یہ سطور میں یہاں شمالی امریکہ میں لکھ رہا ہوں لیکن عین اسی وقت اسلام آباد میں پاکستان کے ہارے ہوئے جواری اور پٹے ہوئے نا اہل سیاستدان جو عمران کے مخالف ہیں وہاں کے ایک مقامی فائیو اسٹار ہوٹل میں اپنی چنڈال چوکڑی جمانے کی تیاریاں کر رہے ہیں!
بہت عرصے سے پاکستان بھر کے ذرائع ابلاغ، جنہیں اب مروجہ زبان میں نیوز میڈیا کے عنوان سے جانا جاتا ہے، یہ خبریں تواتر سے دیتے آرہے تھے کہ عمران اور تحریکِ انصاف کی حکومت کے خلاف ایک متحدہ تحریک چلانے کی تیاریاں ہورہی تھیں جن میں پیش پیش پیپلز پارٹی کے خواجہ سرا بلاول بھٹو زرداری، نواز لیگ کے مداری شہباز شریف اور تیسرے وہ ذاتِ شریف، مولانا فضل الرحمان تھے جن کو مولانا لکھتے یا کہتے ہوئے میرا قلم یا میری زبان ساتھ دینے سے یوں منکر ہوجاتے ہیں کہ اس بہروپیہ کو میں نے بہت قریب سے دیکھا ہے اور مجھے اس دین فروش اور ضمیر فروش ملا کے کردار کے بارے میں کوئی خوش فہمی نہیں ہے۔!
بہر حال شر پسندوں کی یہ تثلیث کم از کم ٹی وی کیمروں کی حد تک آج اس قابل ہوگئی ہے کہ ایک جگہ اپنے سر جوڑ کر بیٹھ سکیں اور کرسیاں بھرنے کیلئے ان کے دعوے کے مطابق پاکستان کی گیارہ ان سیاسی جماعتوں کے اراکین کو بھی ہال میں بٹھا سکیں جن کے نام، میں دعوے سے کہہ سکتا ہوں کہ آپ نے اور پاکستانیوں کی غالب اکثریت نے آج سے پہلے کبھی نہیں سنے تھے!
بھان متی کا یہ کنبہ اسلئے جوڑا گیا ہے کیونکہ تثلیثی شرپسندوں کے بقول عمران کی قیادت نے پاکستانی عوام کو سخت مایوس کیا ہے، پاکستان کی معیشت کو مفلوج کردیا ہے تو پاکستانی عوام اور پاکستانی تباہ حال معیشت کو بچانے کیلئے یہ پہلوان لنگوٹ کس کر اکھاڑے میں کود پڑے ہیں تاکہ پاکستان کو عمران کے چنگل سے آزادی دلاسکیں!
اللہ اللہ خود پسندی کا کیا عالم ہے ان مفسدوں میں! کوئی ان شرپسندوں کو تو دیکھے جو پاکستان کو لوٹ کر کھا گئے اور ڈکار تک نہیں لی لیکن آج اُنہی عوام کے مسیحا بن کر آئے ہیں جن کے منہ سے انہوں نے روٹی چھین لی تھی اور تن کو لباس سے تہی کردیا تھا۔
اور تو اور وہ مفرور، سزا یافتہ، اشتہاری ملزم جس کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ نے ناقابلِ ضمانت وارنٹِ گرفتاری جاری کردئیے ہیں، یعنی علاج کا بہانہ بناکر لاہور کے شریف خاندان ہمدرد ہائی کورٹ کی مدد سے پاکستان سے گذشتہ دس مہینوں سے مفرور نواز شریف کو بھی یہ زعم ہوا ہے کہ وہ ویڈیو لنک کے ذریعہ اس آل پارٹیز چنڈال چوکڑی سے خطاب کرسکتے ہیں۔
حکومت نے میاں نواز شریف کے خلاف ناقابلِ ضمانت وارنٹِ گرفتاری تو لندن میں پاکستانی ہائی کمیشن کو ضروری کارروائی کیلئے بھجوا دئیے ہیں اور میاں صاحب اور ان کے پرستاروں پر یہ حقیقت عیاں کردی ہے کہ پاکستان کے قوانین کے مطابق کسی اشتہاری ملزم یا مجرم کو یہ سہولت نہیں دی جاسکتی کہ وہ ملک سے ہزاروں میل دور بیٹھ کر ویڈیو لنک یا کسی اور ذریعہٗ ابلاغ سے فائدہ اٹھاکر پاکستان کو امن و سکون کو برباد کرنے کیلئے مزید شر پھیلائے۔ لوہار خاندان کے ان سپوتوں نے پاکستان کو پہلے ہی کیا کم تہہ و بالا کیا ہوا ہے کہ انہیں اور چھوٹ دی جائے۔ شیطان کی رسی دراز ہوتی ہے لیکن وہ چھوٹ اسے قدرت نے دی ہوئی ہے اور زرداری اور نواز جیسے چوروں اور ڈاکووٗں کی قدرت جو رسی دراز کرتی نظر آتی ہے اس کی اس کے سوا اور کوئی مصلحت نظر نہیں آتی کہ ان چوروں کی رسی اس حد تک دراز کی جائے کہ بالاخر یہ رسی ان کے گلے کا پھندا بن جائے!
