بلاشبہ پاکستانی فوج میں اکثریت مزدوروں، محنت کشوں، کسانوں، ہاریوں اور درمیانے طبقوں سے تعلق رکھنے والے سپاہی اور افسروں کی ہے جو روٹی روزی کی خاطر فوج میں بھرتی ہوتے ہیں، جن کے گھروں میں فاقہ کشی کا دیو گھومتا رہتا ہے، جو ملازمت میں اپنی بیوی بچوں کے ساتھ رہ کر زندگی بسر نہیں کرتے جو ملک اور عوام کا دفاع کرتے ہیں، جس کے لئے اپنی قیمتی جانوں کے نذرانے پیش کرتے ہیں، دہشت گردی اور ملک دشمن طاقتوں کا مقابلہ کرتے ہیں، جب ایک سپاہی ریٹائر ہوتا ہے تو وہ چوکیداری کی ملازمت ڈھونڈتا ہے، پنشن اتنی کم ہوتی ہے کہ ساری زندگی محنت و مشقت میں گزار دیتا ہے، اسی طرح ایک جونیئر افسر کا تعلق کسی متوسط طبقے سے ہوتا ہے جس پر باقی گھر کا بوجھ ہوتا ہے اس کا گز اوقات مشکل ہوتا ہے جس کے مقابلے میں فوجی اعلیٰ افسران کو تمام تر سہولتیں میسر ہوتی ہیں جس میں رہائشی و تجارتی آلاٹ پلاٹ، زرعی زمینیں اور دوسری سہولتیں جس سے ان کی غربت کے دن غائب ہو جاتے ہیں ظاہر ہے جب ایک فوجی میجر کو ایک رہائشی پلاٹ، ایک تجارتی پلاٹ اور ایک مربع زمین ملے گی تو اس کی قسمت بدل جائے گی، اسی طرح کرنل کو دو دو پلاٹس اور پچاس ایکٹر زرعی، بریگیڈیئر کو دو دو پلاٹس اور پچاس ایکٹر زرعی، میجر جنرل کو تین تین پلاٹس رہائشی اور 75ایکڑ زرعی، لفٹیننٹ جنرل کو چار چار رہائشی اور تجارتی پلاٹس اور 100ایکڑ زرعی اور فل جنرل کو پانچ پانچ پلاٹس اور 100ایکڑ زرعی زمینیں دی جاتی ہیں تو فوج میں تفرقات پیدا ہو جاتے ہیں، ایک طرف نان کمیشنڈ افسر جو چوکیداری کی زندگی بسرکرتا ہے، اعلیٰ افسر کروڑوں اور اربوں کا مالک ہوتا ہے جن کے لئے پورے پاکستان میں زراعت اور درختوں کو کاٹ کاٹ کر ڈیفنس سوسائٹیاں بنائی جاتی ہیں جبکہ حاضر افسران کے گھروں میں تین لاکھ فوج بطور بٹلرز، ڈرائیورز اور مالی کام کرتے ہیں جس کی دنیا میں مثال نہیں ملتی تاہم گزشتہ دنوں جنرل مشرف کے قریبی رشتے دار سابقہ میجر جنرل انور حسین کا نیب میں کیس آیا کہ انہوں نے جکارتہ میں پاکستانی سفارتخانہ بیچ ڈالا جو کئی ملین کی قیمت رکھتا ہے جس پر نیب نے مقدمہ بنایا ہے جس کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہو گا، پچھلے ہفتے پاکستان میں چین کا قائم کردہ سی پیک کے سربراہ اور عمران خان کے اعلیٰ مشیر جنرل عاصم باجوہ کا نام سامنے آیا ہے جس کی پندرہ کروڑ کی ڈیکلیئر جائیداد لاکھوں میں بتائی گئی ہے جبکہ ویلیو کروڑوں اور اربوں میں ہے ،اب ان کی اندرون اور بیرون ملک دولت کا کھوج لگا لیا گیا ہے جو اربوں میں پائی جاتی ہے جس میں ۱۳۰ فاسٹ فوڈ ریسٹورنٹ پاپا جان پیزا میں حصہ داری اور ننانوے کمپنیوں کا مالک ہے جو ان کی بیوی اور اولاد کے نام پر درج ہے جس کا انکشاف پاکستان کے مشہور سابقہ اور تشدد شدہ صحافی احمد نورانی نے کیا ہے جن کے پاس کاروباری کاغذات بطور ثبوت موجود ہیں جس سے انکار کرنا مشکل ہے بشرطیکہ اس رپورٹ کو کسی کی عدالت میں چیلنج کیا جائے تاکہ عدالتوں میں جنرلوں کی کارکردگی کے نام پر کرپشن کا اتا پتا چل جائے، جس پر پاکستان کی مشہور انسانی حقوق کی علمبردار عاصمہ جیلانی مرحومہ نے کہا تھا کہ اگر جنرلوں کے کرپشن کا کھوج لگایا جائے تو سیاستدانوں کو لوگ فرشتے سمجھیں گے، مزید برآں جنرل مشرف کی کوٹھیاں، بنگلوں اور سوئٹرزلینڈ میں چھپی ہوئی دولت کا شمار لگانا مشکل ہو چکا ہے اسی طرح جنرل کیانی کا آسٹریلیا، جنرل کرامت کا امریکہ، جنرل پاشاکا دوبئی، جنرل راحیل شریف کا سعودی عرب میں دولت کے انبار لگے ہوئے ہیں جس کو دیکھ کر پوری فوج شرمسار ہو جائے، جن کی وجہ سے پاکستان کی پوری فوج بدنام ہورہی ہے، علاوہ ازیں لاہور گالف کورس کے جنرلوں کی اربوں کی کرپشن کو چھپا دیا گیا جب سپریم کورٹ نے چاروں جنرلوں کی عدالت میں پیش ہونے کا حکم دیا تھا جس کے بعد پوری جنرل کریسی چیف جسٹس افتخار چودھری کے خلاف ہو گئی آج بھی چیف جسٹس کے خلاف زہر الگتی رہتی ہے، اسی طرح چند ماہ پہلے چیف جسٹس گلزار صاحب نے کراچی میں فوج کے ناجائز شادی گھروں کے خلاف فیصلہ دیا تو جنرلوں نے سابقہ کرنل انعام الرحمن ایڈووکیٹ کو اغواء کر لیا جن کو کہا گیا کہ وہ چیف جسٹس گلزار اور جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس دائر کریں تاکہ مجوزہ ججوں کو عدالت عظمی سے باہر نکالا جائے جو فوج کے سیاہ کارناموں کے خلاف فیصلے دے رہے ہیں جس پر کرنل انعام نے انکار کیا تو انہیں کئی ہفتوں تک اغواء کر کے تشدد کرتے رہے ہیں۔
بہرحال جنرل ایوب خان، جنرل یحییٰ خان ،جنرل ضیاء الحق، جنرل مشرف کے دور آمریت سیاہ کارناموں سے بھری پڑی ہے جنہوں نے پوری فوج کی مارشل لائوں ،آئین شکنی، غاصبیت سے بدنام کیا ہے جس کا سلسلہ اب مستقل پاکستانی سیاست کا حصہ بن چکا ہے کہ کبھی جنرل خود پاکستان کی منتخب حکومتوں کے تختے الٹتے نظر آئے اور کبھی انتخابات کے نتائج بدلتے پائے گئے ہیں جس سے پاکستان دن بدن ترقی کی بجائے دہشتگرد قرار دیا گیا ہے، کبھی جنرلوں نے سامراجی معاہدوں میں ملک کو جکڑا اور کبھی پرائی جنگوں میں ملک کو جھونک دیاجس سے ملک تباہ و برباد ہو گیا کہ آج پاکستان دنیا کے پسماندہ ترین ممالک افغانستان، صومالیہ اور کانگو میں شمار ہوتا ہے جبکہ پاکستان کی کوکھ سے جنم لینے والا ملک بنگلہ دیش آج دنیا کا آٹھواں پیداواری ملک بن چکا ہے جس کی انڈسٹری دن رات چل رہی ہے جو دنیا بھر کو کپاس نہ ہونے کے باوجود کپڑا سپلائی کررہا ہے جس سے ان کی کرنسی پاکستان سے کئی گنا زیادہ قیمت رکھتی ہے، قصہ مختصر مذکورہ بحث کا مطلب اور مقصد صرف اور صرف یہ ہے کہ فوجی جنرلوں کے اعمال پر تنقید سے پوری فوج کو بدنامی سے بچایا جارہا ہے جس کا کسی قسم کے کرپشن میں کوئی کردار نہیں ہے، یہ صرف بعض جنرل ہیں جن سے فوج بدنام ہورہی ہے، جن کا ہر طرح کا محاسبہ ہونا چاہیے تاکہ فوج کا معیار بلند رہے۔