سیاستدانوں اور جنرلوں پر فرد جرم کا تضاد

267

جب عاصمہ جیلانی کیس میں سپریم کورٹ نے چیف جسٹس حمود الرحمن کی سربراہی میں فیصلہ دیا کہ جنرل یحییٰ خان نے آئین شکنی کر کے آئین سے غداری کی ہے جو ایک سنگین جرم تھا تو اس پر بھٹو حکومت نے عملدرآمد نہ کرنے پر اپنی موت کے پروانے پر دستخط کر دئیے ، اگر جنرل یحییٰ خان کو آئین شکنی میں سزا مل جاتی تو آئندہ کوئی جنرل ضیاء اور جنرل مشرف آئین توڑنے، منتخب حکومتوں کے تختے الٹنے اور ملک پر قبضہ کرنے کی جرأت نہ کرتے، جب پاکستان کے جنرلوں نے ملک کو دو لخت کیا تو حمود الرحمن کمیشن نے امروز خان اور دوسرے اہم لوگوں کی شہادتوں اور گواہیوں پر جنرل یحییٰ خان، جنرل عمر اور دوسرے جنرلوں کو ملک توڑنے کا مجرم ٹھہرایا جو بھٹو حکومت نے رپورٹ شائع نہ کر کے اور رپورٹ پر عملدرآمد نہ کر کے جمہوریت کو سخت نقصان پہنچایا جو بعد میں منتخب حکومتوں پر قبضے، آئین توڑنے اور جمہوریت کے خلاف سازشیں برپا کرتے نظر آئے، آخر کار جنرل مشرف پر سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی پر آئین شکنی کا مقدمہ غداری قائم ہوا جس میں ان پر فرد جرم عائد ہوئی توان کے پیٹی بھائی جنرلوں نے جنرل مشرف کو بیرون ملک بھگانے میں مدد کی جو آج تک پاکستان کی عدالتوں کا بھگوڑا اور اشتہاری مجرم ہے جو دوبئی کے خلیفوں کی دہلیزوں پر گرا ہوا ہے جس کے باوجود سپریم کورٹ کی تشکیل کردہ خصوصی عدالت جو ملک کے ہائیکورٹوں کے ججوں پر مشتمل تھی اس نے چیف جسٹس وقار سیٹھ کی سربراہی میں جنرل مشرف کو آئین توڑنے کی سزائے موت سنا دی جس پر جنرل مشرف کے دربانوں اور بلوانوں میں کہرام مچ گیا، جنہوں نے عدالتی فیصلے کو نہ مانا جس کی وجہ سے اعلیٰ خصوصی عدالتی فیصلہ ردی کی ٹوکری میں پڑا ہوا ہے حالانکہ آئین شکنی دنیا کا سنگین جرم سمجھا جاتا ہے، علاوہ ازیں چیف جسٹس افتخار چودھری کی عدالت نے پاکستان کے سابقہ چار جنرلوں کو لاہور گالف کورس میں اربوں کی کرپشن میں ملوث پایا جب انہیں عدالت میں طلب کیا گیا تو جنرل کیانی نے انہیں دوبارہ بحال کر کے مقدمہ فوجی عدالت میں لے جایا گیا، جس سے چاروں جنرل کرپشن کے مقدمے میں بچ گئے، ایڈمرل منصور الحق کو امریکی عدالت نے منی لانڈرنگ میں سزا دی تو پاکستانی حکام نے انہیں امریکہ سے واپس لے کر آزاد کر دیا، حال ہی میں جنرل نوید زمان اور جنرل سجاد غنی پر کرپشن کے مقدمات میں نیب نے پلی بارگین سے انہیں چھوڑ دیا ہے جس پر نیب نے کہا کہ مجوزہ جنرلوں پر کوئی کرپشن کا مقدمہ نہ تھا میڈیا جھوٹ بول رہا ہے، مزید برآں پاکستان کے قومی اداروں واپڈا، پی آئی اے، سٹیل ملز، این ڈی اے پر جنرل لگے ہوئے ہیں جس کے نیچے اربوں، کھربوں کی کرپشن ہورہی ہے مگر مذکورہ جنرلوں پر فرد جرم عائد کرنا بہت بڑا جرم ہے جو کرے گا اس کا حشر نواز شریف جیسا ہو گا، سب سے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان بنے جن کو ایک آزاد اور خودمختار خارجہ پالیسی پر قتل کر دیا گیا، شیخ مجیب الرحمن پر سازش کیس بنایا گیا کہ وہ غدار جو زمانے طالب علمی میں کلکتہ کی گلیوں اور کوچوں میں پاکستان کا جھنڈا لہراتا پھررہا تھا۔
