مشرق وسطیٰ میں تبدیلیاں تشویشناک ہیں؟

720

دنیا میںکورونا وائرس کی وباء کو روکنے کے لیے جو اقدامات لیے گئے انہوں نے دنیاکا نقشہ بدل دیا۔ اس کے پھیلائو پر قابو پانے کے لیے ضروری تھا کہ عوامی ذرائع آمد و رفت جیسے بسیں، ٹرین اور ہوائی جہازوں کو مکمل طور پر پابند کیا جاتا۔ اس کے ساتھ ساتھ جب سوائے اشیائے خورد و نوش اور دوا خانوںکے باقی سب شاپنگ بھی بند کر دی گئی اور سکول اور دفاتر بھی بند کر دیے گئے ۔ ریسٹورانٹ بند ہو گئے۔ ان سب احتیاطی تدابیر کے نتیجہ میں کاروبار زندگی ٹھپ ہو کر رہ گیا۔ اور چونکہ ذرائع آمدو رفت زیادہ تر بند ہو گئے تو پٹرول کی مانگ ایک دم نیچے گر گئی۔ چونکہ ساری دنیا میںیہی ہوا تو عالمی منڈی میں تیل کی قیمت صفر سے بھی نیچے آ گئی۔یعنی تیل بردار سینکڑوں جہاز سمندروں میں کھڑے گاہکوں کا انتظار کر رہے تھے اور کچھ تو قیمت سے بھی کم میں تیل دینے کے لیے تیار تھے۔اس کے نتیجے میں وہ ممالک جنکی آمدنی کا ایک اہم ذریعہ تیل کی فروخت تھی اور وہ متواتر تیل کی پیداوار جاری رکھنا چاہتے تھے۔ ان حالات میں ، تیل کی پیداوار کرنے والے ممالک کے ادارے میں روس اور سعودی عرب میں اختلاف پیدا ہو گیا ۔ روس چاہتا تھا کہ تیل کی پیداوار کم کی جائے تا کہ قیمتوں میں اضافہ ہو۔سعودی عرب پیداوار کو کم کرنے کے حق میں نہیں تھا اور میکسیکو بھی۔تیل کی قیمتیں زمین پر آ جانے سے تیل کی کمپنیوں کو جو زیادہ تر امریکہ میں ہیں، انکے حصص کی قیمتیں بہت گر گئیں۔جس پر انہوں نے صدر ٹرمپ پر زور ڈالا کہ سعودی عرب کو پیداوار کم کرنے پر مجبور کیا جائے۔ٹرمپ نے سعودی عرب کو دھمکی دی کہ اگر سعودی تیل کی روزآنہ پیداوار کم نہیں کریں گے تو امریکہ نے جو انکو ملٹری حصار دیا ہوا ہے، وہ اٹھا لے گا ۔ ٹرمپ کا اشارہ ان اینٹی میزائل توپوں کی طرف تھا جو ایران سے آنے والی میزائل سے بچنے کے لیے لگائی گئی تھیں۔ اس کے علاوہ سعودی دفاع کے لیے جو فوجی دستے تعینات تھے ان کو بھی واپس بلانے کا عندیہ دے دیا۔ ٹرمپ کی اس دھمکی کو موثر بنانے کے لیے ایک امریکی سینیٹر بِل کیسیڈی نے ایک قانون کا مسودہ پیش کر دیا جس میں ان سب ممالک کو جو تیل کی پیداوار کرتے ہیں، ۱۵ بلین بیرل یا ۱۵ فیصد مقدار کم کرنے پر مجبور کیا جانا تھا ۔ کانگریس سعودی عرب کے خلاف قدم اٹھانے کے لیے تیار تھی۔ ٹرمپ نے روس اور سعودی عرب دونوں سے اکٹھے ٹیلیفونک رابطہ کیا جس میں سعودی عرب نے تیل کی پیداوار کم کرنے کا وعدہ کر لیا۔ ٹرمپ نے میکسیکو کے ساتھ بھی مفاہمتی فیصلہ کروا لیا۔سعودی عرب نے تیل کی پیداوار دو ماہ کے لیے روزآنہ 9.7 ملین بیرل کم کرنا منظور کیا۔لیکن با خبر ذرائع کا کہنا ہے کہ مل ملا کر کُل ۳۵ ملین بیرل مانگ میں کمی رہے گی۔
