنکا ان سے تقاضا کیا جاتا ہے تو پھر لیڈروں کے پاس سچ بولنے کے علاوہ دوسرا کوئی راستہ نہیں رہتا وہ لیڈر جو سچ خواہ وہ کتنا ہی کڑوا کیوں نہ ہو بولتے ہیںان پر لوگ زیادہ اعتماد اور بھروسہ کرتے ہیں ایسے وقت میں لوگ لیڈروں سے یہ کہہ رہے ہوتے ہیں کہ دیکھو میں نے اپنی زندگی کے اہم فیصلے تمہارے حوالے کر دئے ہیں اب خیال رکھنا ‘ مجھ سے جھوٹ نہ بولنا اور میرے اعتماد کو دھوکہ نہ دینا اس بحران کے گذر جانے کے بعد ہمیں وہ لیڈر یاد رہ جائیں گے جنہوں نے اس مشکل وقت میں ہماری زندگی کو کسی تذبذب میں ڈالنے کی بجائے سچ کی روشنی سے منور کیا جنہوں نے ہمارے ساتھ اعتماد اور بھروسے کا رشتہ قائم کیا
سوال۔۔۔میں نے ایک مرتبہ آپ سے پوچھا تھا کہ مجھے نیلسن مینڈیلا کی شخصیت میں صرف ایک ایسی خوبی بتائیں جس نے اسے عالمی سطح کا لیڈر بنا دیا توآپ نے صرف ایک لفظ میں جواب دیا تھا وہ لفظ تھا ’’ عاجزی‘‘ (Humility) ایسا کیوں ہے
جواب۔۔۔ لوگ سچائی اور امید کے علاوہ ایک لیڈر سے جس بات کی توقع رکھتے ہیں وہ عاجزی ہوتی ہے مجھے ایسے لیڈر پسند ہیں جو غیر یقینی حالات میں یہ کہنے سے نہیں ہچکچاتے کہ I dont know وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ میں اس سوال کے جواب کیلئے بہترین ماہرین سے رابطہ کروں گا اور پھر آپکو انکے جواب سے آگاہ کروں گا کبھی کبھار بہت بڑے سائنسدان بھی اپنے شعبے سے متعلق کسی مشکل سوال کا جواب نہیں دے سکتے عاجز لیڈر دراصل اپنے آپ کو بڑا بنا کر پیش نہیں کرتے وہ لمحہ موجود سے چھوٹا نظر آنے کو ترجیح دیتے ہیںوہ جانتے ہیں کہ وہ اکیلے ہر مسئلے کوحل نہیں کر سکتے وہ دوسروںکو اپنے کام میں شامل کرتے ہیںاور انکے ساتھ ملکر آگے بڑھتے ہیں سوال۔۔۔ آپ کے خیال میں گورنرز‘ میئرز اور ریاستی سربراہ کو اس پیچیدہ مسئلے کو کیسے ہینڈل کرنا چاہیئے کہ اکانومی کو محفوظ طریقے سے کب کھولا جائے
جواب۔۔۔اس صورتحال میں کامیاب اور مضبوط لیڈر وہ ہوں گے جنکے سامنے ایک واضح لائحہ عمل ہوگا ایک ایسا منصوبہ ہو گا جسکے بارے میں وہ کسی ابہام کا شکار نہ ہوں گے وہ جانتے ہوں گے کہ انکے راستے کی مشکلات کیا ہیں‘ وہ لوگوں سے کس طرز عمل کا تقاضا کریں گے ‘ وہ ماہرین سے رابطے استوار رکھیں گے‘ اپنے کام کو تندہی سے کریں گے ‘ وہ ہر کام شفاف طریقے سے کریں گے وہ دستیاب اعدادو شمارکی مدد سے فیصلے کریں گے اور جدید ٹیکنالوجی کا مئوثر استعمال کریں گے وہ کمزور ترین لوگوں کو زیادہ توجہ دیں گے اور فرنٹ لائن پر کام کرنیوالوں کو ہر قسم کا تحفظ مہیا کریں گے
سوال۔۔۔۔ زندگی جو کہ اچانک رک گئی ہے اسکا یہ سست رفتار لمحہ ہمیں کیا کہہ رہا ہے
جواب۔۔ اس سست رفتار لمحے میں ہمارے پاس یہ موقع ہے کہ ہم ان تمام معاملات پر غورو فکر کریںجو اس المناک تباہی نے ہمارے اور ہمارے معاشرے کے بارے میں ہم پر ظاہر کئے ہیںکچھ دیر کیلئے رک جانا اور غورو فکر کرنا ایک نئے اور اچھے آغاز کا باعث بن سکتا ہے یہ ہمیں موقع دیتا ہے کہ ہم یہ تصور کریں کہ ہم پہلے سے بہتر‘ مختلف اور زیادہ صحتمند زندگی کیسے گذار سکتے ہیں ہم کیسے ایک ایسا معاشرہ تخلیق کر سکتے ہیں جو مساوات پر مبنی ہو اور جسمیں ہر کسی کو برابر کے مواقع حاصل ہوںان مقاصد کو حاصل کرنے میں جو عزم و استقلال اور ذہانت سے ہماری رہنمائی کریں گے وہی بڑے لیڈرکہلانے کے مستحق ہوں گے۔
عتیق صدیقی
Prev Post