پاکستانی حکومتیں اپنے اداروں سے کام لیں

291

پاکستان میں بارش کی آفت آج نہیں آئی۔ ہر سال آتی ہے۔ یہی نہیں، سیلاب آتے ہیں۔ قحط سالی بھی آتی ہے۔ اجزائے خوردو نوش کی مہنگائی بھی آتی ہے اور لیکن ہر دفعہ حکام ان آفات سے ایسے نبڑتے ہیں جیسے کہ پہلی دفعہ ہو۔اس سے پہلے کیا وہ سو رہے ہوتے ہیں، یا اپنی ذاتی ضروریات کے پورا کرنے میں مصروف ہوتے ہیں۔ کیا پاکستان میں ایسے حکومتی ادارے نہیں ہیں جن کا کام منصوبہ بندی اور ترقیات پر توجہ دینا ہو؟ ہیں۔ نہ صرف وفاقی سطح پر بلکہ ہر صوبہ میں بھی۔ اور آج سے نہیں بلکہ ستر سال سے ہیں۔ لیکن یہ ادارے بہت مدت سے ذہنی طور پر مفلوج ہو چکے ہیں، بلکہ کر دئیے گئے ہیں۔ ان میں نہایت قابل، تعلیم یافتہ افسرتعینات ہیں۔ مگر بظاہر ان کو نہ منصوبہ بندی کرنا آتی ہے یا نہ ان سے کروائی جاتی ہے۔جہاں تک راقم کو یاد ہے کہ پاکستان پلاننگ کمیشن وفاق کا وہ ادارہ ہے جو ہر پانچ سال بعدپانچ سالہ ترقی کا پروگرام بناتا ہے، اور پھر ان پانچ سالوںمیں اس کی خبر نہیں لیتا۔ ان اداروں نے اپنا ایک نظام وضع کر رکھا ہے جو بظاہر بڑا معقول نظام ہے۔ حکومتی ادارے جیسے وزارتیں، اپنے اپنے محکمے سے ترقیاتی منصوبوں کی تفصیل ایک مقررہ فارم جسے PC1 کہا جاتا ہے، دیتے ہیں۔یہ نظام صوبائی سطح پر بھی ایسے ہی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اگر کوئی محکمہ اپنے علاقہ کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے اس فارم کو مکمل کر کے منصوبہ بندی اور ترقیاتی ادارے کو دے تو محکمہ کے افسر اس کی چھان پھٹک کر کے مکمل کرتے ہیں اور منظوری کے بعد اس کے حساب سے فنڈز جاری کر دیتے ہیں۔ لیکن حکومتوں کی ترجیحات بدلتی رہتی ہیں اور منصوبہ بندی دھری کی دھری رہ جاتی ہے۔ منصوبہ بندی والے جانتے ہیں کہ پنج سالہ منصوبہ میں کیا لکھا ہے اور ان سے کام کچھ اور کروایا جا رہا ہے۔سیاستدانوں کو قدرتی طور پر اپنے علاقہ کے مسائل حل کرنے کی خواہش ہوتی ہے جیسے سڑکیں بنوانا ، پل بنوانا ، وغیرہ۔ اکثر سیاستدانوں کی ترجیحات میں سکول اور کالج، صحت عامہ کی سہولتیں شامل نہیں ہوتیں۔ نہ غریبوں کے علاج کے لیے ابتدائی طبی امداد کے مراکز، زچہ بچہ کے لیے کلینکس، اور نہ تعلیم صحت کے وسائل دینا۔ اسی لیے یہ ضروریات ،تا آنکہ بیرونی امداد نہ آ جائے، تشنہ تکمیل ہی رہتی ہیں۔ اس سیاسی دبائو نے منصوبہ بندی اور ترقیاتی ، تعمیراتی ضرورتوں کو اکثر پس پشت ڈالا جاتا ہے، اور منصوبہ بندی کے حکام ملک کی اصل ضروریات پر سوچ بچار نہیں کرتے، نہ ہی انہیں منصوبہ بندی کے لیے چیلنج کیا جاتا ہے۔ ورنہ کیا بات جو انہیں کرنا نہیں آتی۔یہ سیاسی قیادت کا کام ہے کہ ان اداروں سے پوار پورا کام لے۔
کراچی میں بارشوں نے جوشہر کا حال کیا ہے، وہ سب دیکھ رہے ہیں۔ اور بھی شہروں میں بارشیں ہوئی ہیں لیکن وہاںوہ حال نہیں ہوا جو کراچی کا۔ اس کی کئی وجوہات ہونگی جن میںسب سے بڑی مقامی حکومتوں کی نا اہلی، ذرائع کی کمی، منصوبہ بندی کا نہ ہونا، اور بقول کراچی کے مئیر وسیم اختر صاحب کے، اختیارات کا نہ ہونا شامل ہیں۔ کراچی سال ہا سال سے بے اعتنائی کا شکار رہا ہے۔ لیکن اس کی خستہ حالی اور سماجی سہولتوں کے فقدان کی وجہ حکومتوں کی بے توجہی معلوم ہوتی ہے جس میں مقامی حکومتوں کو مناسب اختیارات اور وسائل نا دینا شامل ہیں ۔کراچی کی آبادی بہت لسانی گروہوں میں بٹی ہوئی ہے اور زمینیں بھی کسی ایک ادارے کے کنٹرول میں نہیں جس سے اختیارات کی تقسیم کے مسائل کھڑے ہوتے ہیں۔
