اے فار ایپل

327

دنیا جب سے شروع ہوئی اور جب سے پہیہ گھوما اس وقت سے انسان ترقی پر ترقی کررہا ہے، جب گول پہیہ بن گیا تو لگا اس سے بڑی ایجاد نہیں ہو سکتی اس پہیے کے سہارے انسان نے دنیا فتح کی اور ان گنت ایسی چیزیں بنائیں جن سے زندگی آسان سے آسان تر ہوتی گئی، زندگی کا پہیہ تیز اور تیز گھومتا تھا۔

پہلے جہاں چھ مہینے براعظم کے ایک کونے سے دوسرے کونے جانے میں لگ جاتے تھے وہیں اب انسان پانی کے جہاز میں یہ چکر پندرہ دن میں مکمل کر لیتا ، صرف اپنے ہی نہیں بلکہ اب انسان دنیا کے کسی بھی کانٹی نینٹ میں تیس چالیس دن کا سفر کر کے پہنچ جاتا، پھر پہیے میں انجن لگا، سڑکوں پر گاڑیاں آگئیں اور ہوا میں جہاز، انسان جو ترقی سو سال میں کرتا وہ سال بھر میں ہو گئی، پھر بجلی آئی اور اپنے ساتھ کمال کی چیزیں لائی، ریڈیو، ٹی وی اور پھر آیا انٹرنیٹ ،انٹرنیٹ سے تو ہمیں انسان کو وہ پاور مل گیا جس کے متعلق انسان کبھی سوچ بھی نہیں سکتا تھا، دنیا میں آج سے پہلے کوئی جنریشن نہیں گزری جس کے پاس ایسی Deviceہو جس کے ذریعے پوری دنیا جڑی ہوئی ہو، آج کچھ بھی معلوم کرنا ہو بس ’’گوگل‘‘ کریں اور جواب حاضر، کوئی بھی خبر دنیا کی بس ایک کلک دور، جہاں پہلے کوئی بھی خبر آپ تک دنوں میں پہنچتی تھی آج دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک لمحوں میں پہنچ جاتی ہے، اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انسان اتنی تیزی سے آگے کیسے بڑھا؟؟ یعنی کہ جہاں بجلی آنے میں کئی سو سال لگ گئے وہیں انسان نے صرف پچھلے سو سال کے اندر اتنی زیادہ ترقی کر لی تو وہ کیسے؟؟تو اس کا جواب ’’A for Apple‘‘جی وہی ’’اے فار ایپل ‘‘جو ہم سکول میں جا کر سب سے پہلے سیکھتے ہیں۔

امریکہ میں سکولنگ (Schooling)شروع ہوئی جب ابھی یہ تیرہ اوریجنل کالونیز ہی تھیں، سال تھا 1635ء سکول کا نام تھا Boston Latin Schoolپہلے لوگ اپنے بچوں کو اپنے حساب سے پڑھاتے تھے لیکن یہ سکول پہلا پبلک سکول تھا یہاں صرف انگریزی سکھائی پڑھائی ہوتی اور Mathsپڑھاتے تھے، Massachusettsبے کالونی پہلی وہ کالونی تھی امریکہ میں جس نے 1642میں بنیادی تعلیم کو بچوں کیلئے لازمی کر دیا۔

لیکن یہ صرف لڑکوں کیلئے تھا، لڑکیوں کیلئے اس وقت کوئی سکول نہیں تھا، انقلاب کے بعدامریکہ میں ہر ریاست میں پبلک سکول کھلنے لگے لیکن ان کے معیار مختلف تھے، یہ سلسلہ عرصے تک جاری رہا، لوگوں کو اچھا لگنے لگا کہ ان کے بچے سکول جائیں کیونکہ جو بچے سکول جاتے تھے وہ ان سے بہتر ثابت ہورہے تھے کہ جو سکول نہیں جاتے تھے وہ بہتر مستقبل اور بہتر پرسنالٹی پر کام کررہے تھے، لوگوں میں Schoolingکا شعور بڑھتا گیا اور ہر ریاست اپنی سمجھ اور ضرورت کے حساب سے سکول کھولتی گئی۔

