پاکستان کے تمام غیر مسلم جج انصاف کی پاسداری کرتے ہیں، ان میں جسٹس کارنیلئس کو ان سب پر فوقیت حاصل ہے، دیگر جج بھی تھے جنہوں نے انصاف نہیں بیچا، ضیاء الحق کے دور میں بھٹو کے دور میں عدالت کی گردن پر فوجی بوٹ آگیا، تب سے عدلیہ فوج کی تابع فرمان ہے، جسٹس نسیم نے ٹی وی کے ایک پروگرام میں اس بات کا اقرار کر لیا، انہوں نے کہا کہ اگر فوج کا کہا نہ مانتے تو ٹینک عدلیہ پر چڑھ دوڑتے، مولوی مشتاق نے جس طرح بھٹو کے مقدمے کی سماعت کے دوران فوج کے اشاروں پر رقص کیا اس سے فوج کو اندازہ ہو گیا کہ ان ججوں کے ضمیر اور ان کی بے خوفی کی اوقات کیا ہے، یوں بھی یہ جج پبلک سروس کمیشن کے امتحان پاس کر کے تو آتے نہیں، پریکٹس کی طوالت کی بنیاد پر ان کو جج تعینات کردیا جاتا ہے اور ان کی تقرریاں اور ترقی ویسے ہی ہوتی ہے جیسے عام حکومتی اداروں کے کلرکوں کی ہوتی ہیں، یہ سارے جج لوئر مڈل کلاس اور مڈل کلاس سے تعلق رکھتے ہیں اور یہ دونوں طبقے سدا کے غریب اور پسے ہوئے طبقے رہے ہیں جن کو اکثر روٹیوں کے لالے رہے، ان بدقسمتوں کو سفارش بھی میسر نہیں ہوتی اور رشوت دینے کی استطاعت کہاں، لہٰذا یہ اپنی قسمت ایل ایل بی کر کے آزماتے ہیں، ایسے نوجوان جو پہلے سکولوں سے پڑھ کر آتے ہیں شدید احساس کمتری کا شکار ہوتے ہیں، ان کے پاس کسی سینئر وکیل کے ساتھ INTERNSHIPکرنے کا وقت ہوتا ہے نہ ہمت اور نہ علمی صلاحیت، سو اکثر دیکھا گیا کہ یہ بی اے ایل ایل بی پاس کورٹ کے باہر کسی ٹوٹی ہوئی میز کرسی پر یا تو نوٹری پبلک کا کام کرتے ہیں یا کاغذات کی ATTESTATIONکرتے ہیں، جو مر کھپ کے انٹرشپ کر لیتے ہیں وہ ساری عمر چھوٹے چھوٹے مقدمات کی فیس پر گزارا کرتے ہیں، جب سے وکیل نما لوگ سیاسی جماعتوں کی رکنیت لینے لگے ہیں ان کو اپنی سیاسی وفاداری کا صلہ ملتا ہے، جج ارشد کی کہانی آپ کے سامنے ہے، ایسے حالات میں وکیلوں میں ضمیر نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی اور جب طویل سیاسی وفاداری کے سبب یہی جج بن جاتے ہیں تو قابل فروخت ہوتے ہیں، 42سالوں سے تیسری نسل اپنے ضمیر بیچنے کے لئے تیار رہتی ہے، یہ ڈرے سہمے ہوئے جج ملک کے تمام طاقتور لوگوں سے ڈرتے ہیں جن میں فوج، جاگیردار، بیوروکریٹ، مولوی، تاجر، غنڈے اور مافیاز ہیں، ملک کی تمام بار کونسل سیاسی جماعتوں کے زیر اثر ہوتی ہیں، ان کی وجہ سے ملک میں وکیل گردی کا آغاز ہو گیا ہے، ان حالات میں عدلیہ سے کوئی امید نہ رکھی جائے۔
اس وقت ملک میں سب سے بڑا جرم توہین رسالت ہے اور اس کا متعلقہ قانون بہت کمزور ہے، یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ علاقے کا مولوی کسی پر توہین رسالت کا الزام لگائے اور پولیس سٹیشن میں مولوی سے کہا جائے کہ ایف آئی آر درج کرتے ہیں اور اس کی تفتیش کی جائے گی، پولیس کی تفتیش وہی ہو گی جو علاقے کا مولوی اور دینی جماعت کہے گی، یہ ممکن ہے کہ انکار پر پولیس منشی کو ہی مار دیا جائے، پشاور میں BLASPHEMYکا ایک مقدمہ دیر سے