شیخ مجیب کو ملکی عوام کے دبائو میں آ کر رہا کر دیا گیا آخر کار انہیں ملک توڑنے کے مقدمے میں گرفتار کر کے اس وقت تک نہ چھوڑا جب تک ملک دولخت نہ ہوا حالانکہ شیخ مجیب آخری دم تک ملک کو متحد رکھنا چاہتے تھے مگر ملک دشمن اشرافیہ نے ان کی ایک نہ سنی اور ملک ٹوٹ گیا، جنرل ایوب خان نے قائداعظم محمد علی جناح بانی پاکستان اور ملک کے پہلے گورنر جنرل کی ہمشیرہ فاطمہ جناح کو غدار اور بھارتی ایجنٹ قرار دیا جس پر پوری قوم سراپا احتجاج بن گئی مگر پاکستانی جنرلوں نے عوام کو گولیوں اور لاٹھیوں سے نوازا، فاطمہ جناح کے حامی اور اتحادی شیض مجیب الرحمن کے بعد ولی خان، غوث بخش بزنجو، خیر بخش مری، حبیب جالب، عطاء اللہ مینگل کو حیدر آبادسازش کیس میں ملک دشمن قرار دیا گیا جن کو بھٹو نے چھوڑنے کی کوشش کی تو جنرلوں نے منع کر دیا جب بھٹو کا تختہ الٹا گیا تو سب سے پہلے جنرل ضیاء الحق حیدر آباد جیل پہنچے جنہوں نے کل کے باغیوں کو آج کے محب وطن کا سرٹیفکیٹ دیتے ہوئے رہا کر دیا، جس کے بعد من گھڑت اور مفروضوں پر مبنی مقدمۂ قتل میں ان کی حکومت کا تختہ الٹنے والے جنرل ضیاء الحق نے انہیں پھانسی پر لٹکا دیا جس کا بعد میں ججوں نے رونا پیٹنا شروع کیا کہ ہم سے بزور طاقت فیصلے دلوائے گئے جس کو آج جوڈیشل قتل کا نام دیا گیا ہے ،وزیراعظم نواز شریف کو بار بار اقتدار سے ہٹایا اور مٹایا جارہا ہے جن پرنام نہاد مقدمات قائم کر کے فردجرم عائد ہورہی ہے جس میں بعض مقدمات پچاس سالہ پرانے ہیں جن کا کوئی ہاتھ نہ پیر ہے مگر اس خاندان سمیت رسوا کیا جارہا ہے۔
کبھی انہیں جلاوطن کیا جاتا ہے، کبھی پاناموں ،اقاموں کی آڑ میں جیلوں اور کچہریوں میں حالت بیماری میں رسوا کیا جاتا ہے قائداعظم کے پرانے ساتھی اور اتحادی اکبر بگٹی کو فوجی کیپٹن کے ہاتھوں ایک خاتون ڈاکٹر شازیہ کی عزت لوٹنے پر احتجاج کرنے پر پہاڑ کے نیچے دفن کر دیا گیا جن کی لاش کا آج تک اتاپتہ نہ چل سکا، بے نظیر بھٹو کو سامراجی معاہدوں پر عملدرآمد نہ کرنے پر قتل کر دیا گیا جن کا قصور نارتھ کوریا سے چوری چھپی میزائل ٹیکنالوجی پاکستان لانا تھا بہرحال مذکورہ سیاستدانوں اور جنرلوں کے فرد جرم میں تضاد کیوں پایا جاتا ہے جس پر عدالتیں بھی بے اختیار نظر آتی ہیں۔
جب کسی فوجی افسر پر کوئی مقدمہ بن جاتا ہے تو پوری اشرافیہ حرکت میں آجاتی ہے جو انتظامیہ، پارلیمنٹ اور عدلیہ کو روندھ دیتی ہے اپنے جنرلوں کو بزور طاقت بیرون ملک بھجوا دیتی ہے یہی وجوہات ہیں کہ پاکستان کے سابقہ آرمی چیف جنرل مشرف، جنرل کیانی، جنرل کرامت، جنرل پاشا، جنرل راحیل شریف اور دوسرے فوجی افسران غیر ملکوں میں آباد ہیں جنہوں نے تمام ملکی فوجی راز افشاں کر دئیے ہیں جبکہ پاکستان کے سیاستدانوں پر گزشتہ کئی دہائیوں سے مقدمات بنتے آرہے ہیں جنہیں قتل، پھانسی دی جاتی ہے یا پھر جیلوں میں قید رکھا جاتا ہے جو پھر بھی ملک چھوڑ کر باہر نہیں جاتے نہ ہی کسی سیاستدانوں کے ہاتھوں ملکی سلامتی کو خطرہ لاحق ہوا ہے جبکہ پاکستان کو جنرلوں نے لوٹا آج ملک دنیا میں تنہا کھڑا ہے۔
قصہ مختصر پاکستان کے سیاستدان تمام تر حالات اور مصائب کے جبر کے باوجود آج بھی سیاسی طور پر زندہ ہیں جو آج بھٹو اور نواز کی شکل میں نظر آرہے ہیں، جن کو جتنا دبایا گیا وہ اتنے ہی ابھر کر دوبارہ عوام میں ہر دل عزیز ہوئے ہیں جبکہ فوجی جنرلوں کا نام لینا گالی سمجھا جاتا ہے کہ آج بھی جنرل ایوب خان، جنرل یحییٰ خان، جنرل ضیاء الحق، جنرل مشرف اور جنرل باجوہ کو گالیاں پڑ رہی ہیں جنہوں نے جب کبھی بھی ڈمی انتخابات یا ریفرنڈم کرایا تو عوام نے انہیں بری طرح رد کر دیا ہے، سیاستدان جلا وطنی سے واپس آئے تو عوام نے لاکھوں کی تعداد میں گلے لگایا ہے، ان جنرلوں کو کوئی پوچھتا نہیں کہ یہ لوگ کہاں اور کن حالات میں رہتے ہیں جن کی قسمت ہے ذلت اور رسوائی لکھی ہوئی ہے جو جبر اور طاقت کے ذریعے اپنی حاکمیت منواتے ہیں مگر عوام میں بے عزتی اور بے حرمتی کا مقام رکھتے ہیں۔