اس سارے ڈرامہ سے جو چیز ابھر کر آئی کہ کس طرح امریکہ اپنے اقتصادی فائدے کے لیے سعودی عرب کی سیکیورٹی کو قربان کرنے پر تیار ہے۔ ٹرمپ کی دھمکی کے نتیجہ میں، امریکن ملٹری نے جو سعودی تیل کے ذخیرہ پر حملہ کے نتیجہ میں ، Patriot missle defence system سعودیہ کو دیے تھے اور درجنوں مشیر، ان کو واپس بلانے کی کاروائی کا آغاز کر دیا ہے۔اس کے ساتھ جنگی ہوائی جہازوں کے دو سکواڈرن بھی۔ اور اس کے علاوہ گلف سے بھی اپنے بحریہ کی موجودگی میں کمی کرے گا۔ان تبدیلیوں کی وجہ یہ بتائی جا رہی ہے کہ اب ایران کے حملوں کا خدشہ نہیں رہا۔اب بھی چار میں سے دو پیٹریاٹ سسٹم رہنے دیے جائیں گے۔ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ یہ سسٹم گزشتہ مارچ میں اٹھائے جانے تھے جو ایک حملے کی وجہ سے نہیں اٹھائے گئے تھے۔سب کچھ ہٹانے کے بعد بھی کچھ دفاعی سسٹم علاقہ سے نہیں اٹھائے جائیں گے۔
امریکہ کے ان اقداما ت پر سعودی حکومت کو تشویش ہو نا لازمی ہے۔ ایران جو بظاہر ان امریکی اقدامات پر بغلیں نہیں بجا رہا، لیکن دل میںخوش تو ہو گا کہ ان کا دشمن امریکی حمایت سے محروم ہو رہا ہے۔ سعودی عرب کئی دہائیوں سے امریکہ کے اشاروں پر ناچتا رہا ہے، اور اب بھی اس انداز میں کوئی فرق نہیں پڑا ہے، لیکن امریکہ میں جو مسلمان دشمن عناصر سیاست میں شامل ہیں، ان سے کچھ بعید نہیں۔
سب جانتے ہیں کہ مشرق وسطیٰ میں جو بھی مد و جذر پیدا ہوتا ہے اس کے تانے بانے اسرائیل سے جڑے ہوتے ہیں۔ اور اب ٹرمپ کی کھانے کی میز پر اس کی یہودی بیٹی اور یہودی داماد اس کو مشورے دیتے ہیں جنکا حکم براہ راست اسرائیل کے وزیر اعظم نیتین ہاہو سے ملتا ہے۔اس لیے ٹرمپ کے مشرق وسطیٰ سے متعلق فیصلوں میں ان دونوں کی مشاورت بعید از قیاس نہیں ہو سکتی۔
اسرائیل ایک عرصہ دراز سے ایران کے خلاف ہے۔ غالباً اس کی وجہ ملا خمینی کے بیانات اور اسرائیل مخالف تقاریرتھیں جن میں انہوں نے اسرائیل کو سمند میں غرق کرنے کی خواہش کی تھی۔ انہی وجوہات کی بنا پر امریکہ کے ذریعے عراق اور ایران کی جنگ کروائی گئی جو چھ سال جاری رہی اور بغیر ہارے جیتے ختم ہوئی۔ ایران نے اسرائیل کے خلاف لبنان میں 1982 میںاپنی جانباز فوج حزب اللہ کو منظم کیااور مسلح کیا۔سن ۲۰۰۶ء میں جب اسرائل نے لبنان پر دوسرا حملہ کیا تو حزب اللہ نے سخت مزاحمت کا مظاہرہ کیا اور ایک ذریعہ کے مطابق اسرائیل کے ۱۱۹ فوجی ہلاک کیے اور ۴۴ شہری۔ یہ غالباً پہلی دفعہ تھی جب اسرائیل کو اتنی سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔اس جنگ میں اسرائیل نے کلسٹر بم چلائے اور ہر طرح کا ہتھیار آزمایا۔
شام میں خانہ جنگی ختم ہونے کا نام نہیں لیتی۔امریکہ، روس، ترکی، اسرائیل، ایران اور ہر کوئی علاقائی طاقت شام میں جنگ میںمصروف ہے۔ جہاں روس اور ایرا ن شام کے صدر حافظ اسد کا
