پاکستان میں آئے دن کسی نہ کسی عوام کی ضرورت کی چیز یا سہولت کی کمی یا اس کی مہنگائی یا بالکل غائب ہونے کا واویلا پڑا رہتا ہے۔ ابھی تھوڑے دن پہلے پٹرول غائب ہو گیا۔ کبھی بجلی، کبھی چینی اور کبھی آٹا اور کبھی ٹماٹر۔ گیس تو اکثر غائب رہتی ہے اور صاف پینے کے پانی کا بھی کوئی بھروسہ نہیں۔اور ہر ایسا معاملہ ایک بحران بنا دیا جاتا ہے۔ مخالفین جنہیں اللہ ایسا موقع دے، میڈیا کی تال پر بھنگڑے ڈالتے ہیں کہ عمران خان کو نیچا دکھانے کا ایک اور موقع ہاتھ آ گیا۔ہماری گزارش ہے (چھوٹا منہ بڑی بات)، کہ وزیر اعظم ان بحرانوں کے پیدا ہونے سے بچنے کے لیے منصوبہ بندی کے کمیشن کو ذمہ واری سونپ دیں۔ یہ کمیشن وفاق کی سطح پر بھی ہے اور ہر صوبہ میں بھی۔ ان کو چاہیے کہ وہ ہر ایسے بحران کی پیش بندی کے لیے، بر وقت حکومتوں کو خبردار کریں تا کہ یا بحران بن نہ سکے یا اسکے حل میں زیادہ دیر نہ لگے۔ان کمیشنوں میں بڑے بڑے افسر ہیں جو یا ماہر اقتصادیات ہوتے ہیں یا اور منصوبہ بندی سے متعلق علوم کے ماہر، او ر وہ ایسے بحرانوں کے سیاق و سباق کو بخوبی سمجھتے ہیں۔ اور ملکی ضروریات اور وسائل کی حال اور مستقبل کی صورت حال کے تخمینے بخوبی لگا سکتے ہیں۔ان اداروں کو ہر مہینے رپورٹ کرنے کا پابند کریں۔ اور اگر بحران پیدا ہونے والا ہے تو خصوصی رپورٹ فوراً وزیر اعظم اور صوبوں کے وزراء اعلیٰ کو ہنگامی بنیادوں پر پیش کریں۔
ابھی حال ہی میں ہونے والے پٹرول کے بحران کی مثال لے لیں۔ مارکیٹ سے ایک دم پٹرول غائب ہو گیا؟ بھلا کیسے؟ کیا کسی کو نہیں پتہ تھا کہ ملک میں ، ہر صوبہ، شہر اور قصبہ میں روزآنہ کتنا پٹرول فروخت ہوتا ہے؟ کتنا پٹرول دستیاب ہوتا ہے؟ اور ان کی سپلائی لائن میں کتنا آتا ہے؟ سپلائی اور مانگ میں کب اور کہاں تعطل پیدا ہونے کا اندیشہ ہے؟ اگر کمپنیوں نے تیل کی درآمد روک دی ہے تو کیوں اور اس کو کیسے بحال کیا جا سکتا ہے؟ اب حال میں ہونے والے پٹرول کے بحران کی ایک وجہ جو اس نادان قلمکارکے ذہن میں آتی ہے کہ جب تیل کی قیمتیں بڑھ گئیں تو تیل کی کمپنیوں نے غالباً حکومتی اداروں سے پوچھا ہو گا کہ کیا وہ مہنگا تیل خریدیں تو کیا حکومت پمپوں پر قیمت بڑھانے کی اجازت دے گی؟ لگتا ہے کہ اس سوال کے جواب میں دیر ہو گئی اور تیل کی کمپنیوں نے نقصان کے پیش نظر تیل نہیں خریدا۔ جس سے بحران پیدا ہو گیا۔ حقیقتاً یہ معاملات زیادہ پیچیدہ اورتیزی سے فیصلہ کے خواہاں ہوتے ہیں اور بیوروکریٹک تاخیر کے متحمل نہیں ہوتے جو غالباً اس موقع پر ہوئی۔اوگرا نے سارا ملبا کمپنیوں پر ڈال دیا اور ان پر جرمانے بھی عائد کیے جو غالباً وہ کمپنیاںنہیں مانیں گی۔اور در اصل یہ سب حکومتی اداروں کی منصوبہ بندی کے فقدان کا نتیجہ معلوم ہوتا ہے۔ اگر وزیر اعظم ہمارے مشورے پر عمل کریں تو ان کو بھی سکھ کا سانس ملے گا اور روز ایک نئے تماشے سے نبڑنے کی ضرورت بھی نہیں رہے گی۔اس طرح وزیر اعظم ملک کی فلاح اور بہبود کے دوسرے چیلنجز پر توجہ دے سکیں گے جو تعطل کا شکار ہیں جیسے کہ تعلیم اور صحت کے منصوبے، درآمدات کم کرنے کے منصوبے، ہائیڈرو الیکٹرک کی ترقی، وغیرہ وغیرہ۔اس ساری کہانی بتانے کا ایک ہی مختصرمطلب ہے کہ وزیر اعظم تمام ممکن بحرانوں کی شناخت کروا کر کسی نہ کسی ذمہ وار ادارے کو ان پرگہری نظر رکھنے کی ذمہ واری دے دیں جو حکومت کو بر وقت بحران بننے سے پہلے آگاہ کرے۔اور مشورہ دے کہ کیا کرنا چاہیے اور کب؟
پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان کی حکومت کو جو مخالفین نے نشانہ بنایا ہوا ہے وہ کوئی ایسی وجہ نہیں ہے جو حکومت کی پیدا کردہ ہو۔ مخالفین تو مخالفت برائے مخالفت کاڈھول بجانا جانتے ہیں۔ کوئی بھی ایسا واقعہ جس سے عوام کو بھڑکایا جا سکے اس کو پکڑ کر اچھالا جاتا ہے کہ سیاستدان اور میڈیا ملکر رائی کا پہاڑ بنا دیتے ہیں۔خواہ اس مسئلہ میں جان ہو یا نہ ہو۔ یہی مثال مولانا فضل الرحمن پر بھی صادق آتی ہے جو کسی بھی مسئلہ کو جس کا تعلق مذہب سے بنتا ہو، اسے اچھالنے اور اس سے پوری طرح حکومت کے خلاف استعمال کرنے سے نہیںچوکتے۔ مخالفین تو حکومت کی کرپشن کے خلاف مہم کی وجہ سے سٹپٹائے ہوئے ہیں نہ صرف ان کی اوپر کی آمدنی کے ذرائع خشک ہو رہے ہیں، ان کے جمع کردہ اثاثے بھی بحق سرکار ضبط ہوتے نظر آ رہے ہیں۔ جیل جانے کے امکانات اس سے علاوہ ہیں۔ چنانچہ ان رشوت خوروں، ڈاکوئوں اور لٹیروں کو بس ایک ہی خواب نظر آتا ہے کہ کسی طرح عمران خان کو حکومت سے نکال دیا جائے پھر ان کے مزے ہی مزے ہیں۔ میڈیا جو شریفوں اور زرداری کی حکومتوں سے کھلا پیسہ لینے کا عادی بن گیا تھا، وہ عمران خان سے ناراض ہے کہ اس نے اس بندر بانٹ پر پابندیاں لگا دی ہیں۔اب میڈیا کو ملک ریاض جیسے محسن اور غریب نواز مل گئے ہیںجو حکومت کے خلاف ہرزہ سرائی کا صلہ دیتے ہیں، تو حکومت کی مخالفت کے نت نئے حربے بنتے اور استعمال ہوتے رہتے ہیں۔