اور کتنا گِروگے ؟

300

اگر آپ یہ سوچ رہے ہیں کہ میرے کالم کے عنوان کا تعلق وطنِ عزیز پاکستان سے ہے تو معذرت کے ساتھ یہ کہنے دیجئے کہ آپ غلط سوچ رہے ہیں! تعلق اس عنوان کا ان سے ہے جن کی جیبیں جب سے تیل کے ڈالروں سے بھری ہیں اور اتنی بھاری بھرکم ہوچکی ہیں کہ ان سے یہ بوجھ سہا نہیں جارہا، وہ ہم غریب پاکستانیوں کو بڑی حقارت سے دیکھتے ہیں، فقیر اور مسکین گردانتے ہیں لیکن ہمارے یہی عرب برادران جب کسی سفید فام کے سامنے خود کو پاتے ہیں تو ایسے مسکین صورت اس کے آگے جھکتے ہیں جیسے دیرینہ غلام ہوں اور اس سرکار کے ہر لفظ پر آمنّا و صدقنا کہنے کیلئے بیتاب ہوں ! ہم نے برسوں سفارت کے صحرا میں گذارے ہیں اور اپنی سفارتی خانہ بدوشی کا ایک طویل دور عالمِ عرب میں اور خاص طور پر خلیج کے ان مالدار شیوخ کے درمیان بسر کیا ہے تو یہ کہنا کوئی خودنمائی کی بات نہیں ہوگی کہ ہم ان کی رگ رگ سے واقف ہیں۔ بڑے بڑے کارنامے کرتے ہوئے دیکھا ہے ان شیوخِ عرب کواس حوالے سے جس کا ذکر ہم نے ابتدا میں کیا کہ جب گوری چمڑی کا معاملہ آجائے تو ان شیخوں کی ساری شیخی دھری رہ جاتی ہے اور بیچارے منمنانے لگتے ہیں اپنے گورے سرپرستوں کے سامنے !
لیکن جو پیش رفت ہمارے پاکستان کے یومِ آزادی سے ایک دن پہلے ہوئی ویسا تجربہ پہلے نہیں ہوا تھا۔ تو ہوا یوں کہ جنابِ ٹرمپ نے، جنہیں شیوخِ عرب اپنا سب سے بڑا حمایتی اور مددگار سمجھتے ہیں اور جن کی مدد کرنے کیلئے وہ خود بھی ہمہ وقت کوشاں رہتے ہیں، بڑی شان و شوکت کے ساتھ اپنے بیتِ سفید میں پریس کانفرنس کی، میڈیا کو طمطراق سے جمع کیا اور پھر تمکنت سے اعلان کیا کہ متحدہ عرب امارات، جس کا شہر دبئی ہمارے پاکستانیوں کیلئے قریب ترین جنت کا درجہ اختیار کرچکا ہے، اور اسرائیل ایک دوسرے کے ساتھ مکمل سفارتی تعلقات قائم کرنے پر متفق ہوگئے ہیں اور اس پیش رفت کو ان کی پوری طرح سے آشیر باد حاصل ہے۔ بہ الفاظِ دیگر، وہ دنیا کو یہ بتانا چاہ رہے تھے کہ ان کے یہ دونوں حلیف ان کی صلاح اور مشورہ سے اس رشتے میں بندھ رہے تھے جس کیلئے امریکہ برسوں سے تگ و دو کرتا چلا آیا ہے کہ زیادہ سے زیادہ عرب ممالک صیہونی ریاست کو جائز تسلیم کرلے اور اس کے ساتھ معمول کے سفارتی تعلقات بھی قائم کرلے!