1941 میں کراچی کی آبادی زیادہ تر سندھیوں پر مشتمل تھی جو اس کی کل آبادی کا 62 فیصد تھے۔ اردو بولنے والوں کا تناسب صرف ۶ فیصد تھا۔ لیکن قیام پاکستان کے بعد ، اردو بولنے والے مہاجرین کی ایک بڑی تعداد کراچی آنا شروع ہو گئی۔ اور کراچی کی آبادی تیزی سے بڑھنا شروع ہو گئی۔ 1959 میں کراچی کی آبادی 17,57,00ہو گئی تھی۔ سن ۰۰۰،۲ تک آبادی 95,83,000ہوگئی ۔ اور اس کے بعد سے بھی آبادی کے بڑھنے کی رفتار ۵ء۲ فیصد سے اوپر ہی رہی ہے۔ سن ۲۰۲۰ میں ایک تخمینہ کے مطابق، کراچی کی آبادی ایک کڑوڑ ساٹھ لاکھ ، ۹۴ ہزار تک پہنچ چکی ہے۔ لیکن یہ تخمینہ کراچی ڈویژ ن کا نہیں جہاں کی آبادی ۲۰۱۷ کی مردم شماری نے ۲ کڑوڑ ۷۷ لاکھ بتائی ہے۔ اور ابھی اتنی ہی ر فتار سے بڑھنے کا امکان ہے۔ ۱۹۹۸ء میں اردوبولنے والے شہریوں کی تعداد 48.52فیصد تھی، پنجابی بولنے والوں کی تعداد 13.94فیصد، پشتو بولنے والوں کی تعداد 11.42 فیصد، سندھیوں کی تعداد 7.22 فیصد اور بلوچوں کی تعداد کا تناسب 4.34 فیصد بتایا گیا۔ سن ۲۰۱۱ء میں پشتون کا تناسب ۱۵ فیصد اوراردو دانوں کا ۴۳ فیصد ہو گیا۔ سندھیوں کی آبادی کا تناسب کم ہونے سے ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ سندھی واپس اندرون سندھ چلے گئے بلکہ یہ کہ اور لسانی گروہوں کی آبادی میں بہت تیزی سے اضافہ ہوا۔ یاد رہے کہ آبادی میں اضافہ صرف شرح پیدائش سے نہیں ہوا بلکہ اس کے اوپر مہاجرین کی آمد، پناہ گزینوں اور نقل مکانی کی وجہ سے بھی ہوا۔ افغانستان کی جنگ نے تین سے پانچ لاکھ افغانوں کو وطن چھوڑنے پر مجبور کر دیا جن کی ایک بڑی تعداد کراچی آ گئی۔ کتنے پشتون کے پی کے اور فاٹا سے بھی آئے۔اسی طرح بلوچستان میں بد امنی ہوئی تو کتنے ہی بلوچ نقل مکانی کر کے کراچی آ گئے۔ کراچی کاروبار، تجارت اور منڈیوں کا شہر تھا۔ اس کی دولت اور ہما ہمی مقناطیس کی طرح جفا کش اور مہم جوؤں کو اپنی طرف کھینچتی ہے۔
آبادی کے ان اعداد سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ جس لسانی گروہ کی آبادی اکثریت میں تھی ، اور جب ان کا کراچی میں سیاسی اور اقتصادی غلبہ تھا تو کراچی کی دیکھ بھال پر بھی انہیں کی ذمہ واری زیادہ تھی۔ چنانچہ کہتے ہیں کہ کچھ کراچی کے مئیرز نے کراچی کو بہت صاف بھی رکھا۔لیکن مہاجرین کی قیادت ایک ایسے شخص کے ہاتھ آ گئی، جسے صرف لوٹ مار سے غرض تھی اور شہر کی بہبود سے نہیں۔ چنانچہ ایم کیو ایم کی قیادت بھتہ خوری، زمینوں پر قبضہ، ناجائز عمارتیں بنانے اور دیگر ایسے کاموں میں مشغول ہو گئی۔جلد از جلد اور زیادہ سے زیادہ دھن کمانا مقصود تھا۔ان لوگوں نے کراچی کو باقاعدہ وارڈز میں تقسیم کر دیا جن میں ان کے لاڈلے جا نثاروں کی فوج ظفر موج بھتہ اکٹھا کرتی اور دوسرے ناجائز کام دھونس ماری اور منظم طریقہ سے کرواتی تھی۔تقریباً ایم کیو ایم کے تمام قائدین کسی نہ کسی سطح پر ان دھندوں میں مشغول تھے۔ مسٹر الطاف حسین کی قیادت میں یہ سوچنا کہ شہر کے قائدین کوڑا اٹھوائیں گے اور گندے نالے صاف کروائیں گے، مضحکہ خیز معلوم ہوتا ہے۔
