شائد تاریخ میں پہلی بار سعودی عرب اور پاکستان میں تعلقات سفارتی محاذ پر اتنے کشیدہ ہوئے ہیں، سعودی عرب نے ہر دور اور ہر حکومت میں ہمیشہ پاکستان پر اپنی نظر عنایت رکھی اور مدد کی، پاکستان نے بھی ہمیشہ سعودی عرب کو اپنا بڑا بھائی سمجھا اور پاکستان کی عسکری قوت نے دونوں مقدس مقامات کی حفاظت کی ذمہ داری لی اور اس کو پورا کر کے دکھایا اس کی مثال جب خانہ کعبہ پر باغیوں نے قبضہ کر لیا تھا اور سعودی فوجی قبضہ نہیں چھڑا سکے تھے، تب پاکستانی فوج نے اس وقت پرویز مشرف کو بھیجنا تھا، پرویز مشرف نے بہادری سے بہت جلد باغیوں سے قبضہ واپس لے لیا تھا، باغیوں کو گرفتار کر کے پھانسی دے دی گئی تھی عراق کویت جنگ میں پاکستانی فوج سعودی عرب میں موجود رہی اور دونوں مقامات کی حفاظت پر مامور رہی، کہا جاتا ہے ایک معاہدہ کے تحت پاکستانی فوج ہر وقت سعودی عرب میں موجود رہتی ہے، پاک فوج کے سابق سربراہ جنرل راحیل شریف اس وقت بھی سعودی عرب میں موجود ہیں اور اسلامی ملکوں کی فوج کی سربراہی سنبھالی ہوئی ہے، سعودی عرب ہر مشکل دور میں پاکستان کی مالی امداد کرتا رہا ہے، کراچی میں شاہ فیصل کالونی ، سعود آباد سعودی حکمرانوں کے نام پر قائم ہے، لائلپور کا نام بدل کر شاہ فیصل کے نام پر فیصل آباد رکھ دیا گیا، دونوں ملکوں میں تعلقات کی بہترین مثال قائم تھی۔
عمران خان کی حکومت آنے کے بعد جب مالی بحران پیدا ہوا تو سعودی عرب نے ایک ارب ڈالر ادھار دئیے اور تیل کی ترسیل یقینی بنائی، مسئلہ تب پیدا ہوا جب مودی نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کی اور اس کو بھارت میں شامل کر لیا، 5اگست 2019ء وہ منحوس دن تھا جب کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کی گئی تب پاکستان امید کررہا تھا کہ مسلم ممالک خاص طور سے سعودی عرب پاکستان کا ساتھ دیں گے لیکن محمد بن سلمان کے ولی عہد بننے کے بعد سعودی عرب کی خارجہ پالیسی تبدیل ہو گئی، محمد بن سلمان نے بھارت کیساتھ تعلقات کا اعلان کر دیا، کشمیر کے مسئلہ پر خاموشی اختیار کی اس کو پاکستان اور بھارت کا دو طرفہ معاملہ قرار دیا، یو اے ای نے اس سے بھی آگے بڑھ کر مودی کو اپنا سفارتی اعزاز اور نشان دے ڈالا یہ عمل دوسرے ملکوں میں بھی دہرایا جانے لگا، بجائے مسلم ممالک پاکستان کا کشمیر کے مسئلے پر ساتھ دیتے اور بھارت کی مذمت کرتے سب خاموش رہے صرف ترکی اور ملائیشیا نے پاکستان موقف کی تائید کی اور پاکستان کے ساتھ کھڑے رہے، طیب اردگان اور مہاتیر محمد نے اقوام متحدہ میں آواز اٹھائی باقی ملک مسلم دنیا کے خاموش رہے نہ او آئی سی نے کوئی بہتر بیان دیا نہ بھارت کے خلاف اجلاس ہوا نہ سربراہوں کا بلایا گیا، تب پاکستان نے سوچنا شروع کیا ہم کہاں کھڑے ہیں، سعودی عرب کی وجہ سے دوسرے چھوٹے چھوٹے اسلامی ممالک پاکستان کیساتھ نہیں کھڑے ہورہے ہیں بلکہ بھارت کے موقف کی تائید کررہے ہیں، چند ماہ پہلے چین میں جب کرونا پھیلا اور ساتھ ساتھ دنیا میں پھیلتا چلا گیا، دنیا خاص طور سے صدر ٹرمپ چین کے خلاف ہوتے گئے، ایک دبائو کی سی کیفیت چین پر پوری دنیا سے آنے لگی، تب چین نے اپنا فیصلہ بدلا اور امریکہ کو بھرپور جواب دینے کا فیصلہ کر لیا، چین کے سامنے امریکہ کا حمایتی بھارت تھا جس نے اقصائی چین کو بھی اپنا حصہ بنایا ہوا تھا، اب چین نے آہستہ آہستہ اپنی فوجیں آگے بڑھانی شروع کی ، ہماچل پردیش اور گلوان گھاٹی میں چینی فوجیں خاموشی سے آگے بڑھ آئیں، پھر ایک فوجی معرکہ ہوا جس میں ۲۰ بھارتی فوجی مارے گئے، تب دنیا کی آنکھیں کھل گئی، بھارت بھی سیدھے راستے پر آنے لگا، کل تک وہ آزاد کشمیر لینے کی بات کرتا تھا اب اس کو اپنے 7صوبے جاتے دکھائی دینے لگے اگر چین سلی گوڑی چکن نیک کاٹ دیتا ہے تو بھارت ٹوٹ جائے گا، کشمیر کا مسئلہ پھر سے زندہ ہو گیا کشمیر کی آزادی کا وقت اب آگیا ہے اور انشاء اللہ بہت جلد کشمیر آزاد ہو جائے گا۔
پاکستان امید کررہا تھا کہ او آئی سی اور سعودی عرب پاکستان کا ساتھ دیں گے لیکن سعودی عرب نے انکار کر دیا، تب شاہ محمود قریشی نے کاشف عباسی کے پروگرام میں ایک بیان کھل کر دیا جس پر سارا ہنگامہ شروع ہو گیا، سعودی عرب نے اپنے پیسے مانگ لئے چائنہ نے ایک ارب ڈالر پاکستان کو دے دئیے ،سعودیوں کو اب شرمندگی شروع ہوئی وہ سمجھ رہے تھے کہ پاکستان ان کی منتیں کرے گا اور بیان واپس لے لے گا چائنہ کے کہنے پر پاکستان اور آگے بڑھ گیا اور نئے اسلامی ملکوں کا بلاک بنانے کی بات کر دی جو سعودی عرب کو کسی قیمت پر قابل قبول نہیں ہے۔
اگر آپ غور سے تاریخ دیکھیں تو سعودی عرب نے ہمیشہ پاکستان کو اپنا ،لے پالک اور اپنے سے چھوٹا ملک سمجھا جو ہمیشہ تیل اور بھیک مانگتا رہتا ہے اور سعودی عرب کتے کی طرح ہڈی ڈال دیتا ہے، چند ڈالروں کی شکل میں لیکن اب وہ دور ختم ہو گیا، پاکستان خطے میں ایک بہت بڑی قوت بننے جارہا ہے اور بھارت ٹوٹنے جارہا ہے، اس لئے سعودی عرب کو اب پاکستان کو آنکھیں نہیں دکھانی چاہئیں، اس کے لئے بھی اور مشکل دن آرہے ہیں، اس کو پاکستان کی ضرورت پڑے گی۔
Prev Post