حیرت کی بات یہ نہیں ہے کہ متحدہ عرب امارات اور اسرائیل سفارتی بندھن میں بندھ رہے ہیں بلکہ حیرت اس پر ہے کہ اس کا اعلان واشنگٹن سے ہوا اور امریکہ کے صدر نے اس کا اعلان ایسے کیا جیسے کوئی باپ اپنے بچوں میں سے کسی کی شادی ہونے کی نوید دنیا کو دے رہا ہو۔
جن لوگوں کی ہماری دنیا کی حالیہ تاریخ پر نظر ہے وہ جانتے ہیں کہ امریکہ بہادر نے اس مہم کا آغاز کب کیا تھا جس کا ہدف عرب ممالک کے اس اشتراک کو توڑنا اور رفتہ رفتہ ختم کرنا تھا جو صیہونی ریاست اسرائیل کے وجود کو تسلیم نہ کرنے کے عنوان سے عرب ممالک کے درمیان اس وقت سے قائم تھا جب امریکہ کی سرتوڑ کوششوں کے بعد، دوسری جنگِ عظیم کے بعد سن ۸۴۹۱ میں اسرائیل کی ریاست وجود میں آئی تھی یا مغربی ممالک اور طاقتوں کی سازش وجود میں لائی گئی تھی۔ اسرائیل کا قیام عرب دنیا کے سینے میں خنجر گھونپنے کے مترادف تھا اور اس سازش کو جنگ کے ذریعہ ناکام بنانے میں اپنی کوششوں کی ناکامی کے بعد عرب حکمرانوں نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ وہ اس ناجائز صیہونی ریاست کو تسلیم نہیں کرینگے اور نہ ہی اس سے کسی قسم کے تعلقات قائم کرینگے۔
سن ۳۷۹۱ میں، عرب اسرائیلی جنگ کے بعد سعودی عرب کے اس وقت کے حکمراں اور تاجدار شاہ فیصل نے ، جن کی رگوں میں غیرتمند خون کی روانی تھی، مغرب کو سبق سکھانے کیلئے تیل کی تنظیم اوپیک کی طرف سے مغرب کو تیل کی فراہمی روک دی تھی تاکہ ان کو احساس دلایا جائے کہ عربوں کے ساتھ کھلی ناانصافی اور اسرائیل کی بیجا سرپرستی کی قیمت ان سے وصول کی جاسکتی تھی۔ تیل کے اس بائیکاٹ نے مغربی ممالک کی چیخیں نکلوادی تھیں اور اس کا خطرہ پیدا ہوگیا تھا کہ وہ بائیکاٹ مغربی معیشتوں کو تباہ کردینے کی صلاحیت رکھتا تھا۔ لہذٰا جوابی کارروائی فوری شروع ہوگئی۔ سب سے پہلا وار تو خود شاہ فیصل پر ہوا جنہیں انہیں کے ایک بھتیجے کے ہاتھوں قتل کروادیا گیا۔ اس کے ساتھ ہی اس وقت کے امریکی وزیرِ خارجہ، ہنری کسینجر نے، جو یہودی ہونے کے ساتھ ساتھ صیہونی اور اسرائیل نوازی کیلئے مشہور تھے اپنا یہ منصوبہ آغاز کیا ۔ اس کا ایک اور پہلو کہ وہ ایک ایک کرکے عرب ریاستوں کے اتحاد کو توڑیں گے اور سب سے پہلا نشانہ ان کا بنا عرب دنیا کا سب سے با اثر ملک مصر جس نے1977 میں اسرائیل کو تسلیم کرلیا اور اس کے ساتھ سفارتی تعلقات بھی قائم کرلئے!
لیکن کسنجر منصوبہ محض یہ نہیں تھا کہ عرب ممالک کو ایک ایک کرکے اسرائیل کے حق میں رام کیا جائے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ یہ پہلو بھی انتہائی حسا س اور اہم تھا کہ مالدار اور طاقتور عرب ریاستوں کی اسرائیل کے ہاتھوں ستائے ہوئے مجبور و معذور فلسطینیوں کی سرپرستی اور امداد کو بھی بتدریج ختم کیا جائے۔