ماڈرن سکولنگ جس شکل میں آپ کے سامنے ہے اس کو متعارف کروانے کا سہرا جاتا ہے Horace Maunjooکو جنہیں 1837میں سیکرٹری ایجوکیشن بنایا گیا تھا Massachusehsمیں وہی یہ منصوبہ سامنے لائے کہ تمام ٹیچرز کو سکول میں پڑھانے کیلئے ایک ہی طریقہ کار پر ٹرینڈ کیا جائے گا، ہر کلاس کیلئے ایک ترتیب شدہ نصاب ہو گا جس کا اطلاق ہر سکول میں ہو گا اور بچوں میں گریڈنگ سسٹم ہو گا۔

Maunکا یہ منصوبہ بہت ہی کامیاب رہا اور بہت جلد دوسری ریاستوں کے سکولوں نے بھی اسی نظام کو اپنانا شروع کر دیا اور 1918ء میں ہی امریکہ کے سکولوں میں حاضری کا طریقہ کار بھی رائج ہوا یعنی کہ ہر بچے کو روز سکول آنا ہے اور ایلمنٹری تک تعلیم حاصل کرنی لازم ہے جو کہ بعد میں فرسٹ سے آٹھویں گریڈ تک بڑھا دیا گیا۔

امریکہ کے ساتھ ساتھ باقی دنیا نے بھی کیری کولم، گریڈنگ، حاضری کا سسٹم نافذ کر دیا، کچھ طریقے امریکہ سے مختلف ہو سکتے تھے لیکن بنیادی ڈھانچہ وہی رکھا گیا، غور کرنے کی بات یہ ہے کہ جیسے ہی سکولنگ سسٹم آیا دنیا کہیں سے کہیں پہنچ گئی، اس کی وجہ تھی کہ جیسے ’’کامیاب انسان‘‘ بنانے کی فیکٹری لگا دی گئی تھی، بچہ پانچ سال کی عمر میں اس فیکٹری میں جاتا ہے اور سولہ سال کا ہو کر ایک کامیاب شخصیت بن کر نکلتا ہے، ان برسوں میں جو کہ بچے کی Growing ageہوتی ہے اس کو وہ سب سیکھنے کے مواقع مل جاتے ہیں جن کے سہارے وہ زندگی کامیابی سے گزارنے کے بہت سے گُر سیکھ لیتا ہے، بڑے بڑے کا رنامے بھی انجام دیتا ہے ،تعلیم ہی کامیاب زندگی کی کنجی ہے۔

Covid-19کی وجہ سے امریکہ بھر کے تمام سکول جلد ہی بند کر دئیے گئے گرمیوں کی چھٹیوں کیلئے کچھ دن میں یہ چھٹیاں ختم ہونے والی ہیں لیکن تمام ریاستوں نے فیصلہ کیا ہے کہ کلاسیں اب On lineہوں گی، سکول میں نہیں، جو بچہ اس وقت پانچ سال کا ہے اس کیلئے ایک سال کا وقفہ بہت معنی رکھتا ہے، کرونا کی وجہ سے سکول نہیں کھول سکتے، پچھلے سو سال کی ترقی کودیکھیں جو سکول کھلنے اور سکول جانے کی وجہ سے ہوئی وہ سکول نہ جا کر ہر گز نہیں ہو سکتی، بچوں کی صحت مند جسمانی اور دماغی activitiesایک دوسرے سے مقابلے کی ،آگے بڑھنے کی لگن لیکن Covid19نے مجبور کر دیا ہے۔

ہم امید کرتے ہیں کہ یہ لعنت جلد ہی ختم ہو اور ہمارے ان بچوں پر جو سکول جانے کی عمر میں ہیں اثر انداز نہ ہو۔