کبھی حکومت گرانے کی باتیں ہوتی ہیں، کبھی مائینس ون کی مہم چلتی ہے اور کبھی پنجاب کے وزیر اعلیٰ کو نشانے پر رکھ لیا جاتا ہے۔ اور کچھ نہیں تو حکومتی وزیروں اور مشیروں کو تختہ مشق بنایا جاتا ہے۔ افسوس تو اس بات کا ہے کہ بڑے بڑے نامور اور مقبول صحافی، تجزیہ کار اور حتی کہ میڈیا کے کامیڈین بھی عمران خان کے خلاف راگ الاپنے میں شامل ہو جاتے ہیں۔ ان صحافیوں اور تجزیہ کاروں کی تعداد اب مٹھی بھر رہ گئی ہے جو ابھی بھی اس نقار خانے میں حق کا کلمہ بلند کرتے ہیں۔
ان حالات میں عمران خان اتنے پریشان ہو جاتے ہیں کہ انہیں مخالفین کی باتیںمعقول نظر آنے لگتی ہیں۔اور وہ انکی بکواس کا جواب دینے لگتے ہیں۔یہ بالکل ایسا ہے کہ ُملا نصیر الدین نے ایک بکری خریدی اور اس کو رسی سے باندھ کر گھر لے جارہے تھے کہ تین اچکوں نے ان کی بکری ہتھیانے کا منصوبہ بنایا۔ چنانچہ، ایک اچکے نے مُلا سے کہا ،مُلا، یہ کتا کہاں لے جا رہے ہو؟ کوئی اتنا خاص تو نہیں ہے۔مُلا نے کہا، چلو چلو، یہ کتا نہیں بکری ہے۔ تھوڑا اور چلے تو دوسرے اچکے نے بھی یہی بات کی کہ مُلا یہ کتا کہاں لیکر جا رہے ہو؟ اب مُلا کہ دل میں تجسس بڑھ گیا کہ یہ واقعی کتا تو نہیں؟ لیکن انہوں نے دوسرے اچکے کو بھی دھتکار دیا۔ تھوڑا اور چلے تو تیسرے اچکے نے کہا، مُلا یہ کتا کہاں لیکر جا رہے ہو ؟ اسے حلال تو نہیں کرنا؟ مُلا کو اب پورا یقین ہو گیا کہ ان کی بکری نہیں ، کتا ہے۔ انہوں نے بکری کی رسی اس اچکے کو دیتے ہوئے کہا کہ لو تم ہی یہ کتا لے لو ۔ میں نے تو اس کو بکری سمجھ کر خریدا تھا۔ عمران خان کے مخالفین اس کہانی کی قوت کا پورا اندازہ رکھتے ہیں اور کچھ کچھ عرصہ کے بعد کوئی نہ کوئی نئی کہانی گھڑ لاتے ہیں۔ اب عمران خان بھی انسان ہیں۔ وہ بھی مُلا کی طرح ایسے جالوں میں پھنس جاتے ہیں، وزیر بدلتے ہیں، مشیر بدلتے ہیں اور پالیسیز بدل دیتے ہیں۔البتہ ایک عقل کی بات کی ہے کہ جس جس طرح میڈیا اور مخالفین نے پنجاب کے وزیر اعلیٰ کے خلاف زہرا فشانی کی، عمران خان اپنے ارادے سے متزلزل نہیں ہوئے۔ ورنہ مخالفین نے تو بے چارے بُزدار کو کتا بنانے میں کوئی کثر نہیں چھوڑی تھی۔ در حقیقت، وزیر اعلیٰ عثمان بُزدار ایک کم گو، ایماندار، اور جفا کش لیڈر ہیں جوسابق وزیر اعلیٰ کی طرح شو باز نہیں ہیں۔چونک وہ کرپٹ نہیں اور کرپشن کے خلاف ہیں، تو وہ اکیلے اس میدان میں ڈٹے ہوئے ہیں۔ان کے مقابلے میں پوری سول سروس ہے۔ کرپٹ سیاستدان ہیں اور ہزاروں پٹواری ہیں، جن کے روزگار کو خطرہ لاحق ہے۔اگر انکی جگہ کوئی جہاندیدہ سیاستدان ہوتا تو اس کو شیشہ میں اتارنا کوئی اتنا مشکل کام نہ ہوتا۔یہ پاکستانیوں کی خوش قسمتی ہے جب تک عثمان بُزدار وزیر اعلیٰ کے عہدے پر اپنے فرائض بجا لاتے ہیں۔
