پانی زندگی کی ضرورت ہے اور پانی کے بغیر زندگی کا تصور کیا نہیں جا سکتا، جو شے ضرورت ہو اس کی رسد کو متواتر بنانے کے لئے منصوبے بنائے جاتے ہیں، ہندوستان میں دریا بہت تھے اور تمام آبادیاں دریا کے کنارے ہی بسیں اور لوگوں نے یہ سمجھ لیا کہ پانی اس مقدار میں ہمیشہ ملتا رہے گا، انگریزوں نے پنجاب میں انہی دریائوں سے نہریں نکال دیں اور آبپاشی کے لئے وافر پانی میسر آ گیا، پورا ہندوستان جو مذہب کا قیدی تھا اس نے یہ یقین کر لیا تھا کہ جو ان کو میسر ہے اس کی رسد کبھی ختم نہیں ہو گی، توکل تساہلی کو جنم دیتا ہے اس تساہل نے کچھ سوچنے کی صلاحیت چھین لی، سو ہندوستان میں زندگی کو بہتر بنانے کا سوچنے والے ذہن کبھی پیدا ہی نہیں ہوئے یہ ذہنی طور پر معذور لوگ تھے جن کا خیال تھا کہ بچے خدا کی قدرت سے پیدا ہوتے ہیں، جدید شہر کا تصور انگریز لے کر آئے جس میں ایک زیر زمین پانی کی گھر گھر فراہمی ممکن بنانا تھا اس میں گندے پانی کا اخراج کا نظام بھی موجود تھا پھر بجلی کی محفوظ فراہمی، ٹیلی فون کی فراہمی اور اب بہت جدید ترین ضروریات جس میں کیبل اور گیس کی فراہمی بھی اہم سمجھی جاتی ہے، یہ AMENITIESجدید شہر کی بنیادی ضروریات سمجھی جاتی ہے اور ان کی باقاعدہ پلاننگ کی جاتی ہے، شہروں کی جب توسیع ہوتی ہے کہ ان سہولیات کی فراہمی میں زیادہ دقت پیش نہیں آتی، ان کی EXTENTIONبھی آسانی سے ہو جاتی ہے، یہ وہاں ہوتا ہے جہاں جدید شہر کا CONCEPTموجود ہوتا ہے اور یہ خواش بھی کہ شہریوں کو جدید سہولیات دی جائیں اور مزید نئی سہولیات کی SPACEبھی رکھی جاتی ہے یہ سب مہذب ممالک میں ہوتا ہے مگر تیسری دنیا کے حکمران جن کو معلوم ہے کہ اس شہری ترقی سے مفرنہیں وہ اپنے شہروں کو جدید سہولیات دینے کی صورت نکالیں، دبئی، امارات نے جدید شہر بنائے ان سے پہلے سنگاپور، ہانگ کانگ اور تائیوان جدید صورتوں سے آراستہ تھے، جیسے ہی یہ چھوٹے ممالک جدید بنے ساری دنیا ان کی جانب دوڑ پڑی اور آج ان کی معیشت مثال ہے، بھارت اور پاکستان نے اس انداز میں کبھی سوچا ہی نہیں۔
پاکستان اور بھارت کو ایسے حکمران میسر ہی نہیں آئے بھارت کے پہلے وزیراعظم جواہر لال نہرو نے ایک بار کہا تھا کہ میں اس قوم کے لئے کیا کر سکتا ہوں جو سال میں چھ مہینے چھٹیاں کرتی ہو نہرو کا واضح اشارہ ملک پر مذہب کی جکڑ کے بارے میں تھا اور اس کا اندازہ درست تھا، پاکستان کا حال اس سے بھی برا تھا، یہاں تو یہ حال تھا کہ مغرب کی بنی ہوئی ہر شے حرام تھی اور اب بھی یہ صورت ہے کہ دالوں کے پیکٹ پر ہلال لکھا ہوتا ہے، یہ دانستہ طور پر ذہنوں کو مسموم کرنے کی ایک دانستہ اور سوچی سمجھی سازش ہے کہ ملک جدید سہولتوں سے آراستہ نہ ہو اور ایسا نہ ہو کہ وہ مذہب سے پوچھ لیں کہ مذہب نے ہمیں یہ سب کچھ کیوں نہ دیا، مگر جلد یا بدیر وہ لمحہ آئے گا کہ مذہب کا جھوٹ کھل جائے گا اور لوگ سچ کو پہچان جائینگے اور مذہب اور تمام شفافیت کے ساتھ پہچان لیا جائیگا، مذہب جدید طرز زندگی کا ہر گز مخالف نہیں اور یہ صاف دکھائی دے رہا ہے کہ ان مولویوں کے نئے اسلام نے سہولیات کو دانستہ عوام سے دور رکھا ہوا ہے اور اس کے لئے فیوڈلز نے ان کی مدد حاصل کررکھی ہے، ملک کے وسائل کو دانستہ لوٹا جارہا ہے اور عوام اپنی جہالت کی وجہ سے اس سازش کو سمجھ نہیں رہی۔
پاکستان میں جب بھی مون سون کا موسم آتا ہے تو پاکستان پر ایسی ہی تباہی آتی ہے، ایسے ہی لیڈر نکلتے ہیں، عشروں سے ایسے ہی بیانات آتے ہیں، ایسے ہی فوج کو بلایاجاتا ہے مگر یہ چند سو سپاہی ہوتے ہیں جو چند دن کے بعد واپس چلے جاتے ہیں اور یہ سارے علاقے کے لوگ اپنی بربادی کا ماتم کرتے رہتے ہیں اور زخم چاٹتے رہتے ہیں اس بربادی کے بعد ٹوٹی ہوئے بند سڑکیں اور پل دوبارہ تعمیر کی جاتی ہیں جو اگلے سال پھر ٹوٹ جاتے ہیں، ان کی بار بار تعمیر پر بے تحاشا کمیشن کھایا جاتا ہے اور یہ سلسلہ جاری رہتا ہے اور جاہل عوام اس کو سمجھ ہی نہیں پاتی، ملک کی حالیہ بارشوں نے یہ گندا کھیل پھر بے نقاب کر دیا ہے ،پورا ملک ہی پانی میں ڈوب گیا اور اس حکومت نے بھی پچھلی حکومتوں کے اطوار ہی اپنائے ا ور اس بار تباہی پہلے سے زیادہ ہوئی کراچی جو ملک کا معاشی حب ہے پانی میں ڈوب گیا،اربوں کا نقصان ہو گیا جس کا ازالہ نہ ہو سکے گا، تمام بڑے شہروں کو ایک بڑا اور منظم SEWEGE AND SEWRAGEسسٹم چاہیے، کراچی، لاہور، فیصل آباد پر خاص توجہ کی ضرورت ہے ان شہروں میں صاف پانی کی فراہمی گیس کی فراہمی ضروری ہے تاکہ صنعت کے چلنے میں دشواری پیش نہ آئے، کراچی پر خصوصی توجہ کی ضرورت ہے، یہ شہر ملک کا پیٹ بھرتا ہے، مذہبی پیشوائوں کو نکیل ڈالنے کی بہت ضرورت ہے تاکہ لوگ جدید طرز حیات سے آشنا ہوں اور ان کو معلوم ہو کہ ایک نئی دنیا اور اس کے تقاضے کیا ہوتے ہیں اس آشنائی کے بغیر ملک ترقی نہیں کر سکتا، فوج کی کوشش ہے کہ ابھی بنیاد پرستی پر تکیہ کیا جا سکتا ہے اور اس کام کے لئے عمران کی شکل میں ایک ایسی FACE SAVINGمل گئی ہے جو دنیا کویہ دیکھا رہی ہے کہ پاکستان میں جمہوریت ہے جب کہ یہ ایک سراب ہے اور اکثر ممالک یہ سمجھتے بھی ہیں مگر فوج ان کے مطالبات پورے کر دیتی ہے تو ان کو یہ صورت بھی قابل قبول ہے کیونکہ ان کے مفادات کا تحفظ تو ہو جاتا ہے عالمی طاقتیں بس یہی چاہتی ہیں کہ ان کے مفادات کا تحفظ ہو جائے تو ان کے مطالبات نہیں ہوتے لیکن ان کے مفادات کا تحفظ نہ ہو تو ان کو جمہوریت اور انسانی حقوق یاد آتے ہیں۔
Prev Post
Next Post