ڈیموکریٹ پارٹی کا کنونشن

287

ایک مقبول عوامی شخصیت کے وقت کے گذر جانے کا پتہ اسکی اہمیت میں کمی سے لگتا ہے بڑے بڑے لیڈروں کی اہمیت کم ہوتے ہوتے ختم ہو جاتی ہے وقت گذر جاتا ہے نیا دور اور نئے چہرے سامنے آ جاتے ہیں پرانے لوگ وقت کی دھندمیں کھو جاتے ہیںبقول شاعر ؎

ٹھہر سکا نہ ہوائے چمن میں خیمئہ گل

یہی ہے فصلِ بہاری یہی ہے باد مراد!

سابقہ امریکی صدر بل کلنٹن 1979 سے 1991 تک ریاست آرکنساس کے گورنررہے اسکے بعد وہ 1993 سے 2001 تک صدر امریکہ تھے چند سال پہلے تک وہ مقبولیت کے بام عروج پر تھے گذشتہ چالیس برسوں میں ڈیموکریٹک پارٹی کے دس کنونشن ہوے ان میں سے ہر ایک میں بل کلنٹن نے ایک گھنٹے سے زیادہ طویل تقریر کی کئی مرتبہ انکی تقریر جب زیادہ طویل ہو گئی تو کسی بھی نیٹ ورک نے اسے کاٹنے کی بجائے جاری رہنے دیاکارپردازانِ ٹیلیویژن جانتے تھے کہ بل کلنٹن جب تک بولتا ہے لوگ سنتے رہتے ہیںجب 2016 میں انکی اہلیہ ہیلری کلنٹن نے اپنی صدارتی مہم چلائی تو انہوں نے سابقہ صدر کو سامنے نہ آنے دیااسلئے کہ کہیں لوگ یہ نہ کہیں کہ وہ کاروبار مملکت نہ سنبھال سکیں گی اسکے بعد ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں خواتین نے مردوں کے خلاف می ٹو تحریک چلائی صدر ٹرمپ اس سے بے نیاز رہے اسکا زیادہ نقصان میڈیا کی مشہور شخصیتوں اور بل کلنٹن کو ہوا وہ اپنی گورنر شپ اور صدارت دونوں ادوار میں کئی جنسی سکینڈل کی زد میں رہے مونا لیونسکی کی ساتھ انکا مشہور زمانہ سکینڈل انکی Impeachment کا باعث بنا ان دنوں سینٹ میں ڈیموکریٹ کی اکثریت تھی اسلئے انکی صدارت بچ گئی

اس سال جب ڈیموکریٹک پارٹی نے جوزف بائیڈن کو صدارتی امیدوار چنا تو اسے یہ مرحلہ درپیش تھا کہ بل کلنٹن کو کنونشن میں بطور مقرر مدعو کیا جائے یا نہیںابھی تک جاری رہنے والی می ٹو تحریک اور الیکشن میں خواتین کے ووٹ حاصل کرنے کیلئے ضروری تھا کہ کسی متنازعہ شخصیت کو پارٹی کے کنونشن میں شامل نہ کیا جائے گذشتہ ہفتے چار روز تک جاری رہنے والےVirtual کنونشن میں دو سابقہ صدور جمی کارٹر اور براک اوباما نے بھی خطاب کرنا تھا اسلئے بل کلنٹن کی حق تلفی نہ ہو سکتی تھی آخری فیصلے کے مطابق انہیں تقریر کیلئے صرف پانچ منٹ دئے گئے براک اوباما نے انیس منٹ تک خطاب کیا اور جمی کارٹر کے حصے میں بھی پانچ منٹ آئے انکا وقت بھی گذر چکا تھا اس کنونشن کو Virtual اسلئے کہا جاتا ہے کہ اسمیں ایک کنونشن سنٹر تو تھا مگر ہجوم‘  تالیاں اور غبارے نہ تھے کورونا وائرس کی وجہ سے کنونشن کے درجنوں مقررین نے یا تو اپنے گھروں سے اور یا شہر کی کسی مشہور جگہ سے خطاب کیا  جوزف بائیڈن نے جمعرات کے دن Acceptance Speech ریاست Delaware کے کنونشن سنٹر سے کی اسے کئی نیوز نیٹ ورک پر چھبیس ملین لوگوں نے دیکھا میڈیا کے مطابق 2016 کے کنونشن کو اکتیس ملین ناظرین نے دیکھا تھا صدارتی امیدوار کی اہلیہ Jill Bidan طویل عرصے تک Delaware کے شہر Wilmington کے ایک سکول میں انگریزی ادب پڑھاتی تھیں انہوں نے اسی سکول کے اسی کلاس روم سے تقریر کی براک اوباما نے فلا ڈلفیا کے Revolution Museum سے خطاب کیا یہ وہ شہر ہے جہاں امریکہ نے برطانوی تسلط سے آزادی کا اعلان کیا تھا معمارانِ قوم نے اسی شہر میںمئی سے ستمبر 1787 تک آئین لکھا تھا براک اوباما نے اپنی تقریر میں کئی آئینی حوالے دیکر ثابت کیا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی صدارت میں امریکی آئین اور جمہوریت خطرے میں ہے میڈیا دانشوروں نے اسے کنونشن کی بہترین تقریر قرار دیا ہے انکی تقریر سنتے ہوے محسوس ہوتا تھا کہ سابق صدر دل کی گہرائیوں سے بات کر رہے تھے انکا ہدف صرف صدر ٹرمپ نہ تھے اور نہ ہی انکا مقصد جوزف بائیڈن جو آٹھ برس تک انکے نائب صدر رہے تھے کی مدح سرائی تھا وہ یہ ثابت کرنا چاہ رہے تھے کہ لمحہ موجود میں امریکہ ایک تاریخی بحران کی زد میں ہے اس خطاب میں انہوں نے اس دانشورانہ اور اخلاقی نظام کی بات کی جسکی روشنی میں امریکی آئین لکھا گیا تھا