اس لمبی تمہید کے پیچھے مخالفین کی وہ ایک زہریلی مہم ہے جو پٹرول کی قیمتیںبڑھنے پر چلائی گئی۔ پٹرول کی قیمت میںتقریباً۲۶ روپے لیٹر بڑھنے سے جو اضافہ ہوا اسے عوام پر پٹرول بم کا نام دیا گیا۔ اس الزام سے ایک تو خوشی کی خبر کا سراغ ملتا ہے کہ پاکستان کے عوام کتنے امیر ہوگئے ہیں کہ سب کے پاس کاریں ہیں اور ان کو پٹرول کی قیمت بڑھنے سے بہت صدمہ پہنچا ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ قیمت بڑھی نہیں تھی بلکہ پہلے والی سطح پر آ گئی تھی۔ میڈیا نے جو چیخ چیخ کر پٹرول بم کا راگ الاپا، ان کو شرم آنی چاہیے کہ ملک میں صرف ۹ فیصد گھرانے ہیں جن کے پاس کار ہے اور یہ تعداد بھی 2015 میں صرف ۵ فیصد تھی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ۹۱ فیصد گھرانوں کی صحت پر اس ’’بم‘‘ کا کوئی قابل ذکراثر نہیں پڑتا۔کیونکہ اشیائے خورد و نوش کی قیمتیں نہ پٹرول کی قیمت کم ہونے سے کم ہوئیں اور نہ بڑھنے سے بڑھنی چاہیے تھیں، کیونکہ ان کی قیمتوں میں پٹرول کی قیمت برائے نام ہی فرق پڑتا ہے۔ لیکن چونکہ عوام کو بیوقوف بنانا آسان ہوتا ہے اس لیے اسے بم بنا دیا جاتا ہے۔اگر عوام کی جیب پر بوجھ پڑتا بھی ہے تو وہ ان حضرات پر جو موٹر سائیکل چلاتے ہیں۔ لیکن ان کو بھی اتنا نمایاں فرق نہیں پڑے گا۔ اگر قیمت بڑھنے سے پہلے ایک موٹر سائیکلسٹ کو ایک کلو میٹر چلانے کے لیے ایک روپیہ ۶۷ پیسہ کا پٹرول لگتا تھا تو اب اسی فاصلہ کے لیے دو روپے بائیس پیسے کا پٹرول لگے گا یعنی ۵۶ پیسے فی کلو میٹر زیادہ۔ یاد رہے کہ ملک کے تقریباً نصف گھرانوں میں موٹر سائیکل بھی نہیں ہے۔ ان اعدادو شمار سے پتہ چلتا ہے کہ میڈیا اور مخالفین سیاستدان کتنی لا علمی اور بے شرمی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔اور عوام چونکہ کم تعلیم رکھتے ہیں یا بالکل بھی نہیں، انہیں بیوقوف بنانا ان کا روز کا مشغلہ ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں بھی پٹرول کی قیمتیں بڑھتی ہیں تو کوئی نہیں کہتا کہ عوام پر پٹرول بم پھینکا گیا ہے۔ کیونکہ ایسے ملکوں کے عوام زیادہ سمجھ رکھتے ہیں اور حکومت پر ایسے اوچھے وار نہیں کرتے۔
