ہم زمانے سے اپنی تحریروں میں پاکستان میں آزادی صحافت اور ا ٓزادی اظہار کی دگرگوں حالت پر لکھتے رہے ہیں۔ بد قسمتی سے یہ حالت زبوں سے زبوں تر ہوتی جارہی ہے۔
اس کی تاززہ ترین مثال اسلام آباد میں ممتاز صحافی مطیع اللہ جان کو دن دہاڑے اغوا کر لیا گیا۔ اس واقعہ کی ایک ویڈیوبھی منظر عام پر آئی ہے۔
اس ویڈیو میں واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے کہ اغوا کرنے والے کم از کم اپنے لباس کے اعتبار سے قانون نافذ کرنے والے یا سکیورٹی اداروں سے تعلق رکھتے ہیں۔ صحافی کو بالجبر ایک اسکول کے سامنے جہاں ان کی زوجہ پڑھاتی ہیں، ان کی گاڑی سے گھسیٹ کر نکالا جاتا ہے۔ اس دوران وہ اپنا فون اچھال کر اسکول میں پھینک دیتے ہیں۔ فوراً ہی ایک وردی پوش اہلکار اسکول کے پھاٹک سے وہ فون دیکھتا اور مانگتا نظر آتا ہے۔ ایک خاتون یہ فون اس کے حوالے کر دیتی ہیں۔ پھر تین گاڑیاں صحافی کو اپنے ساتھ لے جاتی دکھائی دیتی ہیں۔ جن کے پیچھے ہی ایک پولس وین بھی نظر آتی ہے۔ آپ اس ویڈیو کو اس لنک پر دیکھ سکتے ہیں، بشرطیکہ یہ ہٹا نہ دیا گیا ہو۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ، پاکستان کے اربابِ اقتدار اغوا کی ایسی کاروائیوں میں ملوث ہونے سے انکار کرتے رہے ہیں۔ بعض دفعہ اعلیٰ عدالتوں کی شنوائی کے دوران ان کاروائیو ں کے شکار افراد کو پر اسرار طور پر رہا کریا جاتا ہے۔ اب سے دو سال قبل پاکستان میں افواجِ پاکستان کے ادارے آئی ایس پی آر کے جنرل آصف غفور نے ایک پریس کانفرنس میں ان صحافیوں کی تصاویر دکھائیں تھی جو ان کے نزدیک وطن دشمنی میں ملوث تھے۔ گویا ان کے نزدیک صحافت میں حکومتی اداروں پر تنقید کرنے والے وطن دشمن ہوتے ہیں۔ ان کی اس پریس کانفرنس میں آج اغوا ہونے والے صحافی مطیع اللہ جان کی تصویر بھی شامل تھی۔ اس سے پہلے ان کی گاڑی ہر حملہ بھی کیا گیاتھا۔
آج اس اغوا کے بعد ہر حکومتی ادارے نے اس سے لاتعلقی کا اظہار کیا۔ پاکستان کے وزیرِ داخلہ نے جو ISI اور Intelligence Bureau کے سابقہ اعلیٰ عہدیدار بھی ہیں، فوراً ہی بیان دیا ہے کہ ہمیں اس بارے میں کچھ نہیں معلوم ہے۔ واضح رہے کہ عمران خان کی حکومت میںکئی عہدے داروں کا تعلق فوج یا سابقہ فوجی حکومتوں سے ہے۔ اب آپ دو جمع دو خود کر لیں۔
یہاں یہ بھی واضح رہے کہ پاکستان کی سپریم کورٹ نے صحافی مطیع اللہ جان کو کل توہین ِ عدالت کے الزام میں طلب کر رکھا ہے۔ لیکن اب انہیں اغوا کر لیا گیا ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے بھی کل قانون نافذکرنے والے اداروں کے عہدیداروں کو اس اغوا کی جوابدہی کے لیئے فوری طلب کیا ہے۔
پاکستان میں شہریوں کو پر اسرار طور پر اغوا کیے جانا عام ہے۔ سالہا سال سے بلوچستان اور دیگر صوبوں میں ہزاروں افراد پر اسرار طور پر اغوا کئےجاتے رہے ہیں ۔ بعض دفعہ عدالتوں کے حکم پر سرکاری اہلکار ان میں سے کچھ کو الزامات کے تحت پیش کرکے ان کی گمشدگی کا اقرار کر لیتے ہیں۔ بلوچستان اور بعض دیگر علاقوں میں اکثر اغوا شدہ لوگوں کی مسخ لاشیں ملتی ہیں۔ جن پر تشدد کے نشانات واضح ہوتے ہیں۔ یہاں یہ کہنے میں کوئی ہرج نہیں ہے کہ آمرانہ ممالک میں حکومتی نقطئہ نظر سے اختلاف یا انحراف کرنے والے ممالک میں یہ وارداتیں ان کے نظام کا حصہ ہیں۔ ان میں بعض لاطینی ممالک سرِ فہرست رہے ہیں۔ جہاں آج بھی سالہا سال تک مایئں اپنے بچوں کو ڈھونڈتی فریا د کرتی ہیں۔ ہمارے بلوچستان میں بھی یہ ظلم سالوں سے جاری ہے۔
کینیڈا میں ہمارے عزیز ، ممتاز شاعر ، اور انسانی حقوق کے عمل بیباک عمل پرست بھی تقریباً تین سال پہلے اغوا کا شکار ہوئے تھے۔ ان کے ساتھ اور بھی نوجوان عمل پرست اغواکئے گئے تھے۔ سلمان حیدر پر اسرار طور پر رہا ہونے کے بعد ترکِ وطن کے نتیجہ میں کینیڈا آگئے تھے۔ انہوں نے اس سلسلہ میں اپنے ساتھ کئےجانے اور جسمانی تشدد کے بارے میں بتایا ہوا ہے۔ وہ اس قسم کے واقعات کا ذمہ دار پاکستانی فوج کے ادارے ISI ہی کو قرار دیتے ہیں۔ لاپتہ افراد کا نشان بعد میں یو ں نہیں ملتا کہ ظلم کرنے والے خود کو چھپا کر رکھنا چاہتے ہیں۔وہ نہیں چاہتے کہ کوئی بھی رہا ہو کر ان کے بارے میں بات بھی کرے۔
پاکستان میں اظہارِ رائے او ر صحافت کے کارکنوں کے خلاف ظلم کی کہانی دنیا بھر کے انسانی حقوق کے ہر ادارے میں موجود ہے۔ آزادی اظہار کے ہر اشاریہ میں پاکستان ہمیشہ نچلے ترین درجوں پر رہتا ہے۔ ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ پاکستان میں اور ساری دنیا میں آزادی اظہار اور صحافت کی حمایت کے لئے ہر آن مستعد رہیں اور اس ظلم کے خلاف آواز اٹھاتے رہیں۔ ظالم ہمیں بہ ہر طور خاموش دیکھنا چاہتے ہیں اور اس کے لیے جوہتھکنڈے وہ استعما ل کرتے ہیں، ان کا احاطہ شاید یہ شعرکرے:
حصارِ ظلم میں اگر نوا کوئی نئی اٹھی
صلیب و دار پر بدن سجاسجا دیئے گئے۔
Prev Post