ساری دنیا جان لیوا بیماری ’’کورونا‘‘ سے بچائو کی دوا کی تیاری کی تگ و دو کررہی ہے اور پاکستان میں علیہ السلام اور رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بحث جاری ہے، ہم کیا قوم ہیں؟
امریکہ، برطانیہ،جرمنی، فرانس، چین، روس غرض کہ دنیا بھر کے ممالک اعلانیہ اور خفیہ طریقوں سے لاکھوں انسانوں کو موت کے گھاٹ اتارنے والی وبا ’’کورونا‘‘ یا کووڈ 19سے بچائو کیلئے ویکسین کی تیاری میں رات دن مصروف ہیں، ریسرچ لیبارٹریز اور ہاسپٹلز جان توڑ کوششوں میں لگے ہوئے ہیں کہ جلد از جلد اس مہلک اور جان لیوا بیماری پر قابو کرنے والی دوا تیار کر کے انسانوں کو مزید موت کے منہ میں جانے سے بچایا جا سکے، فارماسٹیکل کمپنیاں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کے لئے اس دوا کی جلد از جلد دستیابی کی جان توڑ کوششیں کررہی ہیں لیکن ذرا سوچئے ایک ایسے پرآشوب ماحول میں جب مسلمان خوف کے مارے مساجد میں نماز ادا نہیں کر پارہے ہیں، عید اور بقر عید کے اجتماعات منسوخ کر دئیے گئے ہیں، حج اور عمرے کے مناسک کو موخر کر دیا گیا ہے، ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو اس بحث میں الجھا ہوا ہے اور ملک میں مذہبی تفرقہ بازی کو ہوا دینے کیلئے کوشاں ہے کہ کس کے نام کیساتھ علیہ السلام لکھا جانا اور کس کے ساتھ نہیں اور کس کے نام کیساتھ رضی اللہ تعالیٰ عنہ لکھا جانا چاہیے اور کس کے ساتھ نہیں، گزشتہ ہفتے پنجاب اسمبلی نے ایک بل ’’تحفظ بنیاد اسلام‘‘ کے نام سے پاس کیا ہے جس میں پاکستان کے تمام مسلمانوں کیلئے بلا تفریق فرقہ اور فقیہہ یہ لازم قرار دیا گیا ہے کہ وہ اسلام کی کن ہستیوں کے ناموں کے ساتھ رضی اللہ تعالیٰ عنہ لکھیں گے اور کس کے ساتھ علیہ السلام لکھیں گے، اس متنازعہ بل کے مندرجات اور شقوں سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اس کا ڈرافٹ کسی تکفیری نے اہل تشیع کو ٹارگٹ بناتے ہوئے تیار کیا ہے یعنی یہ بل حُبِ علی ؑ میں نہیں بلکہ بغض معاویہ کے تحت تیار کیا گیا ہے۔ جب انجمن وحدت مسلمین کے اکابرین نے پنجاب اسمبلی کے سپیکر پرویز الٰہی اور وزیر اطلاعات راجہ بشارت سے رابطہ قائم کر کے یہ بات واضح کی کہ اس بل کے متنازعہ حصوںاور شقوں کے باعث فقہ جعفریہ کے لوگوں کیساتھ ناانصافی ہو گی اور فرقہ واریت کو ہوا ملے گی تو دونوں حضرات نے اس سے اپنی لاعلمی اور کم آگہی کا اظہار کرتے ہوئے ایک کمیٹی بنانے کا اعلان کیا، سوال یہ ہے کہ اس قسم کی جبری پابندیوں کے اطلاق سے کیا وہ ہدف حاصل ہو جائیں گے جو ایک تکفیری حلقے کے دماغ میں ہیں؟ پاکستان کا آئین ہر گز اس بات کی اجازت نہیں دیتا، آئین کی شق نمبر 227اس قانون سے براہ راست متصادم ہے جس کے مطابق دین کو ہر فرقے اور مسلک کے مطابق تشریح کرنے کی آزادی حاصل ہے، مثال کے طور پر اہل تشیع تو کبھی بھی اس بات پر تیار نہیں ہوں گے کہ معاویہ کے نام کے ساتھ علیہ السلام یا رضی اللہ تعالیٰ عنہ لکھیں یا کہیں، جس نے امام علی ؑ کے ساتھ جنگ کی اور جس کے بیٹے یزید نے نبی کے نواسے امام حسین ؑ کیساتھ جنگ کر کے دین اسلام کو داغدار کیا کیونکہ یہ بالکل ایسا ہی ہے کہ آپ قاتل اور مقتول یا حق اور باطل دونوں کو عزت سے نوازیں چاہے وہ بھلے مسلمان ہوں یا صحابی ہوں، اس کسوٹی کے مطابق تو ابولہب اور ابوجہل کے ناموں کے ساتھ بھی علیہ السلام یا رضی اللہ تعالیٰ عنہ لکھا جانے چاہیے، زور و جبر سے آپ آج کے دور میں تاریخ کو بدل نہیں سکتے، مسئلہ یہ ہے کہ ہم دین اسلام اور تاریخ اسلام کو آپس میں گڈمڈ کر دیتے ہیں جس میں سب سے بڑا ہاتھ اس جاہل ملا کا ہے جو ہرجمعہ کے اجتماع میں عوام الناس کے ذہنوں میں یہ نفرتوں کے بیج بوتا ہے اور یہ بات ہر مسلک کیلئے دوست ہے، ہماری بیٹی نے ایک دفعہ پوچھا کہ ڈیڈی میں ایک ٹاٹو بنوانا چاہتی ہوں ہم نے کہا کہ ٹھیک ہے مگر ہمارا خیال کہ شاید دین اس کی اجازت نہیں دیتا، وہ خاموش ہو گئی، کچھ دنوں بعد اس نے ایک ای میل ہمیں فاورڈ کی جو ایران کے راجع آیت اللہ سیستانی کی تھی جس میں انہوں نے اسے جوابی ای میل میں لکھا تھا کہ اگر کوئی انسان یا جانور کی یا مافوق الفطرت قسم کی شبیہ نہ ہو تو ٹاٹو بنوایا جا سکتا ہے، ویسے اس نے بنوایا نہیں، یہاں کہنے کا مقصد یہ ہے کہ دنیا کے سامنے معلومات کا ایک وسیع سمندر انٹرنیٹ کی صورت میں انسانوں کے ہاتھوں کی ہتھیلی میں موجود ہے( آئی فون) انسان لمحے بھر میں ہر چیز معلوم کر سکتا ہے توایسے میں پنجاب اسمبلی کی طرف سے منظور کئے جانے والے ’’تحفظ بنیاد اسلام‘ کے بل کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے، دنیا بھر میں تاریخ بمعہ اسلامی تاریخ کے نیٹ پر موجود ہے جو چاہے جا کر دیکھ اور پڑھ سکتا ہے، آج کل کی نسل خاص طور پر مغرب میں پیدا ہونے والی نسل تو قرآن بھی انگلش میں پڑھتی ہے، اس لئے زبان کا بھی کوئی مسئلہ نہیں ہے، یوں بھی اب گوگل ٹرانسلیٹ نے تو تمام تر زبانوں کی رکاوٹیں دور کر دی ہیں، آج کی نسل صرف والدین کے کہنے پر مذہب اسلام یا اس کے کسی مسلک پر کاربند نہیں ہوتی بلکہ وہ خود گوگل کر کے ہر بات کی تصدیق کرتی ہے لہٰذا پنجاب اسمبلی اس مغالطے میں ہر گز نہ رہے کہ وہ ایک بل کے ذریعے نسلوں کے ذہن تبدیل کر دے گی، حقائق کو جانچنے اور انہیں پرکھنے کی بے شمار طریقے آج کے ماڈرن ورلڈ میں موجود ہیں، کاش کہ پنجاب اسمبلی ایک ایسا بل پاس کرتی جس کے مطابق جو بھی سب سے پہلے کرونا کا علاج دریافت کرے گا اسے ایک ملین ڈالر انعام دیا جائے گا مگر ہم تو اس قسم کی باتوں میں آج بھی الجھے ہوئے ہیں کہ نماز ہاتھ سینے پر رکھ کر پڑھی جائے یا پیٹ پر باندھ کر پڑھی جائے یا ہاتھ کھول کر پڑھی جائے؟ واہ ہم بھی کیا قوم ہیں!