ساتھ دے رہے ہیں ، امریکہ ، اور ترکی اس کے خلاف ہیں۔ چونکہ جنگ در اصل اسلامی گروہوں نے اسد کے خلاف شروع کی تھی، اس میں پھر داعش بھی شامل ہو گئے۔اور داعش کے خلاف امریکہ میدان میں آ گیا لیکن اسرائیل نہیں چاہتا ہے کہ اسلامی انتہا پسند شام میں کامیاب ہوں کیونکہ وہ ہر گز اسرائیل کے حق میں نہیں ہونگے، اس لیے انہوں نے امریکہ کو نکل جانے کا مشورہ دیا۔ اب معلوم ہوتا ہے کہ اسرائیل بھی حافظ اسد کی حمایت میں بمباری کرتا ہے۔
اب تازہ ترین اطلاعات کے مطابق، روس اس بے تکی جنگ سے تنگ آ گیا ہے اور وہ بھی اسد کی ظالمانہ پالیسیوں اور کرپشن کو زیادہ دیر برداشت نہیں کرنا چاہتا۔شام کی حکومت ملک میں امن بحال کرنے میں یکسر ناکام ہو چکی ہے اور روس اس کو اب ایک غیر ضروری بوجھ سمجھتا ہے۔اگر اسد امن لانے میں کامیاب ہو جاتا تو اس کو ملک کی بحالی کے لیے بہت سی بیرونی امداد ملتی جس سے روس کو بھی کچھ ٹھیکے مل جاتے۔ اب اس امن کے آثار دور دور تک نظر نہیں آ رہے۔ اسد اور اس کے اہل و اقارب کا ایرانیوں سے گہرا تعلق ہے۔اور ایرانی حزب اللہ سے جو شام میں موجود ہے۔اسد کے رشتہ دار اور قریبی مافیا بنے ہوئے ہیں۔ روسی میڈیا پر اسد کے خلاف مہم چل رہی تھی کہ وہ کرپٹ ہے اور حکومت کے اہل نہیں۔ اس لیے وقت آ گیا ہے کہ اس کو بدلا جائے۔اس کے لیے انہوں نے امریکی حمایت اور کرد کی قیادت والی شامی ڈیموکریٹک فورس ، اور ترکی کی حمائیتی فری سیرین آرمی سے رابطے کیے ہیں۔اور دونوں پر مشتمل مخلوط حکومت سازی کے امکان پر پر کام ہو رہا ہے۔ اگر آیندہ سال یہ پارٹیاں جیتتی ہیں تو اسد سے چھٹکارہ ملنا ممکن ہو جائے گا۔
شام کی چوتھی آرمرڈ ڈویزن ، علوی بریگیڈ، کے کئی ارکان پورے ملک میں سمگلنگ میں ملوث ہیں۔ شام کے ساحلی شہر لٹاکیاکی بندگاہ ایران کو کو کرایہ پر دی گئی تھی اور جب سے یہ سمگلنگ کا اڈا بن چکی ہے۔یہاں سے یوروپ، مشرق وسطیٰ اورشمالی افریقہ میں منشیات برآمد کی جاتی ہیں۔ان کوششوں کا اندازہ ان چھاپوں سے لگایا جا سکتا ہے جن میں ایسی دوائیاں بڑی تعداد میں پکڑی گئیں۔ان کرداروں میں اسد کے بھائی ماہر الاسد کا نام بھی شامل ہے۔اس کے علاوہ حزب اللہ اور رامی مخلوف کے نام بھی۔جو اس گھنائونے کاروبار میں ملوث پائے گئے۔اور انکے علاوہ بھی کئی اور چھاپے ڈالے گئے اور ان سب میں اسد کے قریبی رشتہ دار حمائیتی ملوث پائے گئے۔ روسی فوجیوں پر ایرانی حمایتی شامی جتھوں کے حملوںسے ماسکو سخت ناراض ہے لیکن جب اسرئیلی ،ایرانیوں کے حمائیتیوں پرحملے کرتے ہیں تو روس ان کو نظر انداز کر دیتا ہے۔ اب دیکھیں کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے اور اسد کی جگہ کون آتا ہے؟ روسی گرو کا بندہ یا ترکی گروہ کا؟