اب آپ بسوں کے کرایہ کی بات کریں۔فرض کیجئیے کہ ایک بس ایک گیلن ڈیزل سے ۵ کلو میٹر چلتی ہے۔اور ایک گیلن ڈیزل کی قیمت ہے 364 روپے۔ اس کا مطلب ہوا کہ Rs. 72.80 میں ایک کلو میٹر چلی۔ چونکہ اضافہ ۱۸ روپے سے بھی کم ہوا ہے تو اس کا مطلب ہوا کہ فی کلو میٹر 3.60روپے ہوا۔ اب یہ اضافہ اگر پچاس مسافروں میں تقسیم کیا جائے تو فی مسافر ۷ پیسہ بنتا ہے ۔ اگر ۱۰۰ کلو میٹر کا سفر ہو تو اضافہ بنا Rs. 7.20 فی مسافر۔ اب آپ اس سے حساب لگا لیجیئے کہ فاصلہ کے لحاظ سے بسوں کے مالکان کتنا اضافہ کرتے ہیں اور کتنا جائز ہوتا ہے؟ جو ٹرانسپورٹ گیس اور پٹرول دونوں پر چلتی ہے تو اس کے کرایہ میں اضافہ کی گنجائش اور بھی کم ہو گی۔یہی حساب ٹیکسیوں کا ہے اور دوسری گاڑیوں کا جو گیس پر چلتی ہیں۔
سب جانتے ہیں کہ تیل کی درآمد کرنی پڑتی ہے جو ڈالروں سے خریدا جاتا ہے اور ڈالر مہنگا ہونے سے بھی قیمت بڑھ سکتی ہے۔ اور عمران خان صاحب کو غریب آدمی کا اتنا خیال رہتا ہے کہ وہ تیل کی قیمتوں میںکم سے کم اضافہ چاہتے ہیں، حالانکہ ہمارے ہمسائے ممالک میں پٹرول اور تیل کی مصنوعات کہیں زیادہ مہنگی بکتی ہیں۔مثلاً ڈیزل ہندوستان میں 702.59 پاکستانی روپے پر گیلن فروخت ہو رہا ہے اور پاکستان میں اس کی قیمت 364.37 فی گیلن ہے۔اب جو پٹرول کی قیمت ۲۶ روپے فی لیٹر بڑھی ہے وہ اس لیے کہ سب جانتے ہیں کہ عالمی منڈیوں میں تیل کی قیمت بڑھ گئی اور اسی لیے حکومت کو بڑھانی پڑی۔اس لیے اتنی بڑھائی گئی۔یاد رہے کہ جب عالمی منڈیوں میں قیمت کم ہوئی تھی تو پاکستان نے اپنے عوام کو فائدہ دینے کے لیے پٹرول کی قیمت کم کر دی تھی۔ اس وقت بھارت نے کیا کیا تھا؟ بھارت نے بجائے پٹرول کی قیمت کم کرنے کے، پٹرول پر ایکسائیز ڈیوٹی بڑھا دی تھی۔ لیکن عمران خان مخالفین کے پراپیگنڈے سے اتنا گھبراتے ہیں کہ وہ ایسا کرنا سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔ حالانکہ پٹرول کی قیمتیں اتنا کم کرنا بنتا بھی نہیں تھا۔ حکومت کو کووِڈ ۱۹ کی وباء سے نبرد آزما ہونے کے لیے، مالیہ کی ضرورت تھی۔ ان حالات میں پٹرول کی قیمتیں کم کر کے حکومت نے اپنے قرض خواہوں کو بھی ناراض کیا اور مخالفین نے اس پر بھی ناک بھوں چڑھائیں۔ اور وہ جو قیمت بڑھانے پر اجناس اور اشیا ئے خورد و نوش کی قیمتوں میں اضافے کا راگ الاپا جاتا تھا، ان چیزوں کی قیمتوں میں کوئی فرق نہیں پڑا۔
Prev Post
Next Post