شوباز شریف جب آپ تقریریں جھاڑتے ہیں، گانا گاتے ہیں، مائیک پھینک دیتے ہیں اس وقت آپ کسی سرکس کے جوکر سے کم نہیں لگتے اور جب عمران خان کے نام کے آگے چب چب کر کے نیازی کا دم چھلا باندھتے ہیں تو اور بھی مضحکہ خیز لگتے ہیں، آپ کی اطلاع کے لئے عرض ہے آپ جس جنرل سے عمران کا شجرہ جوڑنے کی کوشش فرماتے ہیں عمران خان کا اس سے دور کا بھی تعلق نہیں، لیفٹیننٹ جنرل امیر اللہ نیازی کا تعلق نیازی قبیلے سے تھا ، ان کے اجداد بہادری میں لاثانی تھے، سہراب نیازی کا تعلق ان کے قبیلے سے تھا، سہراب نیازی امیر اللہ نیازی کے اجداد میں سے تھے جنہوں نے بہت کم نفری کے ساتھ رنجیت سنگھ کی فوجوں سے ٹکر لی تھی وہ بڑی بہادری سے مقابلہ کرتے ہوئے شہید ہوئے، اسی طرح جنرل نیازی کے سینے پر بھی بہادری کے تقریباً 20تمغے جگمگارہے تھے۔
مشرقی پاکستان کے حالات خراب سے خراب تر ہوتے جارہے تھے، پہلے جنرل ٹکہ خان نے حالات کو سختی سے سنبھالنے کی کوشش کی لیکن انہیں ناکامی ہوئی، پھر جنرل اعظم کو مشرق پاکستان بھیجا گیا وہ ایک بردبار قسم کے جنرل تھے، نرم خو تھے، ان میں ٹکہ خان جیسی سختی نہیں تھی، کسی حد تک انہوں نے حالات پر قابو پا لیا تھا لوگ انہیں پسند کرنے لگے تھے، مگر ان کی یہ مقبولیت ارباب اختیار کو ایک آنکھ نہ بنائی اورانہیں واپسی کا پروانہ مل گیا، کوئی جنرل بھی وہاں جانے کے لئے راضی نہ تھا، جنرل نیازی کو ٹائیگر نیازی بھی کہا جاتا تھا، سرحدوں پر بھارتی فوج قابض تھی اندرونی حالات مکتی باہنی نے خراب کر دئیے تھے، پاکستانی فوج پر حملے ہورہے تھے، نفری کم تھی انہیں بھی رسد نہیں پہنچ رہی تھی، فرید پور پر حملے میں کل چالیس بھوکے پیاسے پاکستانی فوجی تھے جنہوں نے 400فوجیوں کو پسپا کیا تھا، جنرل نیازی نے مزید فوجی بھیجنے کی درخواست حکومت سے کی تھی چونکہ انہیں 8پلاٹون کی بجائے پانچ پلاٹون کی کمان ہی ملی تھی، یہاں سے کمک وہا ں نہیں بھیجی گئی، 90ہزار فوجی مولی گاجر کی طرح کاٹ دئیے جاتے پھر جنرل نیازی کو یہ بھی دھمکی دی گئی کہ اگرنہوں نے ہتھیار نہ ڈالے تو انکے پورے خاندان کو ختم کر دیا جائے گا۔ 90ہزار فوجیوں کو جو نرغے میںپھنس چکے تھے بچانا تھا اور پھر سقوط ڈھاکہ کا سانحہ پیش آیا جس کی کسک آج تک پاکستانیوں دلوں سے نہیں جا سکی، جنرل نیازی نے ہتھیار ڈال کر اپنے فوجیوں کو بچایا وہ بعد میں پاکستان آگئے، ذرا سوچئے اس بہادر جنرل نے کتنی تکلیف دہ صورت حال میں یہ شکست قبول کی ہو گی، وہ بھی قید ہوئے، بعد میں بھٹو کی حکومت آئی تو بھٹو نے نہ صرف ان کی عہدے پر تنزلی کر دی بلکہ وہ تمام اعزازات بھی ان سے چھین لئے گئے انہیں پنشن سے بھی محروم کر دیا گیا، ان تمام رسوائیوں کا تمغہ ایک بہادر جنرل جسے ٹائیگر نیازی کے نام سے پکارا جا تا تھا کس کسمپرسی میں بقیہ زندگی گزاری ہو گی؟ جنہیں صحیح صورت حال کا علم ہے وہ ان کی اذیت کو سمجھ سکتے ہیں، انتقال کے بعد وہ میانوالی میں دفن ہوئے، عمران خان سے ان کا کوئی رشتہ نہیں لیکن اگر ہوتا تو یہ بھی ایک فخر کی بات تھی ،جنرل نیازی ایک بہادر سپاہی تھا، حالات نے اُسے پسپائی پر مجبور کیا، قوم کو اس بہادر فوجی کی خدمات کو ضرور یاد رکھنا چاہیے۔کسی بھی جنگ کاانجام ایک شکست ایک فتح ہوتا ہے، بڑے بڑے سکندر بھی اس امتحان سے گزرے ہیں اور یہ کہنا درست ہے
گرتے ہیں شہسوار ہی میدان جنگ میں
وہ طفل کیا گرے جو گھٹنوں کے بل چلے!
