ٹاک ٹاک ٹک ٹک

265

اگر آپ سمارٹ فون استعمال کرتے ہیں، چاہے آپ کسی بھی ملک سے تعلق رکھتے ہوں کسی بھی عمر کے ہوں، آپ کو Tik Tokکا ضرور پتہ ہو گا، یہ نام اتنی تیزی سے پھیلا ہے کہ آپ چاہے اسے استعمال کریں یا نہ کریں لیکن آپ نے سنا ضرور ہو گا۔
2016ء میں صرف چار سال پہلے یہ APPچائنا میں صرف چائنیز مارکیٹ کیلئے لانچ کی گئی تھی لیکن 2017ء میں یہی ایپ پوری دنیا کے لئے کھل گئی اور آئی فون پر بھی ریلیز کی گئی لیکن اصل میں یہ APPمشہور ہوئی جب اس کمپنی کا Musical .lyنامی ایک دوسری کمپنی کے ساتھ ملاپ ہوا، اگست 2018ء کو اب آپ اس کو استعمال کر کے کسی بھی گانے یا فلم کے ڈائیلاگ کی ویڈیو چلا کر اپنی ویڈیو اس آیڈیو کے ساتھ بنا کر ٹاک ٹاک پر شیئر کر سکتے ہیں Lip Singکر کے۔
TIK TOKبنانے والے چائنیز بزنس مین Zhang Yimingنے یہ اس لئے بنائی تھی کہ جو فارغ لوگ ہیں انہیں کوئی مشغلہ ہاتھ آجائے اور ان کے مطابق یہ کوئی سیریس چیز نہیں، بس تفریح کیلئے آپ کسی بھی پسندیدہ یا مشہور گانے پر اداکاری کر کے اپنے دوستوں وغیرہ کو دکھا سکتے ہیں۔
یہ ٹاک ٹاک صرف عام لوگوں تک محدود نہیں رہا بلکہ بڑے بڑے فلم اور ٹی وی آرٹسٹوں نے بھی اس مشغلے کو اپنایا، ایک منٹ کی ویڈیو دیکھنے میں بھی چھوٹی سی اور مزے کی بھی ہوتی ہے، بس پھر کیا تھا ایک سال کے اندر یہ APPبارہ بلین ڈالر کی کمپنی بن گئی۔
Tik Tokبارہ بلین کی کمپنی بن گئی، اس میں کوئی بڑی بات نہیں تھی، ایسی کئی کمپنیاں ہیں جو انٹرنیٹ پر آتے ہی کچھ ہی عرصے میں بلین ڈالرز کی کمپنیاں بن گئیں، جیسے Instagramاور وٹس ایپ لیکن ٹاک ٹاک میں خاص یہ ہوا کہ امریکہ میں بہت جلد اسے بند کیا جارہا ہے اور یہ پہلی ایسی مشہور Appہو گی جس کو کسی ادارے نے نہیں بلکہ اس ملک کے صدر نے بند کروایا۔
امریکہ میں پچھلے کئی ہفتوں سے جہاں کرونا وائرس کی خبریں عام ہیں وہیں ہیڈلائنز ’’ٹک ٹاک‘‘ بھی سنائی دے رہا ہے۔
صدر امریکہ نے کہا ہے کہ وہ45دن میں ٹک ٹاک کو ملک میں بند کر دیں گے، اگر مائیکرو سوفٹ کو اسے خریدنا ہے تو ان کے پاس صرف 45دن ہیں، کچھ مہینوں سے مختلف امریکن کمپنیاں ٹک ٹاک خریدنے کی کوشش کررہی ہیں جن میں مائیکرو سافٹ بھی شامل ہے، صدر ٹرمپ کا کہنا ہے کہ وہ یہ پابندی اس لئے لگارہے ہیں کیونکہ امریکہ میں سوال اٹھ رہا تھا کہ چائینز کمپنیاں اپنے سمارٹ فونز ایپ کے ذریعے لوگوں کو فون پر SPYکرتے ہیں اور جو لوگ بھی امریکہ میں ٹک ٹاک استعمال کرتے ہیں ان کو یہ کمپنیاں اپنی پسند کے امیدوار دکھاتی ہیں یعنی کہ وہ لوگ جو امریکن انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں ،ٹاک ٹاک صرف وہ ویڈیوز دکھاتے ہیں جو جوبائیڈن کیلئے انسپائر کرتی ہیں، یہ ٹرمپ کے حامیوں کا کہنا ہے اور یہ کہ ان سب کے پیچھے چائنیز گورنمنٹ شامل ہے، ٹک ٹاک والوں کا کہنا ہے کہ یہ صرف الزام تراشی ہے ہمارا کوئی تعلق کسی سے نہیں ہے اور ہمارے ساتھ جانبداری برتی جارہی ہے کیونکہ ہم چائنیز کمپنی ہیں اور اتنی تیزی سے آگے بڑھ گئے ہیں اس لئے امریکی حکومت کو یہ اچھا نہیں لگ رہا ہے اور وہ ہمارے ساتھ زیادتی کررہی ہے لیکن اگر اس معاملے کی جانچ پڑتال کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ اس کمپنی کے معاملات چائنیز حکومت کے لے کر کافی مشکل ہیں لیکن اگر چائنیز حکومت ایسی کوئی ڈیمانڈ کرتی ہے تو ٹک ٹاک کمپنی کو ہاں ہی کرنے پڑے گی کیونکہ وہ ہے تو چائنیز کمپنی اور چائنیز حکومت کا اپنی کمپنیوں پر خاصہ اثر اور دبائو ہے۔
کافی امریکنز ٹک ٹاک کا مقابلہ چائنیز کمپنی Huaweiسے بھی کرتے ہیں جوکہ دو سال پہلے امریکہ میں BANہو گئی تھی لیکن HUAWEIکے CEO، رین زین گفی چائینز آرمی میں رہ چکے تھے اور ان کی سوچ اپنی حکومت سے ہر قیمت پر وفاداری تھی جبکہ ٹک ٹاک کی ٹیم نئی جنریشن کی ہے جس کی سوچ کسی ایک حکومت کی مواقفقت میں نہیں بلکہ وہ ایک بین الاقوامی کمپنی بنانے کی کوشش میں ہیں جیسے کہ دوسری امریکن کمپنیاں۔
تاریخ بتاتی ہے کہ آپ کوئی بھی ہوں اگر کمپنی چائنیز ہے تو اسے ہر وہ چیز ماننی پڑے گی جو حکومت کہے گی، صدر ٹرمپ کئی چیزوں میں غلط ہو سکتے ہیں لیکن ٹاک ٹاک پر سو فیصد بھروسہ کرنا اس وقت صحیح نہیں ہو گا کیونکہ اگر یہ APPہر دوسرے فون پر امریکہ میں انسٹال ہیں اور چائنیز حکومت سچ مچ امریکنز کی سوچ پر اثر انداز ہورہی ہے تو پھر صدر ٹرمپ کے حساب سے اس کا بند ہو جانا ہی بہتر ہے۔