اسرائیلی اخبار یروشلم پوسٹ کا کہنا ہے کہ کچھ مبصرین کا خیال ہے کہ شام سے ایرانی موجودگی کم ہو رہی ہے۔ لیکن یہ بات حتمی نہیں ہے۔ یقین کیا جاتا ہے کہ شام میں ایک ہزار ایرانی فوجی اور کئی ہزار ایرانی حمائیتی شعیہ نیم فوجی دستے بر سر پیکار ہیں۔لیکن ان کے ۲۵۰ ایرانی ٹھکانوں پر سرائیل نے ایک ہزار دفعہ بمباری بھی کی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ان حملوں کے نتیجہ میں ایرانی کم ہو رہے ہیں یا کسی اور وجہ سے؟ اسرائیل کو یہ غم کھائے جا رہا ہے کہ کہیں ایران شام میںحزب اللہ کو دور مار میزائل سے لیس تو نہیں کر رہا؟ یا ان کو دوبارہ زیادہ خطرناک اور جدید ہتھیار جیسے گائیڈڈ میزائیل سے لیس کر رہا ہے جو اسرائیل پر حملہ کرنے کے کام آ سکتے ہیں۔ البتہ امریکی حساس اداروں کی نظر میں شام میں ایرانیوں کی حالت میں کوئی نمایاں تبدیلی نہیں دیکھی گئی۔ان کا بھی یہی خیال ہے کہ ایران نے شام میں میزائیل اور دوسرے ہتھیارپہنچا دیئے ہیںجو اسرائیل کے خلاف استعمال کیے جا سکتے ہیں۔امریکہ کی پالیسی اس علاقہ سے ایرانیوں کو نکالنے کی ہے۔
امریکہ اس خطہ میں کیوں ہے؟ اس کو وہاں سے نکل جانا چاہیے۔صرف عراق سے ہی نہیں سب ملکوں سے۔ یہ ایک امریکی رسالے اطلانٹک کے مضمون کا عنوان تھا، جس کے مندرجات آج بھی اہم ہیں۔ ٹونی جونز کا کہنا ہے کہ مشرق وسطیٰ میں امریکی مفادات تیل کی فراہمی سے جڑے ہوئے ہیں۔ کیونکہ وہیں دنیا کے سب سے بڑے تیل کے ذخائر ہیں۔ انکو بچانا امریکہ کا فرض بنتا ہے۔ حالانکہ اس مفروضہ میں کوئی حقیقت نہیں ہے۔ بیسویں صدی کے بڑے حصہ میں تیل کی پیداوار کرنے والے ممالک اور تیل کی کمپنیاں ملکر فراہمی کے فیصلے کرتی تھیں۔ اور ان کا بنیادی مقصد اپنے مالی مفادات کا تحفظ تھا۔اور اگر انکی دولت سے کسی کو فائدہ ہوا تو وہ عالمی ہتھیار بنانے والوں کا۔جیسے کچھ سال پہلے سعودی عرب نے امریکہ سے ساٹھ بلین ڈالر کے نئے ہتھیار خریدنے کا معاہدہ کیا۔اور اسکے باوجود سعودیہ اپنی حفاظت نہیں کر سکتا اور لا محالہ امریکہ کو یہ بھی کرنا پڑتا ہے اور اس کے لیے وہ اچھی خاصی قیمت وصول کرتا ہے۔اب دنیا میں تیل کی فراوانی ہے اور ایسا ڈر نہیں کہ یہ نا پید ہو جائے گا۔اب امریکہ کو ایران کا ہوا مل گیا ہے۔لیکن ایران نہ تو سعودی حکومت ختم کرنا چاہتا ہے اور نہ ہی عربوں کے سیاسی نظام کا مخالف ہے۔ایران کی ایٹم طاقت بننے کی خواہش البتہ لمحہ فکریہ ہے ، لیکن یہ کوئی ایسا مسئلہ نہیں جس کو سیاست سے حل نہ کیا جا سکے۔عرب سپرنگ سے صاف پتہ چلتا ہے کہ پُر امن طریقوں سے بہت کچھ حاصل کیا جا سکتا ہے۔امریکی افواج میں بھی یہ باور کیا جا رہا ہے کہ اس خطہ میں فوجی موجودگی دہشت گردی کو ہوا دیتی ہے۔اسی میں سب کا فائدہ ہے کہ امریکہ مشرق وسطیٰ کو اپنے حال پر چھوڑ دے اور نارمل حالات پنپنے دے۔
جاوید سجاد احمد