عدالت میں چل رہا تھا،ایک قادیانی پر الزام تھا کہ وہ توہین رسالت کا مرتکب ہوا ہے، میں عرض کر چکا ہوں کہ عدلیہ اور پولیس کی یہ جرأت نہیں کہ وہ کسی قادیانی کو ثبوت نہ ہونے کی بنا پر چھوڑ دے، قرائن بناتے ہیں کہ پولیس عدالت میں مناسب شہادتیں فراہم کرنے میں ناکام رہی اور لگتا تھا کہ عدالت اس کو بے گناہ مان لے، مگر پھر بھی عدالت لیت و لعل سے کام لیتی رہی، اور جب یہ محسوس ہوا کہ پولیس مناسب اور قابل قبول شہادتیں پیش کرنے میں ناکام ہے تو عدالت میں ہی ایک نوجوان نے اس شخص کو گولی مار دی، یہ عین اس وقت ہوا جب عدالت مقدمہ سن رہی تھی جبکہ مقتول بنچ پر پڑا تھا اس وقت قاتل پشتو میں اپنے خواب کا تذکرہ کررہا تھا، یہ بھی کہا جارہا ہے کہ خالد نے عدالت کے کمرے میں آنے سے پہلے اپنا حلیہ تبدیل کیا تھا۔
اب بہت سے سوال سامنے آرہے ہیں، سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ کیا مقتول کو قتل کرنے کی کوئی پہلے سے منصوبہ بندی کر لی گئی تھی؟بادی النظر میں لگتا یہی ہے کہ معقول کیلئے منصوبہ بندی کی گئی تھی اور منصوبے کے تحت ہی مقتول کو عدالت میں گولی ماری گئی، یہ معمول کی کارروائی ہے کہ کمرہ عدالت میں جانے سے قبل تمام لوگوں کی جن کو عدالت کی کارروائی دیکھنے کی اجازت دی جاتی ہے ان کو باقاعدہ تلاشی بھی لی جاتی ہے، کمرہ عدالت میں کوئی آتشیں اسلحہ لے جانے کی اجازت نہیں دی جاتی اور نہ ہی کوئی تیز دھار آلہ، خنجر یا چاقو لے جانے کی اجازت ہے تو قاتل جس کا نام خالد بتایا جارہا ہے اس کو گن لے جانے کی اجازت کیسے دے دی گئی؟ کیا پولیس اور عدالت کے اہل کار بھی اس منصوبے کا حصہ تھے؟ اگر ایسا ہے تو بھی اس پرحیرت کیسی، آسیہ مسیح پر بھی توہین رسالت کا جھوٹا الزام تھا، چونکہ وہ عیسائی تھی اور یورپی ممالک اس مقدمے کی کارروائی کوبہت غور سے دیکھ رہے تھے اس لئے آسیہ مسیح کو قتل کرنا آسان نہ تھا اور اسی وجہ سے آسیہ کا بیرون ملک جانا بھی ممکن ہو سکا مگر قادیانیوں کی مدد کو کوئی ملک نہیں آرہا سو اس کوقتل کر دینا آسان ہے،
اس کے کچھ سیاسی مضمرات بھی ہیں چونکہ دینی حلقے، دینی جماعتیں اور مدرسے فوجی قیادت سے بہت قریب ہیں لہٰذا ان کو کچھ بھی کرنے کی کھلی آزادی ہے، یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ مولوی جرم کر کے بچا لئے جاتے ہیں اور عدالتیں اور پولیس ان کا کچھ بھی بگاڑ نہیں سکتیں، مفتی قوی کو سزا نہ مل سکی حالانکہ قندیل قتل کیس میں وہ نامزد تھا اس قاری کا کسی نے کیا بگاڑ لیا جس نے قرآن کے صفحات پھاڑ کر کچرے میں ڈالے تھے، مفتی کفایت ان کو چھڑا کر لے گیا جن پر زنا باالجبر کا الزام تھا، امکان یہ بھی ہے کہ عوام کو مولویوں سے خوف زدہ رکھنے کے لئے کچھ نادیدہ ہاتھ کسی قادیانی کا قتل کراتے ہیں اور مولویوں کو موقع دیتے ہیں کہ وہ اپنی طاقت کا مظاہرہ کریں اور لوگ ان کی طاقت سے خوف زدہ ہو جائیں، اس کے علاوہ یہ اندرون خانہ ایک خفیہ کوشش ہے کہ پاکستان کو FATFکی گرے لسٹ سے نہ نکالائے۔