پاکستان میں ایک اور آل پارٹیز کانفرنس ختم ہو گئی، سارے ہی بڑے بڑے لیڈر موجود تھے، جب تک مولانا فضل الرحمن قومی اسمبلی کے باہر رہیں گے تو عمران دشمنی میں آل پارٹیز کانفرنس ہوتی رہیں گی، فضل الرحمن کو اور کام نہیں ہے، صرف عمران خان کی حکومت کو ناکام کرنے اور گرانے کی کوشش کرنے کے علاوہ، جب سے وہ الیکشن ہارے ہیں تب سے الیکشن بھی جعلی ،حکومت بھی جعلی اور ایک ہی نعرہ الیکشن دوبارہ کرائے جائیں، یہ فضل الرحمن کی ایک اور کوشش تھی لیکن اس میں بھی وہ کامیاب نہیں ہوئے اس سے پہلے آرمی چیف جنرل باجوہ کی طرف سے کھانے کی دعوت میں سارے رہنمائوں کو بلایا گیا تھا جس میں مولانا خود تو شریک نہیں ہوئے اپنی جگہ اپنے بیٹے کو بھیج دیا تھا، اس کھانے میں آئی ایس آئی کے سربراہ نے گلگت بلتستان کو نیا صوبہ بنانے کے متعلق اپنے فیصلے سے آگاہ کیا اور ان سے تعاون مانگا کہ قومی اسمبلی میں دو تہائی اکثریت سے یہ قانون پاس ہونا ہے خاص کر دونوں پارٹیوں کی حمایت کے بغیر یہ قانون پاس نہیں ہو سکتا ہے، ڈھکے چھپے الفاظ میں دونوں آدمیوں نے اس بات کی طرف اشارہ کر دیا تھا کہ وہ ان حالات میں آل پارٹیز کانفرنس کی ضرورت کو محسوس نہیں کرتے ہیں لیکن شرکاء کی رائے تھی کیونکہ یہ اعلان کر دیا گیا ہے اس لئے واپس نہیں لیا جا سکتا لیکن وہاں سے اس عشائیہ میں واضح موقف مل گیا کہ فوج اس کو پسند نہیں کرتی ہے، ان سربراہوں اور مہمانوں کے جانے کے بعد خبر ہے کہ عمران خان بھی پہنچ گئے اور جنرل باجوہ سے نتیجہ پر گفتگو کی، شاہ محمود قریشی وہاں پہلے سے موجود تھے اور پورے کھانے میں موجود رہے، بھارت اور چین کی جو صورتحال ہے اس میں بھارت کی طرف سے خطرہ موجود ہے کہ وہ چین کا دبائو ہٹانے کے لئے پاکستان یا آزاد کشمیر پر حملہ کر سکتا ہے، مقبوضہ کشمیر کو اپنے ساتھ ملانے کے بعد اور اس کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے بعد اس کا اگلا ہدف آزاد کشمیر ہی تھا لیکن چائنہ نے اس کو روک دیا اور تبت سائیڈ پر ایک نیا محاذ کھول دیا، اب بھارت کو اپنی ہی مصیبت پڑ گئی ہے، آہستہ آہستہ بھارت اپنی زمین کھوتا جارہا ہے، چائنہ آہستہ آہستہ بڑھتا ہی جارہا ہے، وہ صرف امریکی الیکشن کا انتظار کررہا ہے، اس کا نتیجہ آنے کے بعد وہ اپنا اگلا اقدام کرے گا لیکن یہ بات طے ہے کہ اب بھارت کو ٹوٹنے سے کوئی نہیں روک سکتا، بھارت کے سات صوبے الگ ہونے جارہے ہیں، دوسرے کشمیر کی آزادی کا وقت بھی قریب آرہا ہے، اسی لئے فوج چاہتی ہے کہ گلگت بلتستان کو ایک کنڈیشنل نیا صوبہ بنا کر ابھی سے آزاد کشمیر اور مقبوضہ کشمیر کو پاکستان میں شامل کرنے کی راہ ہموار کی جا سکے۔
اس آل پارٹیز کانفرنس کی سب سے اہم بات نواز شریف کا 53منٹ کا خطاب تھا جس میں انہوں نے فوج پر بھرپور حملے کئے اور اپنے دل کی بھڑاس نکال لی، نواز شریف یہ بھول گئے کہ وہ سزا یافتہ ہیں اور بھگوڑے ہیں، کورٹ سے ان کی ضمانت منسوخ ہو چکی ہے، عمران خان پیمرا کے ذریعے ان کی تقریر نشر ہونے کو روک سکتے تھے لیکن جب ان کو پتہ چلا کہ وہ ساری تقریر فوج کے خلاف کرنیوالے ہیں تو انہوں نے فیصلہ کیا کہ اس کو نشر ہونے دو اور لائیو جانے دیں تاکہ نوا شریف اور ن لیگ فوج اور عوام دونوں کی نظر میں ایکسپوز ہو جائیں، فوج جس نے نواز شریف کے باہر جانے کی راہ ہموار کی، شہباز شریف کو باہرسے بلایا وہ اپنی کیبنٹ بنا کر بیٹھا ہوا تھا، اس کا اصل چہرہ سامنے آجائے اور عوام خوددیکھ لیں کہ فوج اور ملک کا نواز شریف کتنا دشمن ہے، عمران خان اپنے مشن اور پلاننگ میں کامیاب رہا، نواز شریف نے یہ تقریر کرکے اپنے پیروں پر خود کلہاڑی مار لی ہے، بین الاقوامی میڈیا نے جس طرح اس تقریر کو نشر کیااور بھارتی میڈیا نے جس طرح اس تقریر کو نشر کیا وہ فوج کی آنکھیں کھول دینے اور اپنے فیصلوں پر نظر ثانی کرنے کیلئے کافی ہے، اب نواز شریف اور ن لیگ کے لئے واپسی کا کوئی راستہ نہیں ہے، زرداری نے بہت ہوشیاری سے اپنے پتے کھیلے، اس نے نواز شریف کو آگے کر دیا اور بلاول کیلئے مستقبل کا راستہ صاف کر لیا ہے، بلاول آئندہ بہت اہم رول سیاست میں ادا کرنے جارہا ہے، مریم نواز کا گھر اب جیل ہو گا، شہبا ز شریف کے لئے بھی آئندہ بہت سخت دن آنے والے ہیں، غرضیکہ اس آل پارٹیز کانفرنس سے اپوزیشن کو حاصل تو کچھ بھی نہیں ہوا صرف بلاول نے اپنی پوزیشن کو بہتر کیا اور نواز شریف نے ایسی تقریر کر کے ن لیگ اوراپنے خاندان کو بہت بڑی مصیبت میں ڈال دیا ہے۔
Next Post