جوزف بائیڈن نے کیلیفورنیا کی ممتاز سینیٹر کمالا ہیرس کو نائب صدارت کیلئے چنا ہے انکی تقریر بھی کافی مدلل اور زوردار تھی مگر ان پر اعتراض یہ ہو رہا ہے کہ وہ اپنی زندگی کی کہانی مٗوثر طریقے سے بیان نہیں کر پا رہیں سینیٹر ہیرس سے توقع کی جا رہی ہے کہ وہ دل کھول کر بات کریں انکے والد 1958 میں جمیکا سے امریکہ آئے تھے اور انکی والدہ کا تعلق انڈیا سے ہے دونوں پی ایچ ڈی سکالر تھے اور طویل عرصے تک امریکی یونیورسٹیوں میں پڑھاتے رہے تھے انکے والدین نے جب اپنے راستے جدا کئے تو اسوقت انکی عمر پانچ سال تھی وہ چار برس تک کیلیفورنیا کی اٹارنی جنرل رہیںاسکے بعد وہ اسی ریاست سے سینیٹر منتخب ہوئیں

جمعرات کی رات اس کنونشن کی آخری تقریر جوزف بائیڈن کی تھی سابقہ نائب صدر نے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز 1972 میں ڈیلا وئیرسے سینٹ کی سیٹ جیت کر کیا تھا اسوقت انکی عمر انتیس برس تھی وہ مسلسل چھتیس برس تک اس ریاست کے سینیٹر رہے وہ 2020 سے پہلے دو مرتبہ صدارت حاصل کرنیکی کوشش کر چکے ہیں پہلی مرتبہ 1988 میں اور دوسری مرتبہ 2016 میں۔اب 77برس کی عمر میں وہ بلا آخر صدارتی امیدوار ہونیکا اعزاز حاصل کرنے میں کامیاب ہوے ہیںوہ حالیہ صدارتی مہم سے پہلے بھی ایک مقبول شخصیت تھے اسکی وجہ انکا بے داغ کردار‘ سادہ زندگی اور لوگوں سے گھل مل کر رہنا ہے انکی پہلی بیوی اور ایک بیٹی 1972 میں کار حادثے میں ہلاک ہوئیں تھیں پھر 2016 میں انکا جوان بیٹا Beau Biden دماغی کینسر کے عارضے میں مبتلا ہو کر انتقال کر گیا امریکی عوام نے جوزف بائیڈن کو ان شدید صدمات سے دوچار ہوتے ہوے دیکھا ہر مرتبہ انہوں نے اپنے آپ کو سنبھالا اور اپنا سیاسی سفر جاری رکھاانکی ذاتی زندگی ایک کھلی کتاب ہے جو انکی مقبولیت کا باعث بھی ہے اسوقت مختلف سرویز کے مطابق وہ صدارتی مقابلے میں ڈونلڈ ٹرمپ سے آٹھ پوائنٹس آگے ہیں آخری فیصلہ بہر حال تین نومبر کو ہو گا بائیڈن اگر 77 سال کی عمر میں صدر امریکہ بن جاتے ہیں تو پھر یہ پوچھا جا سکتا ہے کہ بل کلنٹن کیسے 73 سال کی عمر میں سیاست کا قصئہ پارینہ بن چکے ہیںجواب یہی ہے کہ وہ دو مرتبہ صدر رہ چکے ہیں انکا عروج اختتام پذیر ہوا اب شائد جوزف بائیڈن کو انکی سیاست سے کمٹمنٹ اور زندگی بھر کی خدمات کا صلہ ملنے والا ہے