شہر کو سیلاب لے گیا!

324

کراچی میں بارش نے جو تباہی مچائی ہے الامان و الحفیظ لیکن ہمیں اس بربادی پہ بیساختہ خدائے سخن حضرتِ میر تقی میر یاد آگئے۔ کیا لافانی شعر ہے ان کا:؎
کن نیندوں اب تو سوتی ہے اے چشمِ گریہ ناک
مژگاں تو کھول شہر کو سیلاب لے گیا!
میر صاحب آج ہوتے تو اسلام آباد میں کھوئے ہوئے عمران خان سے یہ سوال کرتے کہ میاں کس خوابِ خرگوش میں ہو، آنکھیں کھولو اور دیکھو کہ تمہاری غفلت سے بھرپور استفادہ کرتے ہوئے سندھ پر بارہ برس سے قابض وڈیرہ شاہی نے شہر کراچی کا کیا حشر کیا ہے اور وہ جو کبھی روشنیوں کا چمکتا دمکتا شہر تھا، جس پہ پاکستان کو ناز تھا اور اگر پورے پاکستان کو نہ سہی۔۔۔ کیونکہ حاسد کراچی سے جلنے والے تو ہمیشہ سے اقتدار کی صفوں میں رہے ہیں اور آج تمہارے دورِ حکومت میں بھی ہیں۔۔۔ تو کم از کم کراچی کے باسی تو اپنے جگمگاتے جاگتے شہر پہ فدا تھے، وہ شہر کیسا تاریکیوں میں ڈوبا ہوا ہے کہ بہت سی اس کی بستیوں میں تو دنوں سے بجلی غائب ہے یا غائب جان بوجھ کے کردی گئی ہے!
ہمیں یقین ہے کہ میر صاحب کے اس سوال کا عمران خان کے پاس کوئی جواب نہ ہوتا اور سوائے اپنی مصروفیت کا رونا رونے کے وزیرِ اعظم کے پاس کوئی مسکت جواب ہو ہی نہیں سکتا تھا۔
مسئلہ بہت اختصار سے یہ ہے کہ کراچی سے نئے پاکستان کے بزعمِ خود قائد اور معمار عمران کو بھی اتنی ہی دلچسپی اور وابستگی ہے جتنی ان سے پیشتر آنے والوں کو رہی ہے۔ یعنی صرف اس حد تک کہ اس سونے کا انڈا دینے والی مرغی سے اس کے طلائی انڈے تو لیتے رہیں لیکن بدلے میں اس کو اس طرح سے رکھیں جیسے روایتی سوتیلی ماں اپنے سوتیلے بچے کو رکھتی ہے!
یہی سبب ہے کہ کراچی پر دو ہفتے سے قیامت ٹوٹ رہی ہے، مون سون کی بارشوں نے شہر کو شہر نہیں رہنے دیا اسے دریا بنادیا ہے بلکہ کسی دل جلے نے کیا خوب کہا کہ عمران خان تو دو برس سے فلاں فلاں ڈیم بنانے کا نعرہ لگاتے رہے ہیں لیکن کسی ایک ڈیم کی بنیاد بھی نہیں پڑی لیکن سندھ کی وڈیرہ شاہی نے رایوں رات کراچی شہر کو پاکستان کا سب سے بڑا ڈیم بنادیا ہے! اس کے باوجود وزیرِ اعظم کے پاس کراچی آنے اور اپنی آنکھوں سے اس کی تباہی اور بربادی کا مشاہدہ کرنے کیلئے وقت نہیں نکل سکا۔ اب دو ہفتے بعد جب شہر کا انجر پنجر ڈھیلا ہوچکا ہے تو انہوں نے ازراہِ کرم یہ اعلان کیا ہے کہ وہ اگلے ہفتے کراچی میں قدمِ رنجہ فرمائینگے!
ہم اگر کراچی والوں کے نقیب ہوتے تو ان سے دست بستہ عرض کرتے کہ حضور، کیوں زحمت فرماتے ہیں۔ آپ کراچی میں وارد ہونگے تو کونسا ان بستیوں میں قدم رکھنے کی زحمت فرمائینگے جو گلے گلے تک پانی میں ڈوبی ہوئی ہیں؟ آپ تو ہوائی اڈے سے سیدھے گورنر ہاؤس کی راہ لینگے، وہاں وزیروں اور افسروں کے ساتھ آپ کی میٹینگیں ہونگی جن کی تصویریں ٹی وی پر عوام کو دکھائی جائینگی اور آپ حسبِ دستور بڑے بڑے پیکجزکا امداد کے عنوان سے اعلان کرینگے اور پھر سورج غروب ہونے سے پہلے اسلام آباد کیلئے روانہ ہوجائینگے، اللہ اللہ خیر صلّا!کراچی والے یہ سب کچھ بارہا دیکھ اور سن چکے ہیں، صرف آپ سے ہی نہیں بلکہ آپ سے پہلے سریر آرائے سلطنت ہونے والوں سے بھی۔ آپ نے تو چند ماہ پہلے جب کراچی کو اپنے وہاں ہونے کا شرف بخشا تھا تو کراچی کیلئے ۶۵ ارب کے تر قیاتی پیکج کا اعلان کیا تھا لیکن کراچی والے قسمیں کھاتے ہیں کہ اس امدادی اور ترقیاتی رقم کا ایک دھیلا بھی جو انہوں نے اپنے شہر میں لگتا دیکھا ہو۔ پیسہ اگر آیا بھی ہوگا تو وہ زرداری کے ان شیطانی چیلوں کی گہری جیبوں میں کب کا غائب ہوچکا ہوگا جو پچھلے بارہ برس سے کراچی کو نوچ نوچ کے کھارہے ہیں لیکن ان کی بھوک نہیں مٹتی!گدھ تو مردار کے گوشت سے اپنی بھوک مٹانے کے بعد اسے چھوڑ کے چلاجاتا ہے لیکن وڈیرہ شاہی کے سبب کراچی کی دولت سے فیض اٹھانے والے ہیں کہ شہر کو نوچے چلے جارہے ہیں اور اس کی جان نہیں چھوڑتے!
جن حکمرانوں کو اپنے ملک سے محبت ہوتی ہے وہ اسے اپنے بدن کی طرح سمجھتے ہیں جس کے ایک عضو میں درد ہو یا وہ تکلیف کا شکار ہو تو پورا بدن اسے محسوس کرتا ہے اور درد کی دوا تلاش کرتا ہے۔ کراچی پاکستان کا دل ہے جس کے بغیر بدن زندہ نہیں رہ سکتا لیکن خدا جانے ہمارے حکمرانوں کو اس شہر سے کیا بیر ہے کہ اسے عضؤ معطل بنایا ہوا ہے۔ بے اعتنائی کا یہ سلسلہ وہاں سے شروع ہوا جب ایوب خاں نے کراچی کو خیرباد کہہ کر ایک ہزار میل دور اسلام آباد بسایا اور اسے ملک کا دارالحکومت قرار دیا۔ وہ دن اور آج کا دن، کراچی ہے کہ حکمرانوں کی نظر میں کبھی سماتا ہی نہیں۔ یتیم و یسیر سمجھ کے اسے پیپلز پارٹی کے شکروں اور گدھوں کے رحم و کرم پہ شہر کو چھوڑا ہوا ہے کہ وہ جو چاہیں اس کا حشر کریں اور انہوں نے جو اس کی درگت بنائی ہے وہ زبانِ حال سے گواہی دے رہی ہے کہ اسے لوٹا اور بیدردی سے پامال کیا جارہا ہے!
عمران خان نے بھی اس طرزِ مجرمانہ کو بدلا نہیں ہے اور یہ اس کے باوجود یہ ہے کہ کراچی والوں نے، جو ایم کیو ایم کے شعبدہ بازوں کے ڈسے ہوئے تھے عمران کی پکار پرلبیک کہتے ہوئے دو برس پہلے ہونے والے عام انتخاب میں ان کی تحریکِ انصاف کے چودہ امیدواروں کو اپنے ووٹ کی طاقت سے قومی اسمبلی میں بیٹھنے کا حق عطا کیا تھا۔ لیکن ان کی مایوسی کی انتہا نہیں رہی ہے عمران خان کی بے اعتنائی دیکھ کر اور ان کے ایما پر وڈیرہ شاہی کے ہاتھوں مسلسل لوٹے جانے پر۔
عمران کو اگر کراچی سے ہمدردی ہوتی یا یہ احساس ہوتا کہ ملکی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی وڈیرہ شاہی کے ہاتھوں کس طرح تیزی سے کمزور ہورہی ہے تو وہ وقت ضائع کئے بغیر کراچی کا رخ کرتے لیکن ان کا اپنا شاہانہ انداز بھی وڈیرہ شاہی سے کم نہیں ہے اور یہ مزاج تھپکی دے دے کر سلانے والا ہے اور یہ وہ غفلت ہے جس کیلئے میر صاحب کے دل سے آواز نکلی تھی کی اے غفلت شعار آنکھیں کھول اور دیکھ کہ سیلاب تیرے شہر کا کیا حشر کرگیا ہے!
ہمیں تو اب اپنے سے بیزاری ہونے لگی ہے کہ کیوں ہم یہ کہے جارہے ہیں کہ اقتدار کے ایوانوں میں رہنے والو خدارا آنکھیں کھولو اور ہوش کہ ناخن لو کہ کراچی کو نظر انداز کرکے تم آگ سے کھیل رہے ہو اسلئے کہ کراچی اگر برباد ہوگیا تو پاکستان بھی نہیں رہے گا۔ کراچی اگر ڈوبا تو پاکستان کے غبارے میں سے بھی سب ہوا نکل جائیگی اور پھر شاید تمہیں ہوش آجائے لیکن اس وقت تک بہت دیر ہوچکی ہوگی اسلئے کہ قدرت کے قوانین اٹل ہیں اور ان میں یہ قانون بھی ہے کہ وہ غفلت زدہ اہل اقتدار کی غلطیوں کو معاف نہیں کرتی! لیکن جب اپنی بے بسی اور لاچاری پر غصہ کم ہوتا ہے تو پھر خود کو یہ کہہ کرتسلی دے لیتے ہیں کہ اور کچھ نہیں تو کم از کم اپنے قلم سے جہاد کا حق تو ادا ہورہا ہے وہ جس کیلئے حکیم الامت فرما گئے ہیں کہ:؎
اگرچہ بت ہیں جماعت کی آستینوں میں
مجھے ہے حکمِ اذاں لا الہ ال للہ!
