مائنس ون یا مائنس آل ،صدارتی نظام ملک کے لئے بہترین ہے

309

پاکستان میں آج کل یہ بحث بہت زوروں پر ہے کہ عمران خان مائنس ون ہونے جارہے ہیں، اس کے بعد شہباز شریف ملک کے آئندہ وزیراعظم ہونگے یا پھر پی ٹی آئی سے شاہ محمود قریشی یا اسد عمر نئے وزیراعظم ہونگے، یہ بحث اس وقت شروع ہوئی جب مولانا فضل الرحمن کا دھرنا شروع ہوا، اس کے اتنے دن بعد جب شہباز شریف کرونا وائرس کی بیماری کے باوجود بھی پاکستان آئے ساتھ ساتھ ایم کیو ایم نے حکومت کوآنکھیں دکھانی شروع کر دی تو خالد مقبول صدیقی نے استعفیٰ دے دیا، پھر دوسرے اتحادی مینگل نے علیحدگی کا اعلان کر دیا، پھر ق لیگ عمران خان کی دعوت میں نہیں آئی بلکہ باہر بیٹھ کر بیان بازی کرتی رہی کہ ہم حکومت کے ساتھ ہیں لیکن ہمارے کچھ تحفظات ہیں غرضیکہ عمران خان پر ہر طرف سے حملہ ہو رہا تھا لیکن وہ جرأت مند اور بہادر انسان خاموشی سے ہر حملہ برداشت کرتا رہا لیکن آخر اس کو ایک میٹنگ میں کہنا ہی پڑا کہ مائنس ون کہہ کر لوگ جو خوش ہورہے ہیں ان کو معلوم نہیں کہ یہ مائنس ون نہیں ہو گا بلکہ مائنس آل ہو گا اور کسی کو اس غلط فہمی میں نہیں رہنا چاہیے کہ حکومت کسی اور کو مل جائیگی۔
میری ذاتی رائے میں عمران خان کو سیاست آتی ہی نہیں، وہ ایک بہت بڑا ریفارمر ہے وہ ملک کو کرپشن سے پاک کرنے کے لئے آیا اگر وہ چالاک اور کرپٹ سیاستدان ہوتا تو آنے کے اگلے ماہ ہی پیپلز پارٹی اور ن لیگ میں فارورڈ بلاک بنواتا اور تیس تیس آدمی دونوں پارٹیوں سے توڑ کر اپنی حکومت کو مضبوط کر لیتا، پھر نہ ایم کیو ایم کی بلیک میلنگ کی ضرورت پڑتی نہ مینگل کی ضرورت پڑتی، نہ ق لیگ کی بلیک میلنگ کا دبائو آتا، سکون سے 5سال حکومت کرتا، بلکہ اگلے پانچ سال بھی حکومت کرتا اور ان کرپٹ عناصر کی بری طرح ٹھکائی کرتا، لیکن شریف آدمی ہے، اگر آپ کو یاد ہو زرداری کس طرح ق لیگ کو قاتل لیگ کہتا تھا لیکن جب ایم کیو ایم اور الطاف حسین کا دبائو آنے لگا تو اس نے ق لیگ سے ہاتھ ملا لیا، ان کے 50سے زیادہ ایم این اے کو اپنی طرف ملا لیا بلکہ چودھری پرویز الٰہی کو نائب وزیراعظم بنا یا حالانکہ آئین میں کسی بھی نائب وزیراعظم کی گنجائش نہیں تھی، یہ تھی مطلب کی سیاست جو ضرورت پڑنے پر زرداری جیسے لوگ گدھے کو بھی باپ بنا لیتے ہیں لیکن عمران خان کی سیاست اور عادت میں یہ بات شامل نہیں ہے ورنہ اس طرح چھوٹی چھوٹی پارٹیاں،دھمکیاں اور بلیک میل نہ کرتیں اور شہباز شریف جیسے کرپٹ لوگ وزیراعظم بننے کا خواب نہ دیکھتے ہوئے۔
نواز شریف اپنی بیٹی مریم کو وزیراعظم بنوانے کا خواب بھی نہ دیکھتے، ملک میں آئندہ کیا کیا ہو سکتا ہے یہ سب سے اہم سوال ہے یہ نظام تو اب فوج رہنے نہیں دے گی، اس لئے کہ جتنی پرابلم آرہی ہیں وہ اس نظام کی وجہ سے آرہی ہیں ہر ممبر حکومت کو بلیک میل کرنے کی کوشش کرتا ہے،ہر پارٹی روز حکومت تبدیل کرنے کی بات کرتی ہے،فوج اور دفاعی ادارے جو نظام تبدیل کرنے کی بات سوچ رہے ہیں وہ صدارتی نظام ہے، میری ذاتی رائے میں صدارتی نظام اس ملک کے ـباقی صفحہ 7بقیہ نمبرلئے بہترین نظام ثابت ہو گا، پہلے ایوب خان کے وقت میں صدارتی نظام رائج تھا لیکن اس کو چننے کا طریقہ غلط تھا، صدر کو بی ڈی ممبرچنتے تھے لیکن وہ غلط تھا، عوام کو ڈائریکٹ صدر کو ووٹ دینا چاہیے جیسا کہ امریکہ میں نظام رائج ہے، پھر صدر اپنی کیبنٹ بناتا ہے اور اس ملک کے لئے یہ ہی نظام بہتر ہو گا، بہت سے ٹی وی کمپیئر یہ بات کافی دنوں سے چلارہے ہیں کہ ملک کا نظام تبدیل ہونے جارہا ہے لیکن کرونا وائرس اور خطے میں جنگ کی صورت حال اس تبدیلی کو لیٹ کرنے جارہے ہیں، امریکہ چین اور بھارت حالت جنگ میں ہیں کسی وقت بھی جنگ شروع ہوسکتی ہے، اگر یہ جنگ شروع ہو گئی تو یہ جنگ کب ختم ہو گی کسی کو نہیں پتہ اور کتنے ملک اس میں شامل ہو جائیں گے یہ بھی کسی کو نہیں پتا، دوسرے مسئلہ کشمیر بھی اس جنگ سے حل ہو گا اور کشمیر کی آزادی بہت قریب ہے، حالات اور وقت اس کا فیصلہ کریں گے کہ صدارتی نظام کب پاکستان میں نافذ ہو گا۔