اسرائیل کو تسلیم کرنے اور اس کے ساتھ مکمل سفارتی تعلقات قائم کرنے کا متحدہ عرب امارات کایہ فیصلہ کسنجر منصوبہ کی ان دونوں محاذوں پر مکمل کامیابی اور فتح کا اعلان ہے ! مدت ہوئی کہ مالدار اور متمول خلیجی ممالک نے فلسطینیوں کی مدد سے اپنے ہاتھ کھینچ لئے کیونکہ ان سب کے مربی اور سرپرست سامراج کو یہی پسند ہے کہ فلسطین کے اصل باشندوں کو ترسا ترسا کر مار دیا جائے۔ ایک قطر ہے، واحد خلیجی ریاست، جو اب تک غازہ کے محصور فلسطینیوں کی مدد کرتا رہتا ہے ورنہ تو یہ حال ہے کہ مصر، جس کا غاصب سربراہ جنرل سیسی مشرقِ وسطی میں سامراج کا سب سے بڑا نمکخوار ہے، نے برسوں سے غازہ کے ساتھ اپنی سرحد بند کی ہوئی ہے اسرائیل کی طرف سے غازہ پر وہ پابندیاں نہیں جو عرب اور برائے نام مسلم مصر کی طرف سے عائد ہیں۔ ملت فروشی کوئی عربوں سے سیکھے!کیا پدی اور کیا پدی کا شوربہ جیسا تنکے برابر ملک متحدہ عرب امارات اپنے زعم میں فلسطینیوںپر احسان کررہا ہے یہ جھوٹا دعوی کرکے کہ اس نے اسرائیل کو اس شرط پر تسلیم کیا ہے کہ اسرائیل کے عرب دشمن اور صیہونی وزیرِ اعظم اپنا یہ منصوبہ ترک کردینگے کہ مغربی کنارے پر فلسطینی زمینوں پر بنائی گئی ناجائز اسرائیلی بستیوں کے ساتھ ساتھ فلسطین کے ایک بڑے علاقے پر بھی اسرائیلی حاکمیت قائم کی جائے۔ بن یامین نیتن یاہو کے اس شیطانی منصوبے کو صدر ٹرمپ کی آشیر باد حاصل ہے کہ ان کا زعم ہی یہ ہے کہ وہ امریکی تاریخ کے سب سے بڑے حمایتی اور اسرائیل نواز ہیں!
متحدہ عرب امارات کے چھٹ بھیے ولیعہد محمد بن زیاد نے بڑے طمطراق سے فلسطین پر اس احسان کا اعلان کیا تھا لیکن چند گھنٹے بھی نہیں گذرے تھے کہ بن یامین نے ان کے منہ پر یہ کہ کر بھرپور طمانچہ رسید کیا کہ اس نے اپنا شیطانی منصوبہ محض کچھ دن کیلئے ملتوی کیا ہے اسے ترک نہیں کیا!
لیکن یہ اتھلے، بے پیندے کے عرب حکمراں جنہیں ہمارے صدر ایوب خان نے بہت صحیح جانچا تھا کہ یہ وہ ہیں جو پٹرول پمپ پر جھنڈا لگا کر بیٹھ گئے ہیں، بہت موٹی کھال کے ہیں، بے غیرت اور بے شرم ان کیلئے بہت ہلکے الفاظ ہیں۔ یہ تو اپنے مغربی اور اب صیہونی بھی آقا ؤ ں سے جوتے کھا کر بھی بدمزہ نہیں ہوتے ہاں غریب مسلمانوں کو آنکھیں دکھانے میں بہت طاق ہیں۔ یہ تو قد و قامت کے اتنے بونے ہیں کہ ہمارے وزیرِ خارجہ، شاہ محمود قریشی نے پچھلے ہفتے جو کھری کھری باتیں کی تھیں، اور جن کا ذکر ہمارے گزشتہ ہفتے کے کالم کا موضوع تھا، سعودی ولیعہد، جو محمد بن زیاد سے بھی دو ہاتھ آگے ہیں، پر ایسی شاق گذریں کہ انہوں نے بھناکے پاکستانی حکومت سے کہا کہ انہوں نے قارون کی قبر پر لات مارتے ہوئے جو تین ارب ڈالر پاکستان کے زرِ مبادلہ کے ذخائر میں رکھوائے تھے، ان میں سے ایک ارب ڈالر انہیں گھڑی کی چوتھائی میں واپس چاہئیں۔ غریب کی مجبوری سے ناجائز فائدہ اٹھانے کی اس سے بدتر اور کیا مثال ہوسکتی ہے کہ شہزادے صاحب پاکستان کی جسارت پر اسے سزا دینے کیلئے کہیں کہ لاؤمیری رقم فوری واپس کرو! وہ تو خدا بھلا کرے ہمارے دوست چین کا کہ اس نے یہ ایک ارب ڈالر پاکستان کو دئیے کہ چھچھورے شہزادے کے منہ پر مار دے! کیسے کج کلاہ ہیں جن کی حرکتیں اور نادانیاں دیکھ کے وہ بچہ یاد آجاتا ہے جس کی لڑائی جب دوست سے ہوتی ہے تو وہ غصہ میں آکراپنا وہ کھلونا جھٹ واپس مانگ لیتا ہے جو کچھ دن پہلے اس نے دوست کو دیا ہو! یہ آج جو بڑے بڑے لمبے چوڑے القاب اپنے ناموں کے ساتھ ملاکے فلاں فلاں خلیجی ریاست کے بادشاہ بنے بیٹھے ہیں یہ سب وہ بدو ہیں، وہ اعراب، جن کی اللہ قرآن میں مذمت کررہا ہے۔ یہ کٹھ پتلیاں انگریز بہادر نے اپنی سہولت کیلئے ان ریاستوں کو تقسیم کرکے تخت پر بٹھادی تھیں، کمال ان کا یہ ہے کہ آجتک انگریز اور پورے مغرب کی غلامی کررہے ہیں اور اس پر انہیں بڑا گھمنڈ ہے کہ مغرب کے کاسہ لیس اور بے چون و چراں غلام ہیں۔
سو حکم کے یہ غلام وہی کچھ کررہے ہیں جو ان کے آقا ان سے چاہتے ہیں۔ فلسطینی ہوں یا مودی کے ستائے ہوئے کشمیر کے مظلوم مسلمان ان حکم کے غلاموں کو اس سے سروکار نہیں کہ ان کے کلمہ گو مسلمان بھائیوں پر ہنود یا یہود کیا ستم توڑ رہے ہیں۔ یہ ہوس کے غلام صرف اپنی تجوریوں کو دیکھتے ہیں ایمان اور اسلام ان کیلئے بے معنی ہیں۔ سعودی شہزادے پاکستان آئے توعمران خان سے کہا کہ میں تو سعودی عرب میں آپ کا سفیر ہوں لیکن جب معلوم ہوا کہ عمران کوالا لمپور اس سربراہی کانفرنس میں شرکت کرنے والے ہیں جو آزاد مسلم سربراہوں کی ہوگی تو عمران کو دھمکی دی کہ اگر اس کانفرنس میں گئے تو اپنے ہاں سے پاکستانی محنت کشوں کو نکال دینگے۔ یہ ہے ان کم ظرفوں کی حقیقت!
سوال اب ہماری قیادت کیلئے ہے ، یہ ان کے فہم و بصیرت کا امتحان ہے کہ کیا ان کی آنکھیں یہ سب تماشہ دیکھ کر کھل گئی ہیں یا ان پر ابتک غفلت یا مصلحت کے پردے پڑے ہوئے ہیں؟ اللہ بخشے ہمارے مرحوم حمایت علی شاعر کو کیا خوب کہہ گئے کہ شاعر ان کی دوستی کا اب بھی دم بھرتے ہیں’’ آپ
ٹھوکریں کھاکر تو سنتے ہیں سنبھل جاتے ہیں لوگ‘‘ تو پاکستانی سیاسی اور عسکری قیادت کی آنکھیں بھی کھل جانی چاہئیں، یہ جو ٹھوکر لگی ہے اس کے بعد تو سنبھل جانا ضروری ہے۔ تیل کے ان سوداگروں کی معیشتوں کا ویسے ہی کرونا نے دیوالیہ نکال دیا ہے دنیا میں تیل کی کھپت دن بہ دن کم ہورہی ہے اور ان کے خزانے بھی خالی ہورہے ہیں تو اب یہ ہنود و یہود کے ساتھ گٹھ جوڑ کرکے اپنے خزانے بھرنا چاہتے ہیں لیکن وہ ٹہرے پرانے پاپی اور گھاگ وہ انہیں اور کھوکھلا کردینگے۔! ایک صدی ہوگئی عرب قیادت کو گرتے ہوئے اور سنبھلنے کے آثار فی الوقت تو دور دور نہیں ہیں۔ ان کا زوال کہاں جاکے تھمے گا اس کی نشاندہی اس مرحلے پر کوئی نہیں کرسکتا لیکن ہم پر یہ لازم نہیں کہ ان گرتی ہوئی دیواروں کے نیچے ہم بھی گر جائیں۔ ہمیں اب اپنے پر انحصار کرنے کی شروعات کرنی چاہئیں۔ ایمان اس پہ رکھنا چاہئے کہ رازق اللہ ہے نہ محمد بن سلمان ہے نہ محمد بن زیاد۔ ہمارے مرحوم حکیم الامت تو بہت پہلے کہ گئے ہیں:
اے طائرِ لاہوتی اس رزق سے موت اچھی
جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی!!