سندھ کی مجرم حکومت کی نا اہلی کا ثبوت تو سب کی آنکھوں کے سامنے ہے اس سے بڑھ کر سندھ پر گورنر راج نافذ کرنے کا اور کیا جواز ہوسکتا ہے لیکن لگتا ہے جیسے کپتان نے یا تو کراچی کو بالکل ہی اپنی توجہ کے ریڈار سے ہٹادیا ہے یا پھر کوئی دلیرانہ فیصلہ کرنے کی کپتان میں ہمت اور صلاحیت ہی نہیں ہے۔ عمران کے نادان اور کم نظر حمایتی جواز یہ پیش کرتے ہیں کہ کپتان کی مجبوری یہ ہے کہ ان کے ہاتھ پوری طرح کھلے ہوئے نہیں ہیں اور اہم فیصلوں کیلئے انہیں کسی اور طرف بھی دیکھنا پڑتا ہے۔ اشارہ صاف اس اسٹیبلیشمنٹ کی جانب ہوتا ہے جو اگر اقتدار پر براہ راست قابض نہ ہو تو بھی پردے کے پیچھے سے ڈوریاں ہلاتی رہتی ہے۔ اگر ایسا ہے تو پھر کپتان پر حیرت ہوتی ہے کہ وہ کیوں اس دوغلے کھیل میں فریق بن کر اپنی ساکھ اور شہرت کو داغدار کررہے ہیں۔
مصلحت کو عذربنانا اور اس کے پردے میں دلیرانہ قدم اٹھانے سے احتراز کرنے کی تاویل سے نہ صرف منافقت کی بو آتی ہے بلکہ کپتان کے کردار پر بھی سوالیہ نشان کھڑے ہوجاتے ہیں کہ اقتدار کی ہوس انسان کو کس حد تک گراسکتی ہے!
مصلحت کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں ہے جب معاملہ امت یا ملّت کے مفاد اور بقا کا ہو۔
یہ سطور ایسے دن لکھی جارہی ہیں جو اسلامی تاریخ کا سب سے تاریخ ساز دن ہے یعنی یومِ عاشور جو سید الشہدا سیدنا امام حسینؓ کی بے مثل قربانی کی یاد ہر سال تازہ کرتا ہے اور یہ سالانہ یاد دہانی تو ان کیلئے ہے جو تاریخ کے ورد کا ذوق نہیں رکھتے ورنہ ہم جیسے تاریخ کے کیڑوں کیلئے تو سید الشہدا کی قربانی ہر روز تازہ اور تابندہ رہتی ہے۔ سید الشہدا نے بھی اگر مصلحت سے کام لیا ہوتا یا موقع پرستی کو اپنا شعار بنایا ہوتا تو اسلام کی تاریخ ہی اور ہوتی اور دین کا حلیہ ایسے ہی بگڑ جاتا جیسے آج ہمارے شہر کراچی کا بگڑا ہوا ہے لیکن امامِ عالی مقام نے کسی مصلحت کو اپنے راستے کی رکاوٹ نہیں بننے دیا اور یزیدِ لعین کی اسلام دشمنی کا پردہ چاک کرکے رہے اگرچہ اس عمل میں انہیں اپنی اور اپنے کنبے کی جانوں کو نثار کرنا پڑا لیکن یہ گراں قیمت ادا کرتے ہوئے بھی امامِ عالی مقام کے پاؤں میں لغزش نہیں آئی۔
وہ جو سید الشہدا کی درخشاں اور بے مثال قربانی کو اپنے لئے مشعلِ راہ بناتے ہیں ان کے قدم ہر شاہراہِ حیات پر مضبوطی سے جمے رہتے ہیں۔ لغزش اور ٹھوکریں تو وہ کھاتے ہیں جن کا شعار یزیدِ وقت سے مصلحت کرنا ہو۔ وہ حکمراں جو کربلا کو اپنے لئے راہنما نہیں کرتے ان کے قدم بھی لڑکھڑاتے رہتے ہیں اور وہ صحیح فیصلہ کرنے کی صلاحیت سے بھی محروم ہوجاتے ہیں۔ ہماری دعا تو اب بھی عمران کے حق میں یہی ہے کہ خدا انہیں حسین کا پیروکار بنائے یزید یا یزید جیسوں کا نہیں۔ اور یہ بہت جلد معلوم ہوجائے گا کہ عمران کی ترازو کا پلڑا کس سمت میں جھک رہا ہے۔ کراچی کے ضمن میں ان کی حکومت کے فیصلے بہت جلد بتادینگے کہ ہوا کا رخ کس طرف ہے!