جمہوریت کو بچانے کے دعویدار یہ وہ داغ دار بزعمِ خود سیاستداں ہیں جن کے خلاف نیب کے پاس کرپشن کے الزامات کے پہاڑ ہیں اور یہ ایک عرصہ سے اپنی موٹی گردنیں پھندے سے بچانے کیلئے عمران حکومت سے سودا کرنے کے متمنی رہے ہیں لیکن عمران خان نے واشگاف یہ اعلان کرکے ان کی امیدوں پہ پانی پھیر دیا ہے کہ کچھ بھی ہوجائے ان چوروں کی گلو خلاصی نہیں ہوگی اور انہیں کسی قیمت پر اس طرح کا این آر او نہیں ملے گا جیسا مستِ مئے پندار مشرف نے اپنی ہوسِ اقتدار سے مغلوب ہوکر ان چوروں کے ساتھ کیا تھا اور جس کے نتیجہ میں یہ چوروں کی ٹولی آجتک قوم کی گردن پر پیرانِ تسمہ پا کی مانند سوار ہے!
ان خود غرضوں کو قوم و ملک سے کتنی ہمدردی ہے اس کا اندازہ تو اس سے بخوبی ہوگیا کہ پاکستان پر ایک مدت سے اس بین الاقوامی ادارہ کی تلوار لٹک رہی ہے جس کی ذمہ داری یہ ہے کہ دنیا کو منی لانڈرنگ سے پاک کیا جائے کیونکہ منی لانڈرنگ کے ذریعہ بھیجی گئی رقوم دہشت گردی کیلئے عام استعمال ہوتی ہیں۔ یہی وہ دونوں چور ہیں، زرداری اور نواز جن کے دس سالہ دورِ اقتدار میں اربوں کھربوں روپے پاکستان سے منی لانڈرنگ کے ذریعہ باہر بھیجے گئے جس میں سب سے زیادہ وہ پیسہ تھا جو ان دونوں نے پاکستان سے چرایا تھا۔ ان ہی کے کالے کرتوتوں کا ثمر ہے جو پاکستان ایک عرصہ سے مشتبہ ممالک کی فہرست میں شامل ہے جہاں سے ملکی معیشت کی بقا کی خاطر نکلنا ضروری ہے اس کیلئے حکومت کو خصوصی قانون سازی کرنی پڑی ہے اس قانون سازی کی راہ میں یہ بدبخت روڑے اٹکا رہے تھے تاکہ حکومت ان کے سامنے گھٹنے ٹیک دے اور ان کی من پسند شقیں اس قانون میں داخل کردے تاکہ یہ قانون کی گرفت سے بچ جائیں لیکن اس کے بعد ملک کا کیا حشر ہوتا اور پاکستان پر بین الاقوامی امداد اور اقتصادی تعاون کی راہیں کیسے مسدودہوجاتیں اس سے انہیں کوئی غرض نہیں انہیں تو صرف اور صرف ابھی اپنا الوسیدھا کرنے سے غرض ہے!