جنرل نیازی کی ایک ہار پر اس کے بے شمار کارناموں پر پردہ نہیں ڈالا جا سکتا اور اگر اس سے کسی کا رشتہ جوڑا جائے تو یہ قابل فخر ہی ہو گا۔ عوام کو اچھی طرح پتہ ہے کہ یہ چور ڈاکو کیوں چب چب کر کے عمران خان کی اس سے رشتہ داری جوڑتے ہیں، جنرل صاحب پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے، خود ان کی اپنی تحریر بھی اس بارے میں موجود ہے کہ انہوں نے ہتھیار کیوں ڈالے؟ تاریخ پر نظر ڈالئے پھر زہر اگلئے، آپ تو پورے کے پورے غلاطت کے دلدل میں دھنسے ہوئے ہیں آپ کسی پر کیا کیچڑ اچھال لیں گے۔دوسروں کی آنکھوں میں تنکا تلاش کرنے والوں اپنی آنکھوں کے شہتیر پر نظر رکھو۔
قابل احترام اور قابل صد ستائش ہیں وہ لوگ جو دیار غیر میں رہتے ہوئے اپنے کلچر کو نہیں بھولے اور اسے فروغ دینا چاہتے ہیں، اس میں ایک نمایاں نام طاہرہ انور صاحبہ کا ہے، وہ 1967ء میں امریکہ آئی تھیں اور اردو زبان کو زندہ رکھنے پر کمربستہ ہو گئیں، hawaii university میں کلچر کی کلاسیں لیں۔ اس کے بعد وہ میری لینڈ منتقل ہو گئیں، اپنے کاروباری سلسلے سے فراغت ملی تو ان کی دور بین نگاہوں نے اور دانشمندانہ سوچ نے انہیں اس طرف متوجہ کیا کہ یہاں پر جو پاکستانی بچے ہیں وہ اردو سے بالکل نابلد ہیں، انہیں اس بات کا بخوبی ادراک تھا کہ بچوں کو اپنی مادری زبان سے بے بہرہ نہ رکھا جائے کیونکہ مادری زبان کو پڑھے بغیر اور رسم الخط سے ناواقفیت کی وجہ سے وہ اپنے کلچر کو سمجھنے سے قاصر رہیں گے، طاہرہ انور صاحبہ نے اپنے چاہنے والوں کے بچوں کو اور خود اپنے بچوں کی اولادوں سے اردو پڑھانے کی شروعات کی،یہاں پر کوئی اردو کا قاعدہ نہیں تھا سو انہیں اپنے خرچ سے ہی اردو کی پہلی کتاب کے نام سے بچوں کا قاعدہ چھپوایا جو بہت مقبول ہوا جو Amazon siteپر دستیاب ہے، ایک حرف سے وابستہ کئی چیزیں تخلیق کیں، مثلاً اگر حرف ’’ا‘‘ لکھا ہے تو اس سے کتنی چیزوں کے نام آسکتے ہیں مثلاً آم، انار، انگور وغیرہ تصویروں کے ذریعہ بچے حرف کو بھی پہچان لیتے اور پھلوں کے نام سے انہیں جلد سبق بھی یاد ہو جاتا ہے۔
اس کے علاوہ انہوں نے Argle middle schoolمیں رضا کارانہ طور پر بچوں کا اردو پڑھانا شروع کر دی، اس کے علاوہ cedar lane elementary school میں اردو کی کلاسوں کا آغاز کیا، طاہرہ انور صاحبہ نے ایک Non profitجس کا نام Urdu Academy of Maryland رکھا اس کی ویب سائٹ uamd.orgہے۔ “Language is the road map of culture. It tells you where its people come from and where they are going.”(Rita Mae Brown)
بچوں کو دلچسپ طریقے سے اردو میں پڑھایا جاتا ہے اور فلیش کارڈز، پوسٹر سے بھی وضاحت کی گئی ہے، ان پر کافی ریسرچ کی گئی ہے، ان کے شائع کرنے سے پہلے انہیں بچوں کی دلچسپی اور کھیل کھیل میں پڑھانے کا طریقہ وضع کیا گیا جو بچے کے ذہن پر بوجھ نہیں بنتا، امید ہے والدین اپنے بچوں کو اردو پڑھانے میں دلچسپی لیں گے کیونکہ ہر انسان کا ایک ملک اور ایک مادری زبان ہوتی ہے وہی اس کا سرمایہ اور تشخص ہے