دوسری طرف ، سندھ میں، کراچی جو اس کا جغرافیائی حصہ ہے، عوام نے صوبائی حکومت کے لیے ، بھٹو کی پی پی پی کو چنا۔ پی پی پی جانتی تھی کہ کراچی میں سندھی آٹے میں نمک کے برابر ہیں، کیوں نہ اس کو اس کے حال پر چھوڑ دیا جائے۔ پی پی پی نے کراچی کو کبھی نہیں اپنایا، گر چہ اسے صوبائی دارلحکومت بنایا اور اس کے پوش علاقوں میں جائیدادیں بنائیں ۔ اپنی حکومت میں زیادہ سے زیادہ سندھیوں کو بھرتی کیا جن کا ایک ہی کام تھا کہ حکمرانوں کے لیے زیادہ سے زیادہ پیسہ بنائیں۔ خود بھی کھائیں اور انکو بھی کھلائیں۔ سندھ حکومت جو بجٹ کراچی کے لیے مختص کرتی تھی ، وہ کم ہی اپنے مقاصد حل کر پاتا تھا۔ پی پی پی تو پہلے ہی اس ڈگر پر چل رہی تھی، لہٰذا کام افہام و تفہیم سے چلتا رہا۔لیکن جس ڈھٹائی سے سندھ حکومت نے کراچی کے مصائب کو نظر انداز کیا ہے کبھی کبھی یہ گمان ہوتا ہے کہ یہ ایک سازش ہے، غیر سندھیوں کو کراچی سے بھگانے کی۔ اگر ایسی بات ہے تو ایسا ہونا دیوانے کا خواب ہے۔
اب کراچی کے نظام آب رسانی اور نکاسی کی بتدریج تباہی کا الزام کسی ایک گروہ یا ادارے پر نہیں ڈالا جا سکتا کیونکہ اس میں سب ہی کچھ نہ کچھ شامل تھے۔ورنہ نظام نکاسی، اور ندی نالوں کے انفراسٹرکچر میں اس قدر ٹوٹ پھوٹ، اور ناکارہ ہو جانا، ایک دن میں نہیں ہوا۔ یہ سالوں کی لا پرواہی کا شاخسانہ ہے۔ یہ جب ہی شروع ہو گیا تھا جب لوگوں نے برساتی نالوں پر اپنے گھر بنانے شروع کر دئیے اور حکام نے رشوت لیکر یہ سب کچھ ہونے دیا۔پھر حکام نے کوڑے اور کچرے کے با قاعدہ جمع کرنے اور اس کو ٹھکانے پر پہنچانے کا کوئی دیر پا اور موثربند و بست نہیں کیا۔ عوام کاقصور اتنا ہے کہ انہوں نے گٹروں کے ڈھکن چوری ہونے دئیے اور لوگوں کو نالوں اور گٹر میں کوڑا پھینکنے دیا۔اس سے زیادہ عوام کا قصور ایسے لوگوں کو ووٹ دینا اور پھر ان کا محاسبہ نہ کرنا بھی ہے، یہ ان کی ذمہ واری تھی۔لیکن سب سے بڑا قصور قانوناً اور انتظاماً ان سیاستدانوں کا ہے جو ایوان اقتدار میں بیٹھ کر تماشہ دیکھنے میں مصروف تھے۔
ملک کے منصوبہ بندی کے اداروں کی پہنچ میں وہ سب ذرائع ہوتے ہیںجن سے پائدار اور مضبوط حل تلاش کیے جا سکتے ہیں۔ لیکن پاکستان کی بد قسمتی یہ ہے کہ بجائے ان اداروں کو استعمال کرنے کے وہ لوگ راہ عمل بتاتے ہیں جنہیں نہ ادراک ہوتا ہے نہ فنی صلاحیت۔وزراء اور انکے ماتحت افسران بڑے منصوبے بنانے کے اہل نہیں ہوتے۔ یہ کام ان اداروں سے لینا چاہیے جو اس کام کے لیے تخلیق کیے گئے ہیں۔اور یاد رہے کہ حکومت کے بڑے اعلیٰ افسران جیسے ڈسٹرکٹ اور ڈویژن کمشنرز کے پاس تعلیمی قابلیت ، تربیت کے علاوہ اختیارات اور فنی وسائل بھی ہوتے ہیں جو چھوٹے موٹے کاموں میں استعمال کیے جانے چاہئیں۔ لیکن ہر مقامی سیاستدان اپنی چودھراہٹ جتانا چاہتا ہے اور صحیح ادارے اور افسر کے پاس جانے سے گریز کرتا ہے۔ شاید اس لیے کہ ممکن ہے اس میں کسی فائدے کی صورت نکل آئے۔
ہماری گزارش ہے کہ سیاستدا ن خو اہ کسی بھی سطح کے ہیں، انہیں اپنے اداروں میں رہ کر حکمت عملی بنانی چاہیے اور جن کاموں کے لیے دوسرے ادارے بنے ہیں ان کو ان کاکام دینا چاہیے۔اسی لیے کہتے ہیںجس کا کام اسی کو ساجھے۔ اور کرے تو ٹھینگا باجے۔