لیکن عمران حکومت نے ان کی بلیک میلنگ کے آگے ہتھیار ڈالنے سے انکار کیا اور ان شرپسندوں کے شر کے باوجود مطلوبہ قانون سازی کا عمل پورا کر لیا۔ اب امید ہے کہ پاکستان کے سر پہ لٹکتی ہوئی تلوار ہٹا لی جائیگی جو معیشت کی بحالی کے حق میں نیک فال ہوگی!
لیکن یہ کھسیانی بلیاںبہت ہی بے شرم ہیں ان کی کھالیں بہت موٹی ہیں سو اپنی خفت مٹانے کیلئے انہوں نے یہ شیطانی سبھا رچائی ہے تاکہ قوم کے ان سادہ لوحوں کو پھر بیوقوف بنانے کا ڈول ڈالیں جو ہربار ان نوسربازوں اور مداریوں کے جھانسے میں آجاتے ہیں۔ یہ قوم کی حماقت کے سوا اور کچھ نہیں ہے کہ وہ ان جعلسازوں کے ڈنک سے بار بار ڈسی جاتی ہے اور ان کو اٹھاکر اس کوڑے کے ڈھیر پر نہیں پھینک دیتی جو ان کا اصل مقام ہے۔ ان بدکرداروں کے داغدار چہرے اس قوم کو نظر نہیںآتے کہ یہ کتنے بڑے منافق ہیں۔ یہی شہباز شریف جو آج خواجہ سرا بلاول کو شہید خاندان کا سپوت کہہ رہا ہے اور اس کے بے غیرت باپ زرداری کو خراجِ عقیدت پیش کرتے کرتے اس کے منہ سے رال ٹپک رہی ہے اسی شہباز نے آج سے کئی سال پہلے ہزاروں کے مجمع سے خطاب کرتے ہوئے لاہور میں یہ کہا تھا کہ وہ ڈاکو زرداری کو پاکستان کی سڑکوں پہ گھیٹے گا اور اگر یہ نہ کرسکا تو اپنا نام بدل دے دیگا۔!
پوچھئے اب اس سے کہ یہ اپنے لئے کیا نام تجویز کرتا ہے کیونکہ جس کو سڑکوں پر گھسیٹنے کا دعوی کررہاتھا اب اسی زرداری کے چرنوں میں بیٹھا اس کے تلوے چاٹ رہا ہے۔
لیکن ان بے ایمانوں کا صرف ایک نام ہے مفسد اور شرپسند۔ اور مفسد، یعنی فساد پھیلانے والے کیلئے قرآن کا فیصلہ یہ ہے کہ مفسد قاتل سے بڑھ کر سنگین مجرم ہوتا ہے!
ان مفسد سیاسی گماشتوں کے ہی بغل بچے وہ شر پسند تکفیری ہیں جو اپنے بدیسی آقاؤں کی تحریک پر ایک بار پھر پاکستان میں فرقہ واریت کا زہر پھیلانے کیلئے اپنے بلوں سے نکل آئے ہیں۔ یزید جیسے فاسق کے حق میں اسلام آباد اور کراچی میں نعرے لگائے جارہے ہیں اور اہل تشیع کے پیروکاروں کو دھمکیاں دی جارہی ہیں کہ اگر یزید فاسق کے خلاف کچھ کہا تو خون کی ندیاں بہادی جائینگی!
حیرت ہے کہ عمران حکومت نے دارالحکومت میں، محرم کے مہینہ میں ان انتہا پسند شربازوں کو جلوس نکالنے کی اجازت دی جن کے شر کی داستانیں زبان زدِ عام ہیں۔ یہی وہ تکفیری ہیں، اہل تشیع کو کافر کہنے والے، جنہوں نے اسی کے عشرے میں ملک کے طول و عرض میں قتل و غارت گری کا میدان گرم کیا ہوا تھا اور چن چن کر نامور اور نابغہ اہل تشیع کا بے محابا خون بہایا تھا۔ ان شر پسند تنظیموں پر برسوں سے پابندی لگی ہوئی ہے لیکن پھر بھی حقائق کو جانتے ہوئے بھی حکومت نے آنکھیں بند کرکے ان تکفیریوں کو مزید شر پھیلانے کی اجازت کیوں دی؟
تاریخ گواہ ہے کہ دین کے نام پر شر پھیلانے والوں نے تاریخ کے ہر دور میں مسلمانوں میں تفرقہ پھیلانے اور پھوٹ ڈالنے کا کام کیا ہے۔ یزید کے دربار میں وہ سینکڑوں شر پسند علما ہی تو تھے جنہوں نے نواسۂ رسول کے خلاف بغاوت اور حاکمِ وقت سے حکم عدولی کے فتوے دیئے تھے! دین فروش ملاؤں نے امت کی وحدت کو کس طرح پارہ پارہ کیا ہے اس کی گواہ تو تاریخ ہے۔ دور کیوں جائیے ہماری اپنی تاریخ پاکستان کی یہی ہے کہ جہاں دین کے ان خود ساختہ ٹھیکیداروں کو ذرا سی ڈھیل ملی انہوں نے قوم کی صفوں میں پھوٹ ڈالنے اور نفرت کا بیج بونے کی کوشش کی۔ پاکستان چونکہ اسلام کے نام پر بنایا گیا ہے اسلئے اکثر تاریخ سے نابلد حکمراں ان گندم نما جو فروش مولویوں کے جھانسے میں آجاتے ہیں۔ عمران کے ساتھ بھی کچھ یہی معاملہ نظر آرہا ہے لیکن ان کو محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ دین میں تفرقہ پیدا کرنا شرپسند مولوی کا ایمان ہوتا ہے۔ حکیم الامت تو قوم کی رہنمائی کیلئے بہت پہلے فرماگئے ہیں کہ
دینِ کافر فکر و تدبیر ِ جہاد
دینِ ملا فی سبیل اللہ فساد!
تو شر پسند مولوی بچھو کی طرح اپنی عادت سے مجبور ڈنک مارنے سے باز نہیں آرہے اب یہ حکومتِ وقت کا فرض ہے کہ وہ ان کو شر پھیلانے اور خون خرابہ کرنے کا موقع نہ دے۔ پاکستان ویسے ہی خطرات سے گھرا ہوا ہے لیکن قابلِ غور بات یہ ہے کہ جس دن سے وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی نے کشمیر کے معاملہ میں سعودی حکمرانوں اور سعودی حکومت کی بے حسی کا چرچا کیا ہے پاکستان میں تکفیریوں کے سوئے ہوئے ناگ یکدم بیدار ہوگئے ہیں اور پھنکارے مار رہے ہیں۔ ایران دشمنی میں سعودی حکمراں کس حد تک جاسکتے ہیں اس کا اندازہ ان کو بخوبی ہے جن کی اس خطہ کی سیاست پر نظر ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ ایران دشمنی میں گذشتہ چار برس سے حرمین کے محافظ کس بیدردی سے غریب یمنی عوام کا خون بہاتے آئے ہیں صرف اس الزام میں کہ وہ، یعنی یمنی شیعہ، ایران سے ذہنی قربت رکھتے ہیں۔ لیکن پاکستان میں اگر پھر سے فرقہ واریت کے نام پر دین کے ٹھیکیداروں کو ڈھیل دی گئی تو پھر پاکستان میں جو طوفان آئے گا اس کے مقابلہ میں یمن میں جو کچھ ہورہا ہے وہ پکنک پارٹی لگے گا!
عمران اور ان کی حکومت کے اہل کاروں کیلئے یہ امتحان کی گھڑی ہے۔ ان کیلئے بہت ضروری ہے کہ اس حساس معاملہ میں بہت پھونک پھونک کر قدم رکھیں اور تکفیریوں پر کڑی نظر رکھیں۔ ان کو ڈھیل دینا پاکستان کے حق میں زہر ہوگا اور اس کا عمران کے اقتدار پر کیا اثر ہوگا اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